عوام کی بے بسی
کچھ سیاستداں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مظاہرے، دھرنے اور احتجاج کرتے ہیں
ایک معتبر اور انتہائی تجربہ کار صحافی نے اپنے حالیہ کالم میں 2013ء کے انتخابات کا بنظر غائر تجزیہ کرتے ہوئے حکمرانوں کے انداز حکمرانی پر جہاں چشم کشا تبصرہ کیا ہے ان کا یہ جملہ کہ ''جتنا عوام کو کچلا جاتا ہے اتنی ہی شدت سے ان کی طرف سے جواب بھی آتا ہے'' یعنی ظلم و استحصال جس شدت سے بڑھتا ہے کچلے ہوئے عوام کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔
بے شک بات تاریخ کے آئینے میں تو ایسی ہی نظر آتی ہے، مگر ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب عوام میں اتنی جان اور حس رہ گئی ہو کہ وہ ظلم کو ظلم سمجھنے اور استحصال کی مختلف صورتوں کو پہچاننے کی سکت رکھتے ہوں۔ آج کراچی کی صورتحال بتا رہی ہے کہ اہل کراچی کے قانون کی حکمرانی کا ادراک، حکمرانوں کو خادم قوم سمجھنے، حق کو حق اور باطل کو باطل جان کر ان کے خلاف بھرپور تحاریک چلانے اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو جانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ماضی میں کراچی سے جو بھی تحریک چلی وہ نہ صرف کامیاب رہی بلکہ پورا ملک اس کا ہم نوا بن کر ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اہل کراچی حق شناس ہیں غلط بات کے خلاف جب کمربستہ ہو جاتے ہیں تو پھر پیچھے ہٹنا جانتے ہی نہ تھے۔
یہاں کے تو طلبا ہی اتنے اصول پرست اور متحد تھے کہ جب خم ٹھونک کر میدان میں آ جاتے تو ایوان حکومت کے درودیوار ہلا کر رکھ دیتے، نہ بکنے والے نہ جھکنے والے کراچی والوں کی یہ ہمت و جرأت دیکھ کر عیار صاحبان اقتدار نے انداز حکمرانی اس نہج پر استوار کیا کہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں اپنے گماشتے داخل کرا کے طلبا اتحاد میں دراڑیں ڈلوائیں۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم کے نام پر باہر کے طلبا کو اکثریت ملی۔ یہ وہ طلبا تھے جو اپنے علاقے کے وڈیرے، سائیں اور جاگیرداروں کے زیر اثر تھے۔ نہ ان کی اپنی کوئی سوچ تھی نہ نظریہ، ان کی ڈور ان کے سرپرستوں کے ہاتھ میں تھی۔ سائیں کی عنایت و مہربانی سے وہ بڑے شہر کے بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کے لیے یہی بہت تھا۔
جب معاشرے میں دوسروں کی طرز فکر کے حامل افراد بڑے بڑے عہدوں پر بھی براجمان ہو جائیں تو پھر معاشرہ مفاد پرستی کی زد پر ہوتا ہے۔ ایسے ہی تعلیم یافتہ جب استاد بنے تو انھوں نے اپنے طلبا کو خاموشی سے دولت کمانے اور طاقتوروں کے سامنے سر نہ اٹھانے کا ہی درس دیا۔ رفتہ رفتہ تعلیمی اداروں میں تمام ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو شجر ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اگر کچھ دن یہ سلسلہ چلا بھی تو مباحثوں کے لیے ایسے موضوعات جو معاشرے کے کسی مسئلے کا حل ہی پیش نہ کریں اور طلبا کو کچھ سوچنے سمجھنے کی طرف مائل نہ کر سکیں رکھے جاتے اور مقررین کی تربیت اساتذہ کرتے، حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات اور احساسات کی بھی مشق کراتے کہ کب دھاڑنا ہے اور کب روسٹرم پر مکا مارنا ہے، کب گلوگیر انداز میں کوئی جملہ ادا کرنا۔ مباحثوں کا اصل مقصد ہی ختم ہو گیا۔
مباحثوں کا جوہر تھا کہ پہلے سے لکھی یا رٹی ہوئی تقریر کے بجائے اپنے مخالفین کے موقف کو غلط ثابت کرنے کے لیے فی البدیہہ جواب اور دلائل پیش کیے جائیں۔ یہ تو وہی کر سکتا ہے جس کا اپنا نکتہ نظر ہو جس کے پاس موضوع سے متعلق معلومات ہوں، جس کا مطالعہ وسیع ہو۔ یہ تو فتحیاب علی خان، جوہر حسین، معراج محمد خان، شائستہ زیدی، مظفر عالم اور انیس تفضل (انیس ہارون) جیسے مقررین ہی کر سکتے تھے۔ رٹو طوطے کو لکھے ہوئے الفاظ بھی درست انداز سے ادا کرنے نہ آتے ہوں، اساتذہ بار بار ان کا تلفظ اور ادائیگی کی مشق کرانے پر مجبور ہوں، وہ اپنی جانب سے کسی کا کیا جواب دیں گے؟ درسگاہوں میں دولہ شاہ کے چوہے بنانے کی داستان کافی طویل ہے۔
