پاکستان اور جنرل مشرف کا زوال
جنرل ضیاء اور اس کی اتحادی پاکستانی مذہبی جماعتوں کو امریکی سامراج کی اربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ ملا .
پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے، اس کا آغاز 2006ء سے ہوتا ہے۔ ویسے تو پاکستان اپنی ابتدا سے ہی بحرانوں کا شکار ہو گیا تھا، لیکن اس وقت پاکستانی قوم جن حالات کا سامنا کر رہی ہے، اس میں 06ء بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ 2005ء تک مشرف آمریت کا ملک پر مکمل کنٹرول تھا۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ 06ء کا آغاز ہوتے ہی جنرل مشرف کی ملکی معاملات پر گرفت کمزور ہونے لگی۔ جس کا آغاز اسی سال اپریل میں سیمنٹ اسکینڈل سے ہوا۔
اس کے بعد اسٹاک ایکسچینج اسکینڈل اور اسٹیل مل اسکینڈل سامنے آتے ہیں۔ ابھی یہ سب کچھ ہو رہا تھا کہ لال مسجد کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن اس سے بھی پہلے سابق امریکی صدر بش کا دورہ پاکستان ہوا جس میں انھوں نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا کہ میں یہاں خاص طور پر دیکھنے آیا ہوں کہ جنرل مشرف اب بھی دہشت گردی کی جنگ میں اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنے اس سے پہلے تھے۔ باوجود اس کے جنرل مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے اکتوبر 99ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ 2001ء تک اس آمریت کو امریکا سمیت مغرب کی وہ تائید و حمایت حاصل نہیں ہو سکی جو 11 ستمبر صبح نو بجے ٹوئن ٹاورز پر حملے کے بعد حاصل ہوئی۔
جس کے نتیجے میں نومبر 2001ء میں افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا جو 96ء میں قائم ہوئی تھی اور طالبان اپنے اتحادی مجاہدین کو بے خبری کے عالم میں چھوڑ کر بغیر اطلاع دیے راتوں رات کابل سے فرار ہو گئے۔ دہشت گردی کی جنگ میں جنرل مشرف کو امریکا سمیت پورے مغرب کی جو حمایت حاصل ہوئی وہ بے مثال تھی۔ اسی طرح کی تائید و حمایت جنرل ضیا کو اس وقت حاصل ہوئی جب امریکا نے اپنے دشمن سوویت یونین کو ایک سازش کے ذریعے افغانستان میں 1980ء کی دہائی کے آغاز میں ''ٹریپ'' کر لیا جس کے لیے سرد جنگ کے دوران ایک طویل عرصہ کوشش ہوتی رہی۔
جنرل ضیاء اور اس کی اتحادی پاکستانی مذہبی جماعتوں کو اس کے نتیجے میں امریکی سامراج کی اربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ ملا ،یہ امریکی حمایت ہی تھی جس کے نتیجے میں ضیاء آمریت کے خلاف کوئی بھی تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ جنرل ضیاء آمریت کے بعد دوسری طویل ترین آمریت جنرل مشرف کی تھی جس کو بھر پور امریکی تائید و حمایت حاصل رہی۔ اس سے پہلے جنرل ایوب کی دس سالہ آمریت تھی لیکن اس وقت وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ 2001ء سے 2005ء کے چار سال مشرف حکومت کے بھر پور امریکی حمایت کے سال تھے جس میں ان کا جاہ و جلال دیکھنے کے قابل تھا اور کوئی ان کے سامنے سر اٹھانے تو کیا ایسا سوچنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔
مشرف حکومت کی اس وقت کی مضبوطی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایم ایم اے کی شکل میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت العلمائے اسلام مشرف آمریت میں پارلیمنٹ کا حصہ بن گئیں۔ اس وقت کا ''مصنوعی معاشی بوم'' آج بھی پاکستانی عوام کو یاد ہے۔ صدر بش کے دورے کے بعد جب امریکا کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ جنرل مشرف دہشت گردی کی جنگ کے نام پر اس کو ''بلف'' کر رہے ہیں تو اس نے ان کی حمایت و سر پرستی سے ہاتھ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
یہی وہ وقت تھا کہ امریکی حمایت کی ''بتدریج واپسی'' کے نتیجے میں جنرل مشرف کے خلاف اسکینڈل میڈیا کی زینت بننے لگے۔ ایسا ہی ماضی میں جنرل ضیاء اور جنرل ایوب کے خلاف بھی ہوا جب وہ امریکی حمایت سے محروم ہوئے۔ جنرل مشرف کے دور میں لال مسجد سانحہ ہوا حالانکہ اس معاملے کو آسانی سے سدھارا بھی جا سکتا تھا ۔ لال مسجد سانحے کے بعد مشرف اقتدار میں تو رہے لیکن درحقیقت ان کی رٹ ختم ہوگئی تھی۔ جب یہ سب کچھ پاکستان میں ہو رہا تھا تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت خطے کے حالات کیا تھے۔ اگست 06ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔
سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس تل ایبب میں بیٹھ کر ری برتھ آف مڈل ایسٹ کا اعلان کر رہی تھیں لیکن اس منصوبے کو حزب اللہ کے چند ہزار نوجوانوں نے ناکام بنا دیا جب انھوں نے روایتی ہتھیاروں سے اسرائیل کو، جس نے عرب ملکوں کی افواج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا، پہلی مرتبہ ذلت آمیز شکست دی۔ ورنہ ''امریکی بہار عرب'' اس وقت ہی آ چکی ہوتی۔ لبنان شام پر امریکی قبضے اور ایران پر حملے کی شکل میں۔ جس کے لیے امریکی ایجنٹ عرب بادشاہتیں آج کل سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر اس وقت امریکا اسرائیل کا لبنان اور شام پر قبضہ ہو جاتا تو جنرل مشرف کو بھی امریکی حمایت کا تسلسل جاری رہتا کیونکہ اس تمام صورتحال میں مشرف کا کردار بڑا اہم بن جاتا۔ لیکن اس منصوبے کی ناکامی نے مشرف کے اقتدار کے خاتمے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
ستمبر 2006ء میں جنرل مشرف طویل دورہ امریکا پر تشریف لے گئے جہاں ان کی بڑی آئو بھگت ہوئی۔ جب اس ''کامیاب دورے'' کے بعد واپس آئے تو پاکستانی سیاست پر قبرستان کی خاموشی کا سا سناٹا طاری تھا اور ان کے مخالفین بدترین مایوسی کا شکار تھے۔ پانچ مہینے کی اس طویل خاموشی کے بعد آخر کار 9 مارچ 2007ء آ ہی گئی جس نے ہر طرح کی کوششوں کی ناکامی کے بعد مشرف اقتدار کے خاتمے کے لیے آخری کیل ٹھونک دی۔ اندرون بیرون ملک نادیدہ قوتوں کی یہ آخری کوشش آخر کار کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور پاکستان کو اس طویل عدم استحکام سے دو چار کر دیا جس سے آج وہ نبرد آزما ہے۔ رہے نام اللہ کا۔ (ناتمام)
...پاکستان اس وقت جس طویل آزمائش سے گزر رہا ہے۔ 2014ء کی پہلی سہ ماہی سے اس سے نکلنا شروع ہو جائے گا جس کا آغاز 2013ء سے ہوگا۔
سیل فون: 0346-4527997