سندھ کے نئے وزیر اعلی سے توقعات
مراد علی شاہ کے والد سید عبداللہ شاہ خود 21 اکتوبر 1993 سے 6 نومبر 1996 تک سندھ کے وزیراعلیٰ رہے
پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے طویل غور و خوض اور معروضی حالات کا جائزہ لینے کے بعد سندھ میں وزارت اعلیٰ کی اہم اور حساس نشست پر سید مراد علی شاہ کی تقرری بلاشبہ صوبے میں گورننس کو بہتر بنانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کی کوششوں کی رفتار تیز کرنے کی مثبت اور وسیع تر سوچ کی حامل ہی کہی جاسکتی ہے، لیکن ملکی منظرنامے پر گہری نگاہ رکھنے والا کوئی بھی ذی ہوش یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس مختصر مرحلے پر وزیراعلیٰ سندھ کو کیوں تبدیل کیا ہے، جب عام انتخابات میں صرف پونے دو سال باقی بچے ہیں؟ لیکن اس تبدیلی سے ہی بہرطور سندھ میں ہر انسان اپنے تئیں یہ سمجھنے لگا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے وہ کچھ کرنا چاہتی ہے جو پہلے سے اچھا اور موثر ہو۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے اس صوبے کے عوام نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ کچھ ہٹ کر کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے سید مراد علی شاہ کا انتخاب کیوں کیا، یہ بھی ایک اہم سوال ہے، جو نہ صرف عام لوگوں کے ذہنوں میں ہے بلکہ خود پیپلز پارٹی کے لوگ بھی ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظر آئے کہ وزیراعلیٰ کی ذات کو اس قدر سسپنس میں کیوں رکھا گیا؟ بہرکیف سید مراد علی شاہ پاکستان کے سب سے حساس اور متنازعہ بلکہ حد درجہ تنازعات میں گھرے صوبے کے وزیراعلیٰ بن کر ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت میں سامنے آئے ہیں، جو امن و امان کے حوالے سے خاص طور پر عرصہ دراز سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، جس کے مجموعی منفی اثرات پورے ملک پر پڑ رہے ہیں۔
مراد علی شاہ کے والد سید عبداللہ شاہ خود 21 اکتوبر 1993 سے 6 نومبر 1996 تک سندھ کے وزیراعلیٰ رہے اور ان کا دور حکومت ایسا تھا جس میں کراچی کے حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک بڑا آپریشن ہوا اور پیپلز پارٹی ایسے انجام سے دوچار ہوئی جس میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور سید مراد علی شاہ کے خاندان کو یہ اندازہ ہوگیا کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح سوچتی ہے اور سندھ میں سیاسی حکومتوں کو معاملات کس طرح چلانے چاہئیں۔
اگرچہ اب امن و امان کی صورتحال 1996 کے مقابلے میں بہتر ہے لیکن اس وقت کا سب سے بڑا اور انتہائی پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کی حکمت عملی تن تنہا سیاسی حکومت طے نہیں کرتی ہے اور اس آپریشن میں وہ لوگ بھی پکڑ میں آرہے ہیں جنھیں حکمراں پیپلز پارٹی کی قیادت کے بہت قریب تصور کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلقات کو مزید کشیدگی سے بچانا مراد علی شاہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، جو اپنی جگہ انتہائی مشکل کام ہے۔
مراد علی شاہ کے لیے دوسرا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومتی امور چلانے کے لیے ''غیر حکومتی شخصیات'' کی مداخلت کو کس حد تک روک سکتے ہیں، جو اصل میں کراچی کا المیہ ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ''بے اختیار سربراہ حکومت'' کچھ بھی منتقل نہیں کرسکتا۔ مراد علی شاہ کو اپنے وژن اور اپنے پروگرام کے مطابق حکومت چلانے کے لیے ازخود فیصلے کرنے کا اختیار کسی حد تک حاصل کرنا ہوگا، وگرنہ ان کو وقت کا مورخ قائم علی شاہ کی کلاس کا ایک فرد لکھے گا۔ انھوں نے کینیڈا کی شہریت ترک کرکے 2014 کے ایک ضمنی انتخاب سے ملکی سیاست میں عملی قدم رکھا تو انھیں اب مضبوط ارادوں کے ساتھ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنا ٹھوس کردار ادا کرنا ہوگا کہ یہ ان کا امتحان ہے یا ان کی نشست کی بھاری ذمے داری ہے۔