جب معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے ذمے دار خود مصلحت پسند ہوں، حکمران ان کے مقررہ مشاہرے کے علاوہ دیگر مراعات کے ساتھ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کھلی چھٹی دیں تو معاشرے کی اخلاقی بنیادیں ہی ہل کر رہ جاتی ہیں۔ خاکروب سے لے کر اعلیٰ منصب تک بے عملی، خودغرضی، سہل پسندی، کچھ کیے بغیر زندگی کی تمام مراعات حاصل کرنے کی دھن نے سب کو بے حسی کی چادر اوڑھا دی ۔ اہل کراچی میں بڑا دم خم تھا ایوبی آمریت کے خلاف یہی سینہ سپر ہوئے تھے، طلبا مظاہروں میں اتنی طاقت تھی کہ کرسی اقتدار ڈگمگا گئی تھی۔ مگر چالاک طبقے نے جو چہرہ کوئی بھی ہو اقتدار ان کا ہی رہے نے اپنی چال بدلی، طلبا اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے (جس کا کچھ ذکر میں پہلے کر چکی ہوں) اہل کراچی نے عوامی سیاسی نظریہ یعنی مظلوم کی حمایت اور عام آدمی کی حکمرانی کا نعرہ بلند کیا تو اقتدار پر قابض ٹولے کو اپنی جاگیریں خطرے میں نظر آئیں تو کوئی دقیقہ انھیں ختم کرنے کا نہ اٹھا رکھا۔
ایک نہیں کئی بہیمانہ آپریشنز کے ذریعے ان سرپھروں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی (یہ کوشش آج تک جاری ہے) اس سلسلے میں ہر خامی اور ہر وہ الزام ان پر عائد کیا گیا جو ان کو بطور غدار تختہ دار تک لے جائے مگر دوسری جانب اقتدار کے لیے اسی جماعت کے ووٹوں کی طاقت پر حکمراں حکومت کرتے رہے (آمر بھی سول بھی) سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ملک کا غدار یا ملک دشمنوں کا یار ہے تو پھر یہی الزام ان تمام حکمرانوں پر کیوں عائد نہیں کیا جاتا جو ان کو اپنی حکومت میں شریک کرتے رہے بلکہ کچھ حالات میں وزارتوں سے بھی نوازتے رہے تو کیوں نہ ان تمام حکمرانوں کو شامل جرم قرار دیا جائے اس وقت وہ یار تھے آج غدار ہیں۔ کراچی والوں کی ہمت و جرأت کو بے حسی میں تبدیل کرنے میں (بے حسی اس لیے کہ اتنی بڑی بڑی بدعنوانیوں اور سہولیات زندگی سے محرومی پر بھی کوئی بڑا احتجاج نہیں ہو رہا) وہ عمل بھی شامل ہے ۔
ان اوچھے اور شرمناک ہتھکنڈوں سے پوری قوم کو بے حس بنایا گیا ہے۔ کچھ سیاستداں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مظاہرے، دھرنے اور احتجاج کرتے ہیں مگر ان کا خاطر خواہ اثر ایوان اقتدار پر اس لیے نہیں ہوتا کہ حکمران خود بے حسی میں مبتلا ہیں۔ انھیں اپنے علاوہ اور کسی کی پرواہ کب ہے۔ پھر ان مظاہروں میں دو وقت کی روٹی سے محروم زیادہ ہوتے ہیں جن کو نہ اپنے حقوق کا علم ہے نہ ان کے حصول کی فکر جو اپنی اصل طاقت کے ادراک سے بھی محروم ہیں۔
اس طرح کے مظاہروں میں نہ کوئی معراج محمد خان نہ جوہر حسین نہ علی مختار رضوی اور نہ شائستہ زیدی ہوتے ہیں جو پولیس کی لاٹھیاں کھائیں گولیوں کے سامنے ڈٹ جائیں مگر باطل کے سامنے سر نہ جھکائیں۔ ان دولت کے پجاریوں نے تو بھٹو جیسے روشن خیال، ترقی کی علامت، ذہین و فطین کو بھی اپنے گھیرے میں لے کر تختہ دار تک پہنچا دیا وہ بھٹو جو امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا، محض اس لیے کہ کہیں وہ واقعی ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم کر کے عوامی راج قائم نہ کر دے۔ کیا بھٹو جیسے ہر دلعزیز قائد کا یہ انجام عوام کو بے بس اور بے حس بنانے کے لیے کافی نہیں؟
یہ جملہ کہ ''عوام کو جس شدت سے کچلا جاتا ہے اس کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید آتا ہے۔'' خدا کرے یہ خیال درست ثابت ہو۔ مگر لگتا نہیں کیونکہ عوام کا تو کچومر نکال دیا گیا ہے۔ مگر ناامیدی کفر ہے عین ممکن ہے کہ اس خاکستر سے نکلی ہوئی چنگاری ایوان اقتدار کو بھسم کر دے اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ مگر نوشتہ دیوار پڑھنے کی اہلیت سے محروم حکمران اپنے انجام سے کب واقف ہو سکتے ہیں۔ یوں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی درازکی ہوئی ہے۔