ایک سال میں تین ارب کے ویزے
چند پرانی تصاویر دیکھ رہا تھا ،1961 میں ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے پاکستان کا دورہ کیا۔
چند پرانی تصاویر دیکھ رہا تھا ،1961 میں ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ملکہ نے اپنا پہلا سرکاری دورہ 1947 میں جنوبی افریقہ کا کیا تھا جس کے بعد برصغیر پاک و ہند میں سلطنت برطانیہ کا سورج غروب ہو گیا اور پھر انھوں نے اپنی سلطنت کے ان خوبصورت ترین اور دنیا کے حسین علاقوں کو دیکھنے کی ٹھانی۔ایک تصویر میں وہ سوات کے علاقے میں موجود ہیں جہاں شہزادہ فلپ کے بائیں جانب میاں گل جہانزیب جو والئی سوات تھے ملکہ کو قدرتی حسن سے مالا مال اس خطے سے متعلق بڑے فخر سے تفصیلات بیان کر رہے ہیں۔
ملکہ نے اس دورے کے دوران تاریخی درہ خیبر بھی دیکھا اور حیرت سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے زیر تسلط رہنے والی سرزمین کو کیا حسن بخشا تھا !ملکہ برطانیہ نے 8 فروری 1961کو پشاور کے گورنر ہاؤس میں اس شہر بے مثال پشاور کی بہت تعریف کی تھی اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان ان کے ہمراہ تھے یہاں روایتی ڈانس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، سولہ روزہ دورہ پاکستان ملکہ کے لیے خاصا یادگار رہا ۔اسی طرح کی اور بھی بہت تاریخی تصاویر ہیں ایک تصویر میں وہ صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے ہمراہ ہیں،ملکہ نے بیشمار پاکستانیوں کو برطانیہ بھیجنے کی استدعا بھی کی اور اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی برطانیہ جانے کے بعد برطانوی شہریت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے، آج بھی بہت سے پاکستانی نژاد برطانوی شہری برطانیہ کی معاشی و اقتصادی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
مجھے چند تصاویر لیڈی ڈیانا کی بھی دکھائی دیں جب انھوں نے 26 ستمبر1991 کو خیبر ایجنسی کا دورہ کیا اس وقت کے کمانڈنٹ کرنل خضر حیات، پولیٹیکل ایجنٹ خیبر ایجنسی عطاء اللہ طورو اور کمشنر ثمین جان بابر کے روبرو وہ بھی پاکستان کے حسن کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکیں۔یہ تصاویر دیکھ کر جہاں قلبی اطمینان حاصل کرنا مقصود تھا وہیں موجودہ برطانیہ اور پاکستان میں قائم برطانوی ہائی کمشن کے اقدامات پر کف افسوس ملنے کا موقع بھی تھا اس کی وجہ دلچسپ بھی ہے اور پریشان کن بھی !ایک دوست کا ٹیلی فون موصول ہوا جس میں انھوں نے بتایا کہ برطانوی ہائی کمشن نے انھیں برطانیہ کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے، یہ میرے لیے حیران کن خبر تھی کہ ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کے بھائی کو جو ارب پتی ہے برطانیہ نے ویزہ دینے سے انکار کیوں کیا؟ پتہ چلا کہ ویزہ مسترد کرنیوالے ویزہ افسر نے لکھا کہ وہ موصوف کے ذرائع آمدن سے مطمئن نہیں ہے۔
معلوم نہیں کہ کب سے برطانیہ نے پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار نبھانے کا کام اپنے ہاتھ لے لیا ہے پہلے ہی پاکستان میں تھوڑے ادارے ہیں جو ذرائع آمدن کا حساب کتاب رکھنے کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں لیکن ممکن ہے کہ برطانوی ہائی کمیشن بھی اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا ہاتھ بٹانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہو ۔این ٹی این سرٹیفکیٹ اور گوشواروں کے کاغذات کے باوجود ویزہ افسر کی وضاحت خاصی معنی خیز ہے۔ابھی یہ معاملہ سلجھا نہ تھا کہ ایک دوسرے دوست نے بتایا کہ ہائی کمشن نے انھیں بھی برطانیہ کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کی بینک اسٹیٹمنٹ کے مطابق آپ کی آمدن کروڑوں میں ہے لیکن آپ نے ماہانہ آمدنی 5لاکھ روپے لکھی ہے لہٰذا بقول ویزہ افسر کہ وہ مطمئن نہیں اس لیے آپ کو ویزہ دینے سے معذرت! موصوف کہنے لگے کہ آمدن جو بینک اسٹیٹمنٹ میں ہے۔
