وہ قندیل جو بجھ گئی
قندیل بلوچ کی موت کے بعد لوگ اسے برا بھلا کہتے ہوئے ہرگز نہیں چونک رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں قندیل بلوچ کا قتل اس کے بھائی وسیم کے ہاتھوں ہوا، سوشل میڈیا، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر مرحومہ کے بارے میں تذکرہ ہوتا رہا۔ ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو قندیل بلوچ کے انجام سے خوش ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس خونی واقعے کو ظلم و تشدد سے منسوب کررہے ہیں۔
کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر برا نہیں ہوتا ، اسے اچھا یا برا اس کے گھر کا ماحول یا معاشرہ بناتا ہے، جس کے وہ اثرات قبول کرتا ہے اور پھر پسندیدہ یا ناپسندیدہ شخصیت بن کر سامنے آتا ہے، گویا اس کے نیک و بد بننے میں اس کی تعلیم و تربیت اور صحبت کا اثر ہوتا ہے اور انسان اپنی صحبت سے ہی پہچانا جاتا ہے۔
فوزیہ عظیم کس طرح قندیل بلوچ کے روپ میں ڈھلی یقینا اس کے پیچھے تلخ حقائق اور غربت و افلاس کی کہانی چھپی ہوئی ہے اورافلاس ایسی چیز ہے جو بڑے بڑوں کو صراط مستقیم سے بھٹکا دیتی ہے، اس لیے حضرت بایزید بسطامیؒ کے بقول غربت سے پناہ مانگنی چاہیے، ہر شخص صابر وقانع نہیں ہوسکتا ہے یہ وصف خوش قسمت اور اللہ والوں کو ملا کرتا ہے۔ ورنہ مفلوک الحالی پیٹ کا ایندھن حاصل کرنے کے لیے چوری اور بدی کے کام کرنے پر مجبورکردیتی ہے۔ برے کام وہ لوگ کرتے ہیں جوگناہ و ثواب میں تفریق اور علم کی روشنی سے دور بہت دور اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے ہیں اور اندھیروں میں راستے کا تعین کرنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے، روشنی تو ان کو ہی نظر آتی ہے جو اس کے طلبگار ہوتے ہیں، روشنی یا اجالے کے تمنائی اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں۔
قندیل بلوچ کی موت کے بعد لوگ اسے برا بھلا کہتے ہوئے ہرگز نہیں چونک رہے ہیں۔ دیدہ دلیری اور خوف خدا سے بے پرواہ ہوکر اس کے عیبوں کو نمایاں کر رہے ہیں جب کہ اللہ رب العزت نے عیب جوئی کو منع فرمایا ہے،خصوصاً مرنے والوں کو برا کہنے کی ممانعت کی گئی ہے اور پھرغیبت کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا ''کل'' اسے کون سا گناہ کرنے پر مجبور کردے گا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب تم کسی کو رات میں گناہ کرتے ہوئے دیکھو تو صبح اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرو، ہوسکتا ہے کہ رات کو ہی وہ ندامت کے آنسو بہا کر توبہ کرنے پر مجبور ہوگیا ہو۔
قندیل بلوچ ایک ماڈل اور اداکارہ تھی، گائیکہ بھی تھی،بعض حوالوں سے بھی اپنی دوسری ساتھیوں سے ہرگز پیچھے نہ تھی۔ لیکن وہ ایک بیٹی تھی، ایک بہن تھی اور ایک ماں تھی، بیوی تھی۔ اس نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ چھ بھائیوں اور دو بہنوں کی بہن، والد بیمار، والدہ گھریلو خاتون، لہٰذا اس نے تن تنہا کفالت کی ذمے داری سنبھالی، بھائیوں کے لیے سہارا بنی، معاشی مدد کی، باپ کا علاج کروایا۔ رشتے داروں کا بھی معاشی طور پر ساتھ دیا۔
اس نے اپنی محنت و جدوجہد سے میٹرک پاس کیا اور پھر تعلیم کی لگن نے اسے گریجویٹ بنادیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بی اے کرنے کے بعد وہ کوئی ملازمت تلاش کرتی، رزق حلال پر یقین رکھتی، لیکن اس نے جلد سے جلد شہرت و دولت کے حصول کے لیے غلط راستہ اختیار کیا اور کامیابی کی سیڑھیاں طے کرنے لگی، اس نے یہ نہیں سوچا کہ وہ ایک عورت ہے، چادر اور چار دیواری ہی اس کا تحفظ بن سکتی ہے، اس سے آنکھیں نہیں چرانا چاہئیں یہ عورت کی ضرورت ہے۔ اگر چادر اور چار دیواری میسر نہیں، تب گھر اور جنگل کی زندگی میں کچھ فرق نہیں رہ جاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے تعلیم کی اہمیت اور عورت کی عزت و وقار کے حوالے سے کتنا خوبصورت اور بامعنی شعر کہا ہے۔
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
