وہ ثریا جو بامِ ثریا تک پہنچی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسکول کا طالب علم تھا اور میں اپنے والدکا انتظارکرتا تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسکول کا طالب علم تھا اور میں اپنے والدکا انتظارکرتا تھا کہ وہ کب صبح کا اخبار پڑھ کر رکھتے ہیں اور میں اس پر قبضہ کرتا ہوں۔
میں ان دنوں اخبار میں بچوں کے صفحے پر ٹارزن کی کہانی روزانہ بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا اور اس طرح کمسنی ہی میں مجھے اخبار پڑھنے کا شوق ہو گیا تھا اور پھر بڑی بڑی سرخیوں والی خبریں بھی اپنی والدہ کواکثر سنایا کرتا تھا وہ بری خبروں پر کف افسوس ملتی تھیں اور اچھی خبریں سن کر خوش ہوتی تھیں اور اس طرح والد صاحب کے بعد اخبارکی قیمت سب سے زیادہ میں وصول کیا کرتا تھا اور والدہ کی زبان سے روزانہ ادا کیے جانے والے بعض الفاظ مجھے ازبر ہو گئے تھے جن میں کمبخت، نامراد، منحوس اور خدا انھیں سمجھے۔ خدا سب کی حفاظت کرے میری ابتدائی ڈکشنری کے الفاظ بن کر میرے ذہن پر نقش ہو گئے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے ایک دن جیسے ہی والد صاحب نے صبح کا اخبارچھوڑا اور میں نے اس پر قبضہ کیا اور ٹارزن کی کہانی پڑھنے کے بعد بڑی بڑی سرخیوں والی خبریں پڑھنے لگا ۔
انھی خبروں میں ایک خبر یہ تھی کہ ہندوستان کی نامور اداکارہ اورگلوکارہ ثریا کا ایک دیوانہ لاہور سے اپنی برات لے کر بمبئی پہنچ گیا پھر جب تفصیل بھی شوق سے پڑھی تو پتہ چلا کہ بمبئی کی پولیس نے اس جھوٹے دلہا کو گرفتار کر کے جیل میں بندکر دیا مجھے یہ دلچسپ خبر اچھی لگی، میں نے اپنی والدہ کو بھی اخبارکی یہ خبر سنائی تو وہ پہلے تھوڑی سی مسکرائیں پھر بولیں اچھا ہوا اس ناس پیٹے نامراد کو پولیس نے پکڑ لیا۔
وہ پاگل پاکستان سے زبردستی کا دلہا بن کے ہندوستان گیا ہی کیوں تھا ارے ثریا تو بہت مشہور گانیوالی ہے فلموں میں بھی کام کرتی ہے وہ تو بڑے بڑے پیسوں والوں کو منہ نہیں لگاتی یہ لاہور کا پگلوٹ تو ثریا کی جوتی کے برابر بھی نہیں، میں نے اور زیادہ دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا آپا (ہم والدہ کوآپا کہتے تھے) پھر توآپ کو ثریا کے مشہورگانوں کا بھی پتہ ہو گا، کوئی ایک مشہورگانا تو بتاؤ کوئی تو گانا آپ نے بھی سنا ہو گا۔ آپا نے میرا دل رکھتے ہوئے کہا ''ارے شادی بیاہ کے موقعے پر لڑکیاں بالیاں اور عورتیں بہت سے گانے گاتی رہتی ہیں۔ ایک گانا اس کا بھی بڑا مشہور ہے۔ میں نے اصرارکر کے پوچھا وہ کون سا تو وہ بولیں بول بتائے دیتی ہوں۔
تیرے نینوں نے چوری کیا
مرا چھوٹا سا جیا پردیسیا
