ہندومیرج ایکٹ بل نامکمل ہے
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے 8جنوری 2016 کو ہندو میرج رجسٹریشن بل کی منظوری دی ہے
ہندو برادری شیڈولڈ کاسٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون اما نے کہا ہے کہ ہندو میرج بل 2016ء متنازع اور نامکمل ہے جس کی وجہ سے سیکڑوں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے طلاق کے مقدمات التواء کا شکار ہیں اور ان پرکوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا ہے۔ ہندو خاتون اما نے مزید کہا کہ خاتون فیملی جج کا کہنا ہے کہ طلاق سے متعلق ہندووں کا کوئی بھی قانون پاکستان میں موجود نہیں ،سسرال والے مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ وہ مجھے مروا دیں گے ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے 8جنوری 2016 کو ہندو میرج رجسٹریشن بل کی منظوری دی ہے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس بل کے تحت ہندوؤں کی شادیوں کی رجسٹریشن کے لیے اتھارٹی قائم ہوگی، رجسٹرار بالغ اورعاقل ہندو جوڑے کی شادی کی رجسٹریشن کرے گا۔ شادی کے لیے کم ازکم عمر 18سال ہوگی، مقررہ عمر سے کم ہندو جوڑے کی شادی غیر قانونی تصورہوگی ، قانون کی خلاف ورزی قابل گرفت جرم ہوگا، خلاف ورزی کرنے والے کو 3سے6ماہ قید اور 5ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
ہندوکمیونٹی کے افراد کو صرف ایک شادی کرنے کا حق حاصل ہوگا،لیکن علیحدگی کے بعد دوسری شادی کی اجازت ہوگی۔ جوڑے کو تنسیخ شادی کے لیے فیملی کورٹ سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا اور طلاق کے بعد دوسری شادی کی اجازت ہوگی لیکن طلاق کے فیصلے کا اختیار عدالت کو حاصل ہوگا۔(جوڑا خود سے طلاق کا مجاز نہیں ہوگا )، 18سال سے کم عمرکی شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو قانون کا تحفظ حاصل ہوگا۔ حکومتی بل میں 2ترامیم کرنے کی منظوری دی گئی، پہلی ترمیم کے تحت ہندومیرج رجسٹریشن ایکٹ کا اطلاق پورے ملک پر ہوگا جب کہ اصل بل میں قانون کا اطلاق وفاقی دارالحکومت ( اسلام آباد ) کے لیے تھا۔
سیکریٹری قانون کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی نے قرارداد کی منظوری دے کر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دے دیا ہے اس لیے پورے ملک کے لیے قانون سازی ہوسکتی ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر اس کا فوری اطلاق ہوگا جب کہ سندھ نے 15فروری 2016ء کو سندھ ہندو میرج بل 2016ء منظور کر لی ہے اور پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور ہونے کے بعد وہاں بھی مذکورہ قانون لاگو ہوجائے گا ، اصل بل کے تحت شادی شدہ جوڑے میںسے کسی ایک کے لاپتہ ہونے کے 3سال بعد دوسری شادی کی اجازت دی گئی تھی لیکن اقلیتی ارکان کی تجویز پر یہ مدت بڑھا کر 4 سال کردی گئی ، ہندو رہنما رمیش لال نے کہا ہے کہ ہندوکمیونٹی کے افراد کو تبدیلی مذہب پر مجبورکیا جاتا ہے اور مذکورہ شق کی وجہ سے مذہب کی جبری تبدیلی کو تقویت ملے گی ، لیکن اکثریت ارکان کا موقف تھا کہ اس شق کی بدولت جوڑے کو تحفظ حاصل ہوجائے گا ۔ بل کے محرک ڈاکٹر درشن نے کہا کہ کوئی اگر مذہب تبدیل کر لیتا ہے تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا مگر مذہب کی تبدیلی کے بعد پھر اس مخصوص فرد پر یہ قانون لاگو نہیں ہوگا۔
قائمہ کمیٹی نے ملک کی ایک اہم اقلیتی برادری کے لیے میرج رجسٹریشن بل کی منظوری دے کر درست سمت میں پیش رفت کی ہے جس سے ہندو برادری میں تحفظ کا احساس اجاگر ہوگا اور آئینی طور پر اسے ریاست میں اپنے عقائد اور سماجی و مذہبی رسوم ورواج پرکاربند رہنے اور قانونی استحقاق اورحقوق کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات وخدشات نہیں ہونگے ، واضح رہے کہ بھارت میں ہندو میرج ایکٹ میں ترا میم ، فیملی لاء ، ہندوخواتین کے میر یٹل پراپرٹی رائٹس سمیت طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات سے پیدا شدہ پچیدگیوں پر بھارتی کابینہ اور میڈیا میں پچھلے چند برسوں سے گرما گرم مباحثے جاری ہیں ۔ تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ہندوکمیونٹی کو درپیش ایک اہم سماجی مسئلے کا مثبت حل پیش کیا ہے اور ہندوؤں کی شادی کی رجسٹریشن کا بل کمیونٹی کے کئی خدشات کا ازالہ کرسکے گا ۔ مذکورہ قانون سازی ہندوکمیونٹی کے لیے ایک مثبت سماجی پیغام ہے جس سے ان میں آئین پاکستان کے تحت مساوی شہری ہونے کا یقین مزید مستحکم ہوگا ، جب کہ ہندو لڑ کیوں سے جبری شادی کے واقعات کا ازالہ ہونے کے علاوہ ان کے شادی شادی بیاہ کے معاملات کو مکمل آئینی تحفظ حاصل ہوسکے گا۔
