مجھے کتنا شرمندہ کرو گے
اکثر پاکستانی جنہوں نے زندگی کے پچیس تیس سال یہاں گزار کر نقل مکانی کی ہوتی ہے‘ کبھی بھی پورے غیرملکی نہیں بن پاتے۔
اب میرے دوست ارشد خاں کی عمر پچاس سال ہو گی۔ پچیس سال قبل وہ امریکا چلا گیا تھا لیکن ہر سال چند ہفتوں کے لیے ہوم سک ہو کر یا مجھے پریشان کرنے کے لیے پاکستان ضرور آتا ہے۔ اس بار بھی وہ آیا اور ہر دوسرے تیسرے دن بغل میں چند اخبار دبائے طویل شام گزارنے میرے ہاں آ جاتا ہے۔ مجھے معلوم ہے، اس نے گزشتہ کئی دن کی خبریں ہائی لائیٹر سے نمایاں کر رکھی ہوں گی اور ان کے بارے میں مجھ سے تبادلہ خیال کرے گا۔
اکثر پاکستانی جنہوں نے زندگی کے پچیس تیس سال یہاں گزار کر نقل مکانی کی ہوتی ہے' کبھی بھی پورے غیرملکی نہیں بن پاتے۔ اگرچہ وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں لیکن علاوہ رشتہ داریوں کے وہ اندر سے پاکستانی ہی رہتے ہیں اور پاکستان کے برے حالات ان کے دل و دماغ کو مسلسل متاثر کرتے اور پریشان رکھتے ہیں۔ میرے دوست ارشد خاں کا تعلق بھی ایسی ہی کیٹیگری سے ہے۔ اس کا ڈریس اور طور طریقہ بدیسی ضرور ہوتا ہے لیکن دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو اس کا ٹیلی فون کیوں ہفتے میں دو بار آیا کرے اور اگر وہ پاکستان آئے تو بغل میں لوکل اخبار دبائے ان کی خبریں ہائی لائٹ کر کے مجھ سے بحث و تکرار کرنے کیوں آیا کرے۔
بعض خبریں تو اسے اتنا ڈسٹرب کرتی ہیں کہ اس کے بس میں ہو تو وہ ہماری So Called اشرافیہ سے ٹکرانے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس بار ارشد خاں کے پاس چند پرانے اخباروں کے علاوہ تازہ ترین اخبار بھی تھے جن کی خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں داخل کی گئی چند پٹیشنز پر عدالت کے فیصلے کا منشاء تھا کہ گزشتہ کئی سال سے گھریلو صارفین' تاجر' کارخانہ دار ہی نہیں دفاتر' تعلیمی ادارے اور اسپتال بلکہ ملک کے تمام افراد انرجی کرائسس کا عذاب بھگت رہے ہیں اور یہ وہ زمانہ ہے جب دنیا کی پسماندہ اندھیر نگریاں بھی روشن ہو رہی ہیں اور گراں خواب چینی بیدار ہو کر ترقی کی منزلیں مار رہے ہیں لیکن پاکستان اکثر شعبہ حیات میں تنزلی' گمراہی اور گمنامی کے گڑھے میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ جو لوگ عدالت میں گئے، ان کی درخواست تھی کہ سیاسی ڈھونگ کے نتیجے میں بجلی اور پانی کا بحران پیدا کر دیا گیا ہے جو کالا باغ ڈیم بنانے سے دور کیا جا سکتا ہے۔
جب عدالت عالیہ کو صحیح قانونی پوزیشن بتائی گئی کہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے 16 ستمبر 1991ء کو اور دوسری بار 9 مئی 1998ء کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ملک کی انرجی اور پانی کی ضروریات کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا جو آئین کے آرٹیکل 154 کے عین مطابق تھیں تو عدالت نے قرار دیا کہ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سیاسی ہے جسے صوبوں کے درمیان گفت گو سے طے کر کے عوام کو توانائی کے بحران سے بچایا جائے اور یہ کہ حکومت مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کی پابند ہے۔ لہٰذا سٹیک ہولڈروں کے خدشات دور کرنے کے لیے فریم ورک بنا کر کونسل سے رجوع کیا جائے۔ ارشد خاں کا کہنا تھا کہ حکومت کی ناکامی پر ملک کی عدالت عالیہ کو پٹیشن آنے پر دخل اندازی کرنی پڑی ہے لہٰذا مجھے بھی ارشد خاں کی غصیلی پریشانی سے اتفاق کرنا پڑا اور میں شرمندہ ہوا کہ ملک سے نقل مکانی کر جانے والا ملک کے انرجی کرائسس پر درد مندی کا اظہار کر رہا ہے اور ہم بے حس ہیں۔
ایک روز میرا یہ دوست آیا۔ بغل میں دبائے ہوئے اخبار میز پر رکھے اور ایک ایک کر کے ان کی شہ سرخیاں پڑھنا شروع کر دیں۔ پہلی خبر تھی ''کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر روز آٹھ دس بارہ لوگ نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ نامعلوم سمت سے آنے والی گولی کسی بھی شخص کو شکار کر سکتی ہے۔'' یہ خبر پڑھ کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہا ''ایسی خبر ہر روز اخبار میں چھپی دیکھ کر کیا کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اسلحہ بردار کون لوگ ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ یہ کس طرح دندناتے پھرتے ہیں۔'' میرے پاس اس کے ریمارکس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اب اس نے دوسرا اخبار اٹھایا اور خبر پڑھی ''پاکستان میں بدترین جرائم پر بھی مجرم کو سزا ملنے کی خبر سننے پڑھنے کو نہیں ملتی اور ملزم عدم ثبوت کی بناء پر ہنستا کھیلتا ہتھکڑی کھلوا کر عدالت سے بری ہو جاتا ہے۔'' مجھے اس خبر پر کوئی حیرت نہ ہوئی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ صرف سزا یابی اور سزا کا خوف ہی جرائم کو روک سکتا ہے۔
میرے دوست نے ایک اور اخبار کھول کر خبر پڑھنا شروع کر دی ''اکثر اسپتالوں میں چوہوں کی بھرمار ہے۔ اس کی ایک وجہ گندگی ہے جس کی ذمے دار اسپتال انتظامیہ کے علاوہ ہر مریض کے دس بارہ تیماردار ہیں جو اسپتال کے اندر کھانا کھا کر روٹیاں بوٹیاں اور بچا ہوا کھانا وہیں اردگرد پھینک کر فارغ ہو جاتے ہیں۔'' مجھے اس خبر میں پوری صداقت نظر آئی کیونکہ اکثر مریضوں کے تیماردار اگر دور دراز سے آئے ہوں تو اسپتالوں کے لان میں اور اردگرد بیٹھ کر کھانا کھاتے اور گندگی پھیلاتے کسی وقت بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسے درجنوں تیماردار دراصل ہمدردی میں اور آؤٹنگ پر آتے ہوتے ہیں۔ ارشد خاں نے تازہ ترین خبر اخبار میں سے پڑھی ''بوگس ووٹوں کے کیس میں کراچی کی عدالت میں وکیل کا مؤقف ہے کہ 120 گز کے مکان کے پتے پر 653 ووٹ بنے ہیں۔ اتنی تعداد میں اتنے چھوٹے سے مکان میں 653 بالغ ووٹر کیسے رہائش پذیر اور رجسٹر ہو گئے۔'' یہ خبر البتہ مضحکہ خیز ہی نہیں افسوس ناک بھی تھی۔ اس کے بعد جب میرے دوست نے یہ خبر پڑھی کہ ''محرم کے ماتمی جلوس کے قریب بم دھماکے سے 8 بچے جاں بحق ہو گئے'' تو یہ خبر سن کر میں نے اپنے دوست کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا ''پیارے مجھے تمہارے پاکستان آنے پر خوشی ہوئی لیکن تم مجھے کتنا شرمندہ کرنا چاہتے ہو۔''