گل مہر اسٹریٹ نیم اسٹریٹ
آپ کو اپنے گھر کی پراپرٹی ویلیو بڑھانی ہے؟ درخت لگائیے۔ گھر و محلے پہ خوبصورتی لانی ہے؟
لاہور:
آپ کو اپنے گھر کی پراپرٹی ویلیو بڑھانی ہے؟ درخت لگائیے۔ گھر و محلے پہ خوبصورتی لانی ہے؟ درخت لگائیے، گرمی بھگانی ہے؟ درخت لگائیے۔ زندگیاں بچانی ہیں؟ درخت لگائیے۔ جی ہاں یہ کچھ زندگی اور موت والا ہی معاملہ ہے گو کہ ہمیں کہاں پرواہ۔ لاعلمی جہالت کی ماں ہے اور جہالت برائیوں کی نرسری چنانچہ ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم کچھ حقائق جان لیں جن کا تعلق براہ راست ہماری زندگیوں سے ہے مثلاً یہ کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے 2014ء کے 91 ممالک کے 1600 شہروں کے ڈیٹا بیس "2014 URBAN AMBIENT AIR QUALITY DATABASE" کے مطابق دنیا کے بیشتر شہر انتہائی خطرناک کثیف فضا میں لپٹے ہوئے ہیں۔
جہاں لوگ سانس کی بیماریوں اور دوسرے طویل المیعاد صحت کے مسائل کے رسک سے دوچار ہیں۔ اس ڈیٹا بیس کے مطابق صرف 12 فیصد لوگ ایسے شہروں میں رہائش پذیر ہیں جو WHO کی گائیڈ لائنز پہ عمل کرتے ہیں۔ WHO کے مطابق صرف 2012ء میں ہی دنیا بھر میں فضائی آلودگی کا شکار 37 لاکھ اموات ہوئیں۔ معاملات میں مزید خرابی 12 مئی 2016ء کو جاری ہونے والے WHO کے 103 ممالک کے 3000 شہروں، قصبوں اور دیہات کے تیسرے GLOBAL URBAN AMBIENT AIR POLLUTION DATABASE سے ظاہر ہوتی ہے جس کے مطابق دنیا میں شہروں کے رہائشی ہر پانچ میں سے چار افراد ان شہروں میں رہائش پذیر ہیں جو WHO کی ایئر کوالٹی گائیڈ لائنز پہ پورے نہیں اترتے۔ جس کے ساتھ ہی لوگوں کے لیے مختلف اسٹروکس، دل کی بیماریوں، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی تکالیف کے خطرات بھی مزید بڑھ گئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کے جولائی 2015ء کے ڈیٹا کے مطابق کراچی دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے جب کہ پشاور اور راولپنڈی بھی دنیا کے ٹاپ کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ ماحولیاتی مسائل کے سبب ہر سال پاکستان میں 29000 اموات ہوتی ہیں جب کہ معیشت کو 4.5 ارب روپوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی نے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں اپنی نمایاں موجودگی برقرار رکھی ہے۔ فروری 2016ء میں ہی ریسرچرز نے بیان کیا ہے کہ فضائی آلودگی ہر سال 5.5 ملین یعنی پچپن لاکھ لوگوں کو دنیا بھر میں ہلاک کر دیتی ہے۔ کراچی میں صورتحال خطرناک سے بڑھ کر خوفناک ہے۔
اگست 2014ء میں منظر عام پر آنے والی پاکستان کونسل فار سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کے CENTRE FOR ENVIRONMENTAL STUDIES کی طرف سے دردانہ رئیس ہاشمی اور Co-Authors ڈاکٹر اختر شریف، ڈاکٹر عالیہ منشی اور فاروق احمد خان کی تیارکردہ ریسرچ رپورٹ میں ثابت ہوا ہے کہ کراچی شہرکی فضا انتہائی زہریلی CO یعنی کاربن مونو آکسائیڈ گیس، سیسہ اور CADMIUM کی غیر معمولی بھاری مقدار سے آلودہ ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستان کے ماحول کو بچانے کے لیے ایک ماڈرن اور ویژنری پلان کی ضرورت ہے جس میں کوئلے کے صنعتی استعمال میں کمی، صنعتوں میں فضائی اور پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس، شہروں میں سیوریج اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا نیٹ ورک، گرین انرجی بشمول کچرے اور فضلے سے بجلی اور گیس بنانے کے پلانٹس کا نیٹ ورک، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ نظام کا قیام، پولی تھین بیگزکے گھریلو استعمال پہ مکمل پابندی، فصلوں میں کیمیکل زہر کے اسپرے کے بجائے بائیولوجیکل Solutions کا استعمال جیسے کام شامل ہیں۔ چلیے اورکچھ نہیں تو درخت ہی لگائیے یہ بھی ماحول کی بحالی کا اہم ترین جزو ہیں۔