پاکستان میں تقریبا 25لاکھ کے قریب ہندو برادری آباد ہیں ، یہ سندھ، بلوچستان ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مقیم ہیں ۔ بنیادی طور پر سندھ میں سندھی اورایک چھوٹی سی اقلیت پنجابی اور انگریزی بولتی ہے۔ ہندو میرج ایکٹ تاخیرکا شکارکیوں ہوا؟ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق 10اپریل 2009ء کو ایک اور قرارداد سینیٹ میں بھی منظورکی گئی ۔اس مقصد کے لیے 27 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مذہبی اقلیتوں کا کوئی نمایندہ شامل نہیں تھا۔ بعد ازاں یہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے بھی قانون سازی کریں، ہندو میرج ایکٹ کی تشکیل اپنی امور میں سے ایک ہے، ہندومیرج ایکٹ کی عدم موجودگی کے وجہ سے ہندوکمیونٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا رہا ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 25کے مطابق پاکستانی قوانین کسی بھی امتیازکے بغیرتمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔اس لحاظ سے قانونی تحفظ اورمیرج رجسٹریشن پاکستانی ہندوؤں کا بنیادی حق ہے۔ شادی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ہندو برادری کے لوگ شادیوں کو قانونی طورپر ثابت نہیں کرپاتے، اس طرح پاسپورٹ اورقومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے بھی میاں بیوی کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور شوہرکے مرنے کی صورت میں اس کے بیوی اور بچے عدالت میں یہ ثابت ہی نہیں کر پاتے کہ وہ اس کی جائیداد کی حق دار ہیں اور خاص طور پر ہندوخواتین کو اپنے شوہرکے مرنے کے بعد پنشن کے حصول میں بھی دقت پیش آتی ہے ۔ ہندو میرج ایکٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہندو برادری کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا رہا ہے۔
اس صورتحال کا زیادہ نقصان ہندوخواتین کو برداشت کرنا پڑرہا تھا ۔ ہندو برادری کے لیے طلا ق یا علیحدگی کا کوئی قانون موجود نہیں تھا، اس صورت میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو چھوڑ کرخانگی ذمے داریوں سے ہاتھ اٹھا لیتا تو خاتون نہ تو اس سے طلاق لے سکتی تھیں اورنہ ہی دوسری شادی کرسکتی تھیں، ہندومیرج ایکٹ کی عدم موجودگی کا ایک بڑا نقصان ہندوخواتین کے ساتھ زبردستی شادی اورزبردستی تبدیلی مذہب کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے ۔ سندھ میں اس نوعیت کے بہت سے واقعات سامنے آتے رہے ہیں تاہم شادی کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں میں ثابت ہی نہیں کیا جاسکا کہ جس ہندو خاتون کے ساتھ زبردستی شادی کی گئی وہ پہلے سے شادی شدہ ہے ۔ 1973ء سے پارلیمنٹ میں ہندو میرج ایکٹ کی تشکیل کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم بہت سے تنازعات کے باعث قانون سازی نہیں ہوئی تھی ۔
2014ء میں رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش لال اور ڈاکٹر درشن نے مشترکہ طور پر ہندو میرج بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ۔ 13جنوری 2014ء کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ہندو میرج ایکٹ تشکیل دے۔ تاہم یہ بل تاخیر کا شکار رہا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ صرف پنجاب میں اس حوالے سے قراداد پیش کرنی ہوگی جب کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اور سندھ اسمبلی نے یہ قراردادیں منظور کرلی ہیں ۔