مسئلہ سیکولرازم کا نہیں نظام کا ہے
بعض حضرات سیکولر ازم کو بے دین سمجھتے ہیں، یہ ان کی لاعلمی ہے۔
بعض حضرات سیکولر ازم کو بے دین سمجھتے ہیں، یہ ان کی لاعلمی ہے۔ دور جدید کے شروعات میں جو پادری اپنے مخصوص حجروں میں رہنے کے بجائے عام لوگوں کی بستیوں میں رہائش پذیر ہوتے تھے۔ انھیں سیکولر پادری کہا جاتا تھا، اگر مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائے تو کوئی ہرج نہیں۔ مذہب کو ریاستی امور میں داخل کر کے کوئی امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ اعلیٰ روایات قائم ہو سکتی ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی وا لے بیشترممالک سیکولر آئین رکھتے ہیں، وہاں کے لوگ مسلمان ہیں، ترقی کر رہے ہیں اور دورجدید کے تقاضے بھی پورے کر رہے ہیں۔
انڈونیشیا کی تقریبا پچیس کروڑکی آبادی، بنگلہ دیش کی انیس کروڑ، نائیجیریاکی تیرہ کروڑ اور مصرکی نو کروڑ کی آبادی کے علاوہ ترکی، ملائشیا، ازبکستان، قزاقستان، کرغستان،آذربائیجان، ترکمستان، شام، عراق، الجزائر، بوسنیا، کوسوو اور البانیہ سمیت بے شمار مسلمانوں کی اکثریتی آبادی رکھنے وا لے ممالک سیکولر ہیں۔ ان کے ناموں کے ساتھ اسلا می جمہوریہ نہیں ہے، جب کہ یہ ہم سے زیادہ اچھے مسلمان اور انسان ہیں۔
ان ملکوں میں شرح خواندگی ستر فیصد سے اٹھانوے فیصد تک ہے۔ بدعنوانی، بھوک، افلاس، گداگری، منشیات اور بے روزگاری ہم سے کم ہے، جب کہ جن ملکوں میں اسلامی جمہوریہ لکھا ہوا ہے وہاں زیادہ بدعنوانی، قتل و غارت گری اور جہالت ہے۔ دنیا میں خواتین پر جبر سب سے زیادہ پاکستان، افغانستان، ایران، اور عرب ممالک میں ہوتے ہیں، جب کہ سیکولرمسلم ممالک ملائیشیا، ترکی، وسطی ایشیائی ممالک، بلقان ریاستوں، کوہ قاف اور ایشیائے کوچک کے ممالک میں خواتین آزاد ہیں، لکھی پڑھی ہیں اور نہ ہی غیرت کے نام پر ان کا قتل ہوتا ہے۔ ملائیشیا اور وسط ایشیائی ممالک میں اتنی بے روزگاری ہے اور نہ افراتفری۔ جب کہ ایران میں گیارہ فیصد اور سعودیہ میں بارہ عشاریہ پانچ فیصد (حکومتی اعداد و شمارکے مطابق ) لوگ بے روزگار ہیں۔
پاکستان اور افغانستان سمیت کئی اسلامی جمہوری ممالک ہیں جہاں ہر سال ہزاروں خواتین اجتماعی زیادتیوں کا شکار ہوتی ہیں، ان پر تیزاب گردی ہوتی ہے، سسرالی جبر و تشدد سے قتل ہوتی ہیں، وہ ایک طرح سے فارم کی مرغی ہیں۔ نیپال پہلے ہندو ریاست تھی اب سیکولرہو گئی ہے۔ الجزائر، شام، عراق اور مصر وغیرہ میں مذہبی بادشاہتیں تھیں۔ جب ان ملکوں میں انقلاب برپا ہو کر مذہبی بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا تو یہاں کے معاشرے نے ترقی کی اور ہر میدان میں آگے بڑھے۔ اب جب کہ امریکی سامراج کی مداخلت سے انھیں کے پروردہ مذہبی انتہا پسندوں نے ان ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ جب ان ملکوں میں جاگیرداری اور سامراجی تسلط کا خاتمہ کیا، تعلیم اور صحت کو عام کیا تو ترقی کے منازل طے کرنے لگے تھے۔
یورپ کو ہی لے لیں وہاں بادشاہت کے دور میں سماج بگڑا ہوا تھا جب سیاست کو چرچ سے الگ کیا اور بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو وہ ترقی کے منازل طے کرنے لگے۔ سوویت یونین اور سوشلسٹ بلاک کے خلاف عالمی سامراج نے دنیا بھرکی مذہبی انتہاپسندوں (خواہ ہندو ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو یا یہودی) کو کمیونزم کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جب وہ اپنے مقاصد پورے کر لیے تو پھرانھیں فنڈز دینا بندکر دیا۔ اب یہ انھیں کے خلاف چڑھ دوڑے ہیں۔ کہا جا تا ہے کہ سپیرا سانپ سے ہی مارا جا تا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم دنیا، یورپی اور امریکی دنیا یا ہندوستان میں ہر جگہ کے دہشتگرد خواہ وہ ریاستی ہوں یا مذہبی، سامراجی سازشوں کے ماتحت سرگرم عمل ہیں۔ ناروے میں سوشلسٹ اسکولنگ پر حملہ ہوا، گجرات، ہندوستان میں مسلمانوں پرحملہ ہوا، امریکا کے کالوں پر حملہ ہو، اسرائیل میں فلسطینیوں کا قتل ہوا، ایران میں بہائیوں کا قتل ہوا، عرب میں اور ترکی میں قتل ہوا، برما میں مسلمانوں کا قتل ہوا یا داعش، طالبان، القاعدہ اور النصرۃ کی دہشت گردی ہو، ایک ہی سکے کے کئی رخ ہیں، ان سب کی پرورش عالمی سامراج کرتا ہے۔
کوسووو لبریشن آرمی امریکا نے بنائی، چیچن جانباز فورس امریکی سی آئی اے نے تشکیل دی۔ عراق اور افغانستان میں امریکا نے فوج کشی کی جس کے خلاف دنیا بھر کے لا کھوں کروڑوں، کمیونسٹوں نے احتجاجی مظاہرے کیے جب کہ اسی امریکا سے اچھے تعلقات عرب بادشاہتوں، افغانستان اور پاکستان کے حکمرانوں کے ہیں۔ امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے سعودیہ، اسرائیل، عرب امارات، ترکی، کو یت، اردن اور مصر میں ہیں، جب کہ سعودیہ اسرائیل اور ترکی کا آ پس میں اتحاد بھی ہے۔
پاکستان کو ہی لے لیں، پاکستان بنا تو انیس سوسینتالیس میں اس کا نام جمہوریہ پا کستان تھا، ایوب کے دور میں، میں بھی یہ جمہوریہ تھا مگر ذوالفقارعلی بھٹو نے اسے اسلامی جمہوریہ بنا دیا۔ جمہوریہ یا اسلامی جمہوریہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ہر روز بھوک، افلاس، جہالت، بے روزگاری، گدا گری، منشیات، بے گھری، بے علاجی اور مہنگائی ہم پر سوار ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے مسئلہ سیکولرازم یا اسلامی جمہوریہ کا نہیں، مسئلہ ہے طبقاتی نظام کا۔ جب تک طبقات ہونگے اس وقت تک طبقاتی استحصال بھی ہو گا۔ طبقات ختم کیے بغیر، سرمایہ داری اور جاگیر داری کو ختم کیے بغیر ملکوں کا نام کچھ بھی رکھ لیں مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ حسرت موہانی سے کوئی پوچھتا تھا کہ آپ کمیونسٹ ہیں تو وہ جواب دیتے تھے 'الحمد اللہ'۔ جب کہ ریگن، تھیچر اور ہٹلر سیکولر تھے اور سامراجی سرغنے تھے۔
عالمی سامراج نے سرمایہ داری کو تباہی سے روکنے کے لیے دنیا کے ہرگوشے میں اپنے فوجی اڈے قائم کیے ہوئے ہیں، مگرعوام بھی سامراجی لوٹ کے خلاف ہر گلی کوچے میں لڑ رہے ہیں۔ حال ہی میں برازیل میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف بہت بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ جنوبی کوریا کے عوام نے اپنی حکو مت کے خلاف جنھوں نے شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) کی رخ پر میزائل نصب کرنے کی ٹھانی ہے، احتجاجی جلوس نکالا۔ بیلجیم، فرانس اور جرمنی کے عوام اپنے مسائل کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
بقول پروفیسر نوم چومسکی کہ امریکی سامراج نے اب تک اٹھاسی ملکوں میں بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسان جان سے جاتے رہے۔ مشرق وسطی، مغربی افریقہ اوربر صغیر میں امریکا نے ہی مداخلت کی اور کمیونزم کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال میں لیا۔ آج بھی امریکا، مودی، طالبان اور ٹرمپ پیدا کر رہا ہے، ان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اس لیے مسئلہ سیکولر ازم کا نہیں بلکہ سرمایہ داری کا تختہ الٹ کر ایک غیرطبقاتی کمیونسٹ یا امداد باہمی کے معاشرے کے قیام کی ضرورت ہے جو عوام کے تمام مسائل مکمل طور پر حل کر سکتا ہے۔