معراج اپنے معراج پہ پہنچ گئے
اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بانکی مون بھی انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ابھی چند مہینوں قبل کی بات ہے کہ معراج محمد خان آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طبقاتی نظام، سرمایہ داری کی لوٹ کھسوٹ اور سامراجی استحصال کے خلاف برس رہے تھے، لیکن وہ آج جسمانی طور پر ہم میں اب نہیں رہے۔ معراج 19 اکتوبر 1938 میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان آگئے اور لاہور و کوئٹہ میں تعلیم حاصل کی۔
1957 میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن بنے۔ 1958 میں جب امریکی صدر آئزن ہاور پاکستان آئے تو کراچی ائیرپورٹ پر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے ان کے خلاف مظاہرے کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ اس جرم میں شریک معراج محمد خان کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا اور تین ماہ قید میں رکھا گیا۔ کچھ عرصے بعد جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا اور پھر این ایس ایف پر پابندی لگ گئی۔ اس کے بعد معراج کہاں چین سے بیٹھنے والے تھے، انھوں نے انٹر کالجیٹ باڈی بنانے کی ٹھانی۔ اس باڈی میں فتحیاب علی خان صدر اور معراج محمد خان نائب صدر منتخب ہوئے۔
ان ہی دنوں کانگو کے صدر کامریڈ پیٹرس لوممبا کی ہلاکت پر این ایس ایف نے احتجاج شروع کیا، جو کہ حکومت مخالف تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ 1962 میں کراچی کے پولو گراؤنڈ میں مسلم لیگ کا جلسہ تھا، جس کی صدارت خلیق الزمان صدیقی کررہے تھے اور اسٹیج سیکریٹری ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ این ایس ایف کے طالب علم مسلم لیگ کا بیج لگا کر سخت سیکیورٹی کے باوجود جلسہ گاہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور اسٹیج پر قبضہ کرلیا۔ اس عمل میں معراج پیش پیش تھے، پھر جلسہ درہم برہم ہوگیا۔
1967 میں معراج خان پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جب اپنے کیے وعدے سے پھر کر مزدوروں اور کسانوں کے مطالبات نہ مانے تو معراج محمد خان نے 1973 میں پی پی پی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ معراج صاحب نے 1974 میں قومی محاذ آزادی کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی اور وہ خود اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ 1978 کی صحافیوں کی تحریک میں کراچی سے سب سے زیادہ گرفتاریاں قومی محاذ آزادی نے دی تھی۔معراج محمد خان کا نظریہ بقول فوکوہاما کے end of the history نہیں بلکہ beginning of the history ہے۔ تا ریخ کا اختتام نہیں بلکہ تاریخ کی ابتدا ہے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بانکی مون بھی انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ مہینوں میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پوپ کی تقریر کے بعد معروف انارکسٹ کامریڈ جان لینن کا گانا 'قیاس تو کرو' کو شکیرا نے گایا۔ بعض دائیں بازو کے دانشور سیکولرازم اور لبرل ازم کو بھی کمیونسٹ تحریک سے جوڑ دیتے ہیں، جب کہ سیکولرازم سرمایہ داری کی پیداوار ہے، اس لیے کہ اسے اپنی پیداوار کی ترسیل کے لیے دنیا کے ہر گوشے میں اپنا آشیانہ بنانا پڑتا ہے۔ برصغیر کے معروف انقلابی اور کمیونسٹ رہنما مخدوم محی الدین، ساحر لدھیانوی، چارو مجوم دار سے لے کر فیض احمد فیض، حبیب جالب، اسلم اظہر تک ایسے ہزاروں لاکھوں نام ہیں جو کمیونسٹ سماج کی تشکیل کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ آج بھی ہندوستان کی ایک تہائی آبادی پر ماؤ نواز کمیونسٹوں کا قبضہ ہے اور حکومت کے مطابق بانوے ہزار مربع میل جنگلات پر کمیونسٹوں کا راج ہے۔