لیکن یہاں تو صورتحال بالکل برعکس ہے کوہ قاف سے پریاں زمین پر اتر آئی ہیں اور پریوں کا رقص سوشل میڈیا اور مختلف چینلز پر فخر سے دیکھا جا رہا ہے۔ کاش اس کی ملاقات مولانا طارق جمیل سے ہوجاتی ، مولانا طارق جمیل بڑے عالم اور مبلغ اسلام میں ان کی زبان سے علم کے سوتے پھوٹتے ہیں، بے حد روانی اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ تقریرکرتے ہیں، اسلام کی روشنی سے جو بھی فیضیاب ہوجائے قسمت کا دھنی ہوتا ہے۔
قرآن پاک اور اس کی تعلیمات بلاتفریق مذہب و نسل سب کے لیے ہے جو چاہے مطالعہ کرے، سمجھے اور پھر سوچے کہ سچا وسیدھا راستہ کون سا ہے؟ اس کا ہی وہ انتخاب کرسکتا ہے اورایسا ہی ہورہا ہے کہ غیر مسلم قرآن پاک کی تفسیروتشریح پڑھ کر دائرہ اسلام میں بہت تیزی کے ساتھ داخل ہورہے ہیں۔
لیکن افسوس کہ اس کی زندگی نہیں بدل سکی کہ انھیں عالم باعمل شخص نہ مل سکا۔ سنا ہے کہ مجرم وسیم نے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ اس کے ساتھ چار لوگ اور تھے۔ ''پنچایت'' کا بھی نام آیا کہ یہ فیصلہ پنچایت نے کیا تھا، قندیل بلوچ کی بہن شہناز اور پرائے دیس میں بسنے والا بھائی عارف بھی اس قتل میں شامل ہے جس نے اپنے گھرکی قندیل کو بجھانے میں اہم کردارادا کیا اور ابھی نہ جانے کتنی قندیلیں غیرت کے نام پر بجھائی جائیں گی۔
قبل ازوقت اپنا قبلہ درست کرنا قندیل کے قتل کے بعد ناگزیر ہوگیا ہے کون خوف خدا اورکون مقام عبرت سے بچنے کے لیے حق کی راہ چنے گا؟یقینا یہ فیصلہ وقت کرے گا۔قندیل بلوچ کے انتقال کے بعد کچھ لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیا کہ قندیل بلوچ نے شارٹ کٹ راستہ اپنایا اور جلدی جلدی اپنی ویڈیوز نیٹ پر اپ لوڈ کردیں، پھر ان لوگوں کی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا جو خواتین کو اسی روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور یہ بھی اعتراض سامنے آیا کہ وہ شاعرہ یا گلوکارہ و اداکارہ تو تھی نہیں۔ کیوں کیا آرٹسٹوں کو بے حیائی زیب دیتی ہے اورکیا یہ ان کا پیدائشی حق ہے؟ شعروادب سے تعلق رکھنے والے ہی اگر تہذیب کا دامن چھوڑ دیں اور محض سستی شہرت کے حصول کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جائیں تب اس قسم کے قلمکاروں کا شمار بھی شوبز یا فلمی دنیا کے ان لوگوں میں ہی ہوگا جن کے نزدیک عزت سے زیادہ دولت اور شہرت کی اہمیت ہوتی ہے۔
قندیل بلوچ کے قتل کے حوالے سے ملک کے مقبول شاعر جن کی پہچان طویل اور مقصدی شاعری ہے یہ اشعار یاد آجاتے ہیں جو ان حالات کے تناظر میں لکھے گئے ہیں :
بنام عزت و ناموس، قرآن ہاتھ میں لے کر
لگاؤ تہمتوں کا زخم اس کے جسم لاغر پر
وہ ہے مخلوق دوئم مرتبے کی، اس کی وقعت کیا ہے
گراؤ فرشِ خاکی پر، گلے پر پھیر دو خنجر
یہ تہذیبی عقیدہ ہے، یہ پرکھوں کی روایت ہے
یہ کارِ خیر ہے اور نام اس کا قتلِ غیرت ہے
غیرت کے نام پر قتل آئے دن ہوتے رہتے ہیں، حوا کی بیٹی پر صبح و شام قتل و غارت کا بازار گرم کیا جاتا ہے، جائز طریقے سے شادی کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے وہ کاری، کارا ہونے سے اپنی جانوں کو بچائے دور دراز کے علاقوں میں جاکر چھپ جاتے ہیں لیکن یہ قاتل جو نام کے مسلمان ہیں، وہ انھیں ڈھونڈ لیتے ہیں اور سر راہ قتل کرکے اپنے خاندان کا اور اپنا نام روشن کرلیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں پوری دنیا میں اپنی بیٹی کو قتل کرنے کے بعد ان کا سر فخر سے بلند ہوجائے، کاش عالم دین اور مفتی حضرات گاؤں، گوٹھ اور چھوٹے و بڑے شہروں میں جاکر تعلیم کا جھنڈا گاڑھیں۔ لیکن افسوس بے شمار علما ایسے ہیں جنھیں اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں ہے۔ فضا اعظمی کے یہ اشعار دیکھیے جو سماجی حالت کے عکاس ہیں۔
کہاں ہیں محرمانِ حق؟ کہاں ہیں عالمانِ دیں
کہاں ہیں رہبرانِ دور اندیش و خلوص و آگیں
کہاں ہیں پاس دارانِ وقار منبر و مسجد
کہاں ہیں درس آگاہی کے خوشہ چیں
کہو ان سے اٹھیں اور اپنے ماضی پر نظر ڈالیں
اور اس کی روشنی میں آج اپنے بام و در دیکھیں
موت ایک عبرت کا مقام ہے۔ لہٰذا اس سے سبق سیکھنے اور اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