موثرصوبائی تبدیلیوں کی ضرورت
چند ماہ قبل بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو بھی ایک سیاسی معاہدے کے تحت ہٹایا گیا تھا
ISLAMABAD:
سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ صوبے میں طویل وزارت اعلیٰ کا ریکارڈ بنا کر رخصت ہوئے جب کہ بھٹو خاندان سے تین نسلوں کی طویل رفاقت اور پیپلزپارٹی سے 49 سالہ وفاداری کا صلہ انھیں دبئی بلا کر جس طرح دیا گیا وہ کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا۔ شاہ صاحب کو دبئی بلاکر ہٹانے سے بہتر یہی تھا کہ ان سے یہیں خرابی صحت کی بنیاد پر استعفیٰ لے کر دوسرا وزیر اعلیٰ منتخب کرا لیا جاتا تو انھیں اس طرح ہٹائے جانے کا دکھ بھی نہ ہوتا اورآصف علی زرداری اپنی پسند کو سندھ کا نیا حکمران اصلی نہیں دکھاوے کا بنا کر بھی تبدیلی لا سکتے تھے۔
چند ماہ قبل بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو بھی ایک سیاسی معاہدے کے تحت ہٹایا گیا تھا اور یہ دونوں تبدیلیاں سندھ اور بلوچستان میں کسی موثر تبدیلی کے لیے نہیں ہوئیں بلکہ سیاسی ضرورت کے تحت ہوئیں اور دونوں صوبوں کے عوام ہی اپنے سابق حکمرانوں کی کارکردگی بہتر جانتے ہیں مگر تبدیلیوں کا فیصلہ متعلقہ صوبوں کی عوام کی مرضی کے مطابق ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے وزیراعظم نے بلوچستان میں اور آصف علی زرداری نے سندھ میں جو مناسب سمجھا وہ کیا اور باقی دو سالہ مدت کے لیے دونوں صوبوں میں نئے وزرائے اعلیٰ اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔
کے پی کے میں ارکان اسمبلی کی مخالفت اور صوبائی حکومت سے بے حد شکایات کے باوجود عمران خان اپنے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو ہٹانے سے انکارکر چکے ہیں کیونکہ انھیں اپنے وزیراعلیٰ پر مکمل اعتماد ہے اس لیے وہاں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کے پی کے میں جو تبدیلی یا احتساب عمران خان چاہتے تھے وہ عمران خان کے بقول وہ نہیں ہو سکا جس کی ذمے داری پرویز خٹک پر نہیں خود عمران خان پرعائد ہوتی ہے۔
عمران خان باقی دو سالوں میں پرویز خٹک کو برقرار رکھ کر جو کام لینا چاہیں گے وہ لے لیں گے اور انھوں نے تبدیلی شروع بھی کرا دی ہے اور ان کا کے پی کے میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ نہ دینے کا فیصلہ ایک اہم قدم ہے جس کی باقی تین صوبوں کو تقلید کرنی چاہیے کیونکہ ارکان اسمبلی کا اصل کام قانون سازی ہے بلدیاتی کام کرانا نہیں ہے بلدیاتی کاموں کے لیے عوام اپنے نمایندے منتخب کرچکے ہیں۔
انھیں ہی عوام کے بنیادوں مسائل حل کرانے کا حق ہے اور کے پی کے میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کا عمران خان کا فیصلہ بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔کے پی کے میں بلدیاتی اداروں کو 33 ارب روپے کا فنڈز فراہم کرنے کا فیصلہ بھی نہایت اہم ہے جس کے درست استعمال کے موثر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور توقع ہے کہ کے پی کے کا بلدیاتی نظام بااختیار اور دوسرے صوبوں کے لیے مثال بنے گا جس کو بنیاد بنا کرعمران خان آیندہ انتخابی مہم میں پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے عوام کو ایک اچھا پیغام دینے کی پوزیشن میں آ جائیں گے، عمران خان کے دھاندلیوں کے شور سے متاثر ہوئے ہیں نہ ان کی دھرنا سیاست سے اور نہ ہی عمران خان کے پاناما لیکس پر احتجاج کی حمایت کریں گے کیوں کہ عوام ہر ایک کی کرپشن دیکھ اور بھگت چکے ہیں کوئی بھی دودھ کا دھلا ثابت نہیں ہوا اور کسی نے بھی عوام کو نہیں بخشا۔
ملک کا سب سے بڑا اور قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والا اہم صوبہ پنجاب ہے جس کو وزیراعظم نواز شریف باقی صوبوں سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور ان پر صرف پنجاب کا وزیراعظم ہونے کے الزامات بھی ان کے مخالفین عائدکرتے آ رہے ہیں۔