اسی دوران والد کی آہٹ ان کی مخصوص کھانسی کے ساتھ ہوئی، میری والدہ جلدی سے باورچی خانے کی طرف چلی گئیں اور میں نے اخبار موڑ کر چارپائی کے نیچے ڈال دیا۔ پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب میں نے فلمی صحافت میں قدم رکھا اور 'شمع دہلی' اور 'فلم فیئر' پڑھنا شروع کیا تو ایک دن فلم فیئر رسالے میں ثریا کے بارے میں ایک بڑا ہی دلچسپ مضمون پڑھنے کو ملا اور مزید یہ بات بھی پتہ چلی کہ ثریا ہندوستان اور پاکستان میں یکساں مقبول تھی اور کوئی مہینہ ایسا نہ جاتا تھا کہ جس میں ثریا کا کوئی دیوانہ برات لے کر کسی نہ کسی شہر سے ثریا کے گھر پہنچے اور پھر وہ جیل کی ہوا کھائے۔ گلوکارہ ثریا اس زمانے کی ہاٹ کیک اداکارہ اورگلوکارہ تھی اور وہ اس دور کی سب سے زیادہ مہنگی فنکارہ تھی۔ میناکماری، کامنی کوشل، نرگس، اشوک کمار اور دلیپ کمار کو ایک فلم کا کبھی اتنا معاوضہ نہیں ملا جتنا معاوضہ ثریا ایک فلم میں کام کرنے کا لیتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب کہ ایک لاکھ روپے بڑی اہمیت رکھتے تھے اور ثریا ایک فلم کا ایک لاکھ روپیہ معاوضہ وصول کرتی تھی۔
اب میں ثریا کی زندگی اور فنی جدوجہد کی طرف آتا ہوں۔ ثریا 15 جون 1929ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی۔ یہ اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اس کا اصلی نام ثریا جمال شیخ تھا۔ اس کے والدکی لاہور شہر میں فرنیچرکی دکان تھی۔ جب یہ ذرا بڑی ہوئی تھی تو ماں باپ کا انتقال ہو گیا پھر یہ اپنی نانی اور ماموں کے ساتھ بمبئی آ گئی اس کے ماما ظہور کو فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔
وہ اپنے اسی شوق کی خاطر بمبئی آئے تھے اور پھر وہ فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردارکرنے کے بعد بطور ولن فلمی دنیا میں کافی مشہور ہو گئے، پاکستان بننے سے پہلے 1941ء میں بنائی گئی فلم ''تاج محل'' میں ثریا نے فلم میں ممتازمحل کے بچپن کا کردار ادا کیا تھا اور یہاں سے اس کے فنی سفر کا آغاز ہو گیا تھا پھر ثریا کو بچپن سے گانے کا بھی کچھ شوق تھا، بمبئی آئی تو اس نے 1937ء میں آل انڈیا ریڈیو سے بچوں کے پروگرام سے اپنی گائیکی کا آغازکیا اس کی آواز میں قدرتی طور پر ایک کھنک سی تھی اور گلے میں سروں کا رچاؤ بھی تھا۔ موسیقار نوشاد نے آل انڈیا ریڈیو پر ثریا کو پہلی بار سنا ان کو یہ فریش اورکھنک دارآواز اچھی لگی۔
انھوں نے رابطہ کیا ان دنوں نوشاد فلم ''شاردا'' کی موسیقی دے رہے تھے۔ اس طرح ثریا نے 1942ء میں فلم ''شاردا'' کے لیے گیت گایا اس کا قد چھوٹا تھا اس کو ریکارڈنگ چینل میں اسٹول پر کھڑا کیا گیا تھا۔ وہ گیت اس دور کی ممتازہیروئن مہتاب پر فلمایا گیا تھا۔ ثریا نے اپنا پہلا ڈوئیٹ گلوکار مناڈے کے ساتھ فلم ''تمنا'' کے لیے گایا اور پھر چل سو چل۔ ثریا کی گلوکاری کا سفر ترقی کی طرف گامزن ہوتا چلا گیا تھا۔ 1948ء کے بعد بطورگلوکارہ اور اداکارہ ثریا نے کئی اہم اور خوبصورت فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے جن میں ہدایت کار کے۔ آصف کی فلم ''پھول''، ہدایت کار اعظم محبوب کی فلم ''انمول گھڑی'' اور پھر دل لگی، درد، دیوانہ، شمع پروانہ، امرکہانی، ودیا، افسر، قانون، ناٹک، جگ بیتی، کھلاڑی، جیت، خوبصورت، افسر اور شکتی کے علاوہ بے شمارفلموں میں کام کیا اور ثریا کی شہرت کا سفر جیسے ہوا کے دوش پر تھا۔ اس کے گیتوں نے سارے برصغیر میں ایک دھوم مچا دی تھی۔