سندھ کے مخدوش حالات بالخصوص امن و امان کے حوالے سے رینجرز کی موجودگی اور اس کے اختیارات کا مسئلہ بھی اس صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے ایک مسئلہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے جس سے صوبائی حکومت پہلوتہی اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی چلی آتی رہی ہے۔ سول اداروں، پولیس کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ کسی فوجی یا نیم فوجی ادارے کی مدد سے بے نیاز ہوکر جرائم کی روک تھام کرسکے۔
اس حقیقت سے بھی ہر صاحب فہم اور باشعور انسان پوری طرح واقف ہے کہ دنیا کے متمدن ترین ممالک میں بھی غیر معمولی حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے خصوصی قوانین نافذ کیے جاتے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کو ان پر پوری آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی اور اس نوع کے دیگر جرائم پر قابو پانے کا اور کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں نائن الیون کے بعد جاری کیے جانے والے کئی ہنگامی قوانین پر ابھی تک عمل ہو رہا ہے۔ پاکستان میں غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خصوصی قوانین وقت کا تقاضا ہے اس لیے ان میں توسیع پر کسی کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ اس کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنانا چاہیے۔
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سندھ سیاسی طور پر بہت ہی حساس صوبہ ہے۔ آیندہ عام انتخابات سے پہلے یہاں کے حالات مزید پیچیدہ ہونے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کو اس مرحلے پر بہت مشکل ٹاسک ملا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس بہت کم وقت انھیں میسر آیا ہے، انھیں یہ ٹاسک پورا کرنے کے لیے محنت، لگن اور قابلیت کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے، لیکن اس سے زیادہ فلسفیانہ اپروچ اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ سندھ کے موجودہ حالات میں امن و امان اور تعمیر و ترقی کے چیلنجز کا وہ زیادہ مستعدی سے مقابلہ کرسکیں گے۔
ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ تبدیلی صوبے کی بہتری کے لیے ہونی چاہیے۔ لا اینڈ آرڈر کے علاوہ سندھ میں صحت و صفائی، تعلیم، غربت اور پسماندگی کے مسائل بھی ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر کرنے اور مقصد کے لیے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سندھ کے عوام نے 1970 سے ہمیشہ پیپلز پارٹی پر اعتماد کیا ہے اور ہر مشکل میں اس کا ساتھ دیا ہے۔ پارٹی کا اقتدار انھی عوام کا مرہون منت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پارٹی بھی حقیقی معنوں میں ان کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دے، ہر معاملے میں میرٹ کو ملحوظ رکھے اور تمام علاقوں میں تعمیر و ترقی کے یکساں کام کرے۔ ان ناانصافیوں کا خاتمہ کیا جائے جو فی الوقت زبان زد عام ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آیندہ انتخابات میں ہار یا جیت کا فیصلہ حکومت کی کارکردگی پر ہوگا ( جو اس وقت صحیح نہیں ہے) بلدیاتی اداروں کو فعال نہ بناکر حکومت نے پہلے ہی عوام کی ناراضی مول لے رکھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتدار کی جو مدت باقی رہ گئی ہے اس سے فائدہ اٹھاکر ان تمام غلطیوں کا ازالہ کیا جائے جو اب تک پارٹی سے سرزد ہوچکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی (سندھ حکومت) کو اپنے عمل میں اب بڑے واضح اور صاف ہونے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ''محفوظ پاکستان'' کے لیے درست سمت تلاش کرنا مشکل ہوگا۔