وزیراعظم کے بھائی شہباز شریف گزشتہ پی پی پی دور سے ہی پنجاب کے مضبوط بااختیار اور مقبول وزیراعلیٰ چلے آ رہے ہیں اور ان جیسی کارکردگی پی پی پی دور میں باقی وزرائے اعلیٰ دکھا سکے تھے نہ موجودہ تین سالوں میں دکھا سکا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت ہے تو گزشتہ پی پی پی دور میں بھی وفاق میں پی پی پی کی حکومت تھی اور سندھ اور بلوچستان میں بھی پیپلزپارٹی کی مکمل حکومت تھی مگر دونوں صوبوں کی حکومتوں پرکرپشن، اقربا پروری، گڈگورننس نہ ہونے سمیت متعدد الزامات لگے مگر کسی کو نہیں ہٹایا گیا۔گزشتہ کے پی کے حکومت کو عالمی سطح پر بھی کرپٹ قرار دیا گیا تھا مگر سیاسی وجوہات کے باعث وہ بھی پانچ سال قائم رہی اور نئے الیکشن کے بعد صدرآصف زرداری نے سندھ میں قائم علی شاہ اور وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب میں اپنے بھائی کو وزرائے اعلیٰ کے عہدے پر برقرار رکھا۔
بلوچستان اورکے پی کے کے عوام نے الیکشن میں دونوں برسر اقتدار پارٹیوں کو مسترد کیا تو پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں عوام نے پی پی پی کو دوبارہ اپنے اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کو جو کامیابی 2013ء میں ملی تھی اس کا سہرا شہباز شریف کے سر تھا اور باقی وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں ان کی کارکردگی پہلے بھی بہتر رہی تھی اور موجودہ تین برسوں میں بھی سب سے بہتر رہی ہے۔ سندھ میں قائم علی شاہ تین سال وزیراعلیٰ تو رہے مگر کارکردگی نہ دکھا سکے کیوں کہ عام تاثر تھا کہ سندھ کی اصل حکمران فریال تالپور تھیں اور قائم علی شاہ وہی کرتے تھے جو پی پی پی قیادت چاہتی تھی۔
ملک کے چاروں صوبوں میں یہی صورتحال ہے اور تمام وزیراعلیٰ اپنی اپنی پارٹی کے سربراہ کے کہنے کے مطابق ہی حکومتیں چلا رہے ہیں اور ان کے قائدین ان سے خوش اور مطمئن ہیں، قائم علی شاہ اگر بڑی عمر کے تھے تو پرویز خٹک بھی جوان نہیں اور عمران خان ان سے کام لے رہے ہیں۔ آصف علی زرداری اگر چاہتے تو باقی عرصے کے لیے قائم علی شاہ کو حقیقی وزیر اعلیٰ بنا کر کام لے سکتے تھے کیونکہ نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی بلوچستان اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کے عمروں کے قریب قریب ہیں جوان نہیں ہیں اور انھوں نے پی پی پی قیادت کے کہنے پر ہی چلنا ہے اس لیے سندھ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی اور صرف چہرے تبدیل ہوئے ہیں پالیسی وہی برقرار رہے گی جو پیپلزپارٹی کی قیادت چاہے گی۔
چاروں صوبوں میں با اختیار وزیراعلیٰ صرف پنجاب میں ہے جس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اب انتخابات زیادہ دور نہیں اس لیے آصف زرداری کو بھی عمران خان کی طرح اپنی سوچ تبدیل کرنی ہو گی اور اپنے وزرائے اعلیٰ سے ایسا ہی کام لینا ہو گا جیسا نواز شریف پنجاب اور بلوچستان میں اپنے صوبائی حکمرانوں سے لے رہے ہیں، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی کا کریڈٹ انھیں نہیں بلکہ ان کی پارٹیوں اور پارٹی قائدین کو جاتا ہے اس لیے اب موثر صوبائی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس کا فیصلہ آصف زرداری، عمران خان اور نواز شریف نے کرنا ہے کیونکہ تینوں کی پارٹیاں ان کی اپنی مکمل گرفت میں ہیں اور چاروں صوبوں کی حکومتوں کی کارکردگی اب وزرائے اعلیٰ کی نہیں بلکہ تینوں قائدین کی شمار ہو گی۔ تینوں قائدین کو آپس میں الجھنے کی بجائے اب کچھ کرکے دکھانا ہوگا اورموثر اقدامات کرکے عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ہو گا جو اب اچھی کارکردگی سے ہی مل سکے گا۔