ہندوستان کا صو بہ کیرالا اور پڑوسی ملک نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے اور ہر جانب سرخ پرچم لہرا رہے ہیں۔ سوویت یونین میں 1917 میں سوشلسٹ انقلاب آنے کے بعد 1918 میں جرمنی، 1919 میں امریکا، 1929 میں برطانیہ اور 1971 میں سوئٹزرلینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ ظالم زارشاہی کے خلاف روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد 113 نوآبادیوں نے سامراجی غلامی سے نجات حاصل کی۔ حال ہی میں کشمیر پر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انڈین پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی اور مذمت کی۔
اس سے کچھ عرصے قبل ہندوستان کی طلبا تنظیم جس کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے ہے، نے افضل گرو کی برسی پر کنہیا کمار کی قیادت میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی سمیت ہندوستان کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہڑتالیں کیں۔ جہاں تک مسلم ممالک میں انقلابی تحریک کی بات ہے تو الجزائر، مصر، لیبیا، شام، عراق، تیونس، وسطی ایشیا، کوہ قاف، ایشیائی کوچک، بلقان ریاستوں، مغربی افریقہ، انڈونیشیا، ملائیشیا، البانیہ اور ترکی وغیرہ میں کمیونسٹ تحریکیں چلیں، حکومتیں قائم ہوئیں اور آج بھی چل رہی ہیں۔ ترکی، تیونس، البانیہ، ملائیشیا، مصر کی مضبوط حزب اختلاف بائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کی بدولت وسطی ایشیا، کوہ قاف اور ایشیائی کوچک کے ممالک میں اب بھی اٹھانوے فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں۔
کمیونسٹ عالمی امداد باہمی کے معاشرے پر یقین رکھتے ہیں جب کہ داعش یا القاعدہ خود عالمی سامراج کی پیداوار ہیں، جو عالمی سرمایہ داری کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں۔ کمیونسٹ دنیا بھر کی پیداواری قوتوں اور محنت کشوں کے اتحاد کی بات کرتے ہیں جب کہ سامراج اور اس کے آلہ کار داعش وغیرہ انسانوں کو فرقہ میں تقسیم کرتے ہیں۔ جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو یہ کوئی نظام نہیں ہے۔ نظام تو قدیم امداد باہمی، غلامی، جاگیرداری، سرمایہ داری اور پھر امداد باہمی یا کمیونسٹ نظام ہے۔
جمہوریت تو رائے لینے کا ایک سادہ سا طریقہ کار ہے۔ روس میں انقلاب کے بعد وہاں بے روزگاری، مہنگائی، بھوک، افلاس،جہالت، عصمت فروشی، منشیات نوشی، خودکشی، گداگری اور بیماریوں کا خاتمہ ہوگیا تھا اور آج روس میں یہ ساری برائیاں عروج پر ہیں۔ لینن انعام صرف فیض احمد فیض کو نہیں عبدالستار ایدھی کو بھی ملا۔ آج دنیا بھر میں جو لوگ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کررہے ہیں یہ بھی انارکسٹوں اور کمیونسٹوں کی دین ہے۔
1886 میں شکاگو کی مزدور تحریک میں جن چھ رہنماؤں کو پھانسی ہوئی تھی، ان میں سے دو کا تعلق امریکا، دو کا جرمنی، ایک کا آئرلینڈ اور ایک کا انگلینڈ سے تھا، چھ مزدور رہنما جو پھانسی پر چڑھے تھے وہ سب کے سب انارکو کمیونسٹ تھے۔ حال ہی میں اسپین اور آسٹریلیا میں حزب اختلاف کی پارٹیاں بائیں بازو کی منتخب ہوکر آئی ہیں۔ برنی سینڈرز اور جیری کاربون نے امریکا اور برطانیہ میں ہلچل مچادی ہے۔ یہ ہیں انقلابی نظریات کی پیش قدمی۔