ہمارے حکمراں تو درختوں کے الٹا دشمن ہیں۔ جنگلوں کے تحفظ کے لیے 1990ء کی دہائی سے گلگت بلتستان سے جنگلاتی لکڑی کے ملک کے دوسرے حصوں کو منتقلی پہ پابندی عائد تھی تاہم اپنی حکومت کے ختم ہونے سے صرف ایک دن قبل ہی اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے یہ پابندی اٹھا لی۔ گلگت بلتستان سیکریٹریٹ اسلام آباد کے 15 مارچ 2013ء کے نوٹیفکیشن کے مطابق وزیر اعظم نے قانونی اور غیرقانونی کاٹی گئی جنگلاتی لکڑی کے دیامیر سے ملک کے دوسرے علاقوں کو منتقلی کی اجازت دے دی۔
چنانچہ ٹمبرمافیا کی چاندی ہو گئی، درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی سے نہ صرف ماحول کو نقصان پہنچا بلکہ تربیلا ڈیم کی تہہ میں بہہ کر آنے والی مٹی میں اضافے کا مسئلہ بھی بڑھا۔ آپ کراچی کی مثال لے لیجیے جس کے شہریوں پہ نہ صرف وزارتوں، سرکاری نوکریوں، منتخب شہری حکومت، بجٹ اور فنڈز کے دروازے بند ہیں بلکہ پارکوں اور درختوں کا بھی صفایا کر دیا گیا ہے جب کہ 4 جون 2016ء میں NATIONAL FORUM FOR ENVIRONMENT AND HEALTH اور (SEPA) SINDH ENVIRONMENTAL PROTECTION AGENCY کے زیراہتمام گول میز کانفرنس MISSION: SAVE AND REHABILITATE KARACHI سے خطاب کرتے ہوئے ۔ رفیع الحق سی ای او COASTAL RESTORATION ALLIANCE FOR BIODIVERSITY نے بتایا کہ کراچی کے ہر شہری کے لیے سات درخت ہونے چاہئیں۔ دو کروڑ کی آبادی کے لیے یعنی 4 کروڑ درخت۔
اب عوام اور وڈیرہ راج سے بچے کچھے نجی وسرکاری اداروں کو ہی ایک ماڈرن سوچ اورآئیڈیے کے تحت درخت لگانے ہوں گے جیسے کہ گل مہراسٹریٹ کا آئیڈیا۔ دنیا کے کئی ممالک میں پھولدار درخت ترتیب سے لگائے جاتے ہیں جیسے کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں لگے چیری کے درخت اپنے پھولوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں گو کہ یہ زیادہ دن کے لیے نہیں کِھلتے ہیں۔ دراصل ضروری یہ ہوتا ہے کہ INDIGENOUS یعنی مقامی درخت لگائے جائیں جو کہ انسانوں، چرند پرند اور ماحول کو فائدہ پہنچائیں نہ کہ ALIEN یعنی اجنبی درخت جو الٹا نقصان پہنچائیں۔ اسلام آباد میں مشرقی ایشیا کے میل پیپر ملبری سے ہونے والا الرجی کا مسئلہ ایک مثال ہے۔
ادھرکراچی میں پہلے زیر زمین پانی کا دشمن یوکلپٹس لگایا گیا اور پھرکاٹا گیا اب کونوکارپس کا زور ہے جو دیواریں ڈھانپنے کے لیے صحیح ہے اور کچھ نہیں۔ کراچی میں کبھی طرح طرح کے خوبصورت سایہ دار مقامی درخت تھے جیسے کہ برگد، کیکر، نیم، گل مہر، زرد گل مہر، کچنار، گلابی کچنار، املتاس، چمپا، پیپل، بڑ، جاوا کی رانی، انڈس پائن، سلور اوکس، سوہانجنا، مولسری، اشوکا کے علاوہ پھل دار آم، چیکو، بیر، جامن، امرود، پپیتا، ناریل، لال بادام، جنگلی جلیبی، املی وغیرہ۔ آئیڈیا یہ ہے کہ شہری نجی اور سرکاری ونیم سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر یا خود سے اپنی گلیوں اور محلوں میں مقامی سایہ داردرختوں کی شجرکاری ایسے کریں کہ ایک گلی یا اسٹریٹ کو گل مہر اسٹریٹ قرار دے کر کنارے گل مہر لگائیں، دوسری نیم اسٹریٹ، تیسری املتاس۔ اس طرح نہ صرف شہری خوبصورتی بڑھے گی بلکہ قدرتی ماحولیاتی توازن بھی ہو گا۔
25 جولائی سے DHA اور WWF کے اشتراک سے DHA کراچی میں پچیس ہزار اور DHA سٹی میں ایک لاکھ پودے لگانے کا پلان ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ گل مہر اسٹریٹ جیسے آئیڈیاز بھی استعمال کریں۔ یہ آئیڈیا صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے ماحول اور خوبصورتی کے لیے فائدہ مند ہے۔ کوئی عمل توکرے۔