اس کی اداکاری میں ایک انوکھا بانکپن تھا اس کی شخصیت میں ایک جادو تھا جو بھی اس کی فلم دیکھتا تھا اور اس کے گانے سنتا تھا وہ اس کا دیوانہ ہو جاتا تھا اسی دوران کئی فلموں میں دیوآنند اس کا ہیرو بنا اور دیوآنند اس کی محبت کا اسیر ہوتا چلا گیا۔ دیو آنند بھی اس دور کا ایک اچھا اور کامیاب اداکار تھا ثریا بھی دیو آنند میں کافی دلچسپی لینے لگی تھی اور جب یہ دلچسپی محبت کے رنگ میں ڈھل گئی اور ثریا فلموں کے سیٹ کے علاوہ بھی چوری چھپے دیو آنند سے ملنے لگی مگر جب اس محبت کی بھنک ثریا کی نانی تک پہنچی تو وہ توآگ بگولہ ہو گئیں انھوں نے ثریا کو خوب صلواتیں سنائیں اور کہا کہ ایک ہندو ہیرو سے تمہاری شادی میری لاش پر سے گزر کر ہی ہو سکتی ہے ثریا کو اس کی نانی نے ماں بن کر پالا تھا اور پھر باپ کا پیار بھی دیا تھا ثریا اپنی نانی سے بے تحاشا محبت کرتی تھی۔
اس کی نانی ہی اس کی کل کائنات تھی۔ آخر ثریا نے اپنی نانی سے وعدہ کیا کہ وہ اب کبھی دیو آنند سے نہیں ملے گی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی فلم کرے گی اسے اپنی نانی کی خوشی دنیا کی ہر خوشی سے زیادہ عزیز ہے اور پھر ثریا نے اپنی نانی سے کیا ہوا وعدہ مرتے دم تک نبھایا اور دیو آنند سے ایک آخری ملاقات کر کے اس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ پھر دیوآنند بھی اس کی زندگی سے نکل گیا اور اس نے اداکارہ کلپنا کارتک سے شادی کر لی تھی اور وہ اپنی زندگی میں مگن ہو گیا۔ مگر ثریا نے پھر زندگی میں کسی سے محبت نہیں کی اور اپنی نانی کے مرنے کے بعد بھی اس نے دیو آنند سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا۔ ثریا نے بے شمارفلموں کے لیے سپر ہٹ گیت گائے چندگیت نذر قارئین ہیں۔
کیا مل گیا بھگوان مرے دل کو دُکھا کے (فلم 'انمول گھڑی')
تو مرا چاند میں تیری چاندنی (فلم ''دل لگی'')
سوچا تھا کیا کیا ہو گیا (فلم ''انمول گھڑی'')
جینے نہ دیا چین سے (فلم ''دیوانہ'')
میں رات کو اٹھ اٹھ روتی ہوں (فلم ''کھلاڑی'')
دل لے کے چلے تو نہیں جاؤ گے (فلم ''ناٹک''
او دور جانے والے (فلم ''پیار کی جیت'')
ترا خیال دل سے بھلایا نہ جائے گا (فلم ''دل لگی'')
مرلی والے مرلی بجا ۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا (فلم ''مرزا غالب'')
ترے نینوں نے جادو کیا (فلم ''پیار کی جیت'')
اور ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نے جب ثریا کی فلم ''غالب'' دیکھی تھی تو نہرو نے کہا تھا کہ ثریا نے فلم ''مرزا غالب'' میں مرزا غالب کو پھر سے زندگی دے دی ہے۔ ثریا نے دلیپ کمار کے ساتھ ایک فلم ''جانور'' میں کام کیا تھا مگر وہ فلم تکمیل کے مراحل طے نہ کر سکی۔ ثریا زندگی بھر کنواری رہی اور میرین ڈرائیو بمبئی میں اپنے محل نما گھر میں تنہا زندگی گزار دی اور پھر 2004ء میں انتہائی دولت مند اداکارہ اپنے دور کی نامور فنکارہ دنیا کی دولت دنیا ہی میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئی۔