اس کے اخراجات نکال کر چند لاکھ روپے ہی تو بچتے ہیں اور ٹیکس ریٹرن بھی درخواست کے ہمراہ منسلک ہیں اب ویزہ افسر کو یہ بتایا جائے کہ وہ کتنے بزنس پارٹنر ہیں ؟ ماہانہ ان کے ادارے کے اخراجات کتنے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ، تو اچھا نہیں کہ برطانوی ہائی کمیشن چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی سہولت بھی فراہم کر دے !دوست کا کہنا تھا کہ 1857سے 1947 تک دنیا کے کئی ممالک میں برطانوی راج کی اصلاح استعمال کی جاتی تھی۔ 1947 میں پاکستان اور ہندوستان نے برطانوی سامراج سے چھٹکارا حاصل کر لیا ،ایسٹ انڈیا کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچی مگر ایک بار پھر برطانوی کمیشن کچھ کرنے جا رہا ہے میں نے دونوں دوستوں کو مطمئن کیا اور مشورہ دیا کہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بجائے کالام اور کاغان ناران جا کر وقت گزاریں اور اس خوبصورت اور قدرتی حسن کا لطف اٹھائیں جس کا اظہار ملکہ برطانیہ اور لیڈی ڈیانا نے کیا تھا اور میں لگ گیا حساب کتاب میں کہ پتہ چلے برطانیہ کا سفارتخانہ پاکستانیوں سے کتنی رقم کماتا ہے، یہ اعداد و شمار خاصے حیران کن ہیں جن کے مطابق پاکستان میں قائم بیشمار سفارتخانوں میں صرف ایک برطانیہ کا سفارتخانہ روزانہ 80 سے90 اور بسا اوقات ڈیڑھ سو سے زیادہ وزٹ ویزہ،امیگریشن اور اسٹوڈنٹس ویزوں کے لیے درخواستیں وصول کرتا ہے۔چھ ماہ کے لیے ویزہ فیس 13 ہزار،دو سال کے لیے 56 ہزار جب کہ 5سال کے لیے ایک لاکھ روپے سے زیادہ ناقابل واپسی ویزہ فیس جمع کی جاتی ہے۔
ایک سال کے دوران برطانوی ہائی کمیشن نے اسلام آباد، لاہور، کراچی اور میرپور میں پاکستان بھر سے 45 ہزار سے زیادہ ویزہ درخواستیں جمع کیں ،مجموعی طور پر اسے ویزہ فیسوں کی مد میں دو ارب34 کروڑ روپے ملے ،دلچسپ امر یہ ہے بیس ہزار سے کم ویزے جاری کیے گئے جب کہ مسترد کیے جانے والے درخواست گزاروں کو چھ ماہ بعد دوبارہ درخواست اور ویزہ فیس جمع کروانے کی ہدایت کی گئی۔
اس طرح برٹش ہائی کمیشن روزانہ 78 سے95 لاکھ روپے پاکستانیوں سے وصول کرتا ہے یوں لندن جانے کی خواہش رکھنے والے پاکستانی اچھی خاصی رقم برٹش ہائی کمیشن کو دے کر تالیاں بجاتے خالی ہاتھ واپس لوٹ آتے ہیں۔جنھیں ویزے ملتے ہیں وہ لاکھوں روپے سیر و تفریح پر خرچ کر دیتے ہیں اب کوئی بتلائے کہ برطانیہ کو دنیا بھر سے کتنی رقم محض ویزہ فیسوں کی مد میں ملتی ہو گی۔
اب رہ گئے وہ بیچارے جن کی ویزہ درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں اگر وہ فیصلہ کر لیں کہ لندن کی بجائے اپنے وطن عزیز کے قدرتی نظاروں کو دل و دماغ میں بسائیں گے ، نئی نسل کو قدرتی حسن سے مالا مال سحر انگیز علاقوں کی سیر کوجائیں گے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان بغیر کشکول پھیلائے معاشی و اقتصادی میدان میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔کیونکہ یہ اعداد و شمار تو صرف برطانیہ کے تھے اگر یورپی ممالک سمیت آسٹریلیا اور امریکا کے سفارت خانوں میں جمع کی جانے والی درخواستوں کی تفصیلات سامنے آئیں تو بات اربوں سے کھربوں روپوں میں چلی جاتی ہے کاش کہ یہ رقم پاکستان میں ہی رہ جائے!اور سفارت خانے مفت ویزے بانٹنے پر مجبور ہو جائیں۔