سوالیہ نشان
ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں، جو ذہنی انتشار اور فکری فرسودگی کی دلدل میں اس بری طرح دھنس چکا ہے
ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں، جو ذہنی انتشار اور فکری فرسودگی کی دلدل میں اس بری طرح دھنس چکا ہے کہ اب باہر نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس خرابی بسیار کے فروغ و پھیلاؤ میں غریب ان پڑھ شہری کا کوئی کردار نہیں ہے، بلکہ حکمران اشرافیہ، مراعات یافتہ طبقات اور تعلیم یافتہ مڈل کلاس اپنی منافقتوں اور دوہرے معیار کے باعث نظام کی اس ابتری کا ذمے دار ہے۔ ان پڑھ غریب تو ان طبقات کا منہ تکتا ہے یا پھر ان کی نقالی کر کے خود کو بھی اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ ملک میں آج جو کچھ ہو رہا ہے یا اس سے قبل جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس میں 70 فیصد آبادی کا کوئی کردار نہیں ہے۔
ایک اور معاملہ جس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ عوام اور حکمران اشرافیہ کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی، سماجی اور ثقافتی Disconnect ہے۔ یہاں ہم نے دانستہ حکمران اشرافیہ کی اصطلاح استعمال کی ہے، کیونکہ صرف غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں، بلکہ سیاسی جماعتیں بھی عام شہریوں کے ساتھ Disconnect کا شکار ہیں۔
ان میں عوامی جذبات، احساسات اور خواہشات کی ترجمانی تو دور کی بات، انھیں سمجھنے کی صلاحیت تک نہیں ہے۔ یا اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر دانستہ صرف نظر کیا جاتا ہے۔ ایک اور پہلو سیاسی عمل میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بھی ہے۔ جو ویسے تو قیام پاکستان سے تین روز قبل ہی شروع ہو گئی تھی، لیکن ایوب خان کے دور سے ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔ نتیجتاً سیاسی عمل چوں چوں کا مربہ بن گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت عوام میں تین طرح کے نکتہ ہائے نظر پائے جا رہے ہیں۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں نااہل ہیں، ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی، اس لیے فوج کو ایک بار پھر اقتدار سنبھال لینا چاہیے۔ دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بری بھلی جیسی بھی ہیں، انھیں موقع ملنا چاہیے اور سیاسی عمل چلتا رہنا چاہیے، یہی وہ صورت ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ان کی اصلاح کا ذریعہ بنے گی۔ کیونکہ فوج 32 برس تک بلاشرکت غیرے اس ملک پر حکمران رہی ہے۔
اس کے دور اقتدار میں نظم حکمرانی میں کسی قسم کی بہتری کے بجائے خرابی بسیار میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ تیسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ جمہوری عمل کو بے شک پٹری سے نہیں اترنا چاہیے، لیکن سول سوسائٹی اپنی Intervention کے ذریعے ان اصلاحات کے لیے سیاسی جماعتوں پر دباؤ جاری رکھے، جو مفاد عامہ میں ہیں۔ کیونکہ اس وقت کسی بھی سیاسی جماعت کے بارے میں یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ اس کا اپنا کردار عوام دوست ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی عمل کو Derail ہونے سے بچانے کے لیے بھی سیاسی عمل میں اصلاحات ضروری ہو چکی ہیں۔
ہم بات کر رہے ہیں عوامی مسائل کے فہم و ادراک کی۔ حکمران سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، دونوں کو عوامی مسائل کا نہ واضح ادراک ہے، نہ دوراندیشی ہے اور نہ ہی انھیں حل کرنے کا سیاسی عزم (political will)۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جدید دنیا میں قیادتوں کے لیے تین خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ اول، بصیرت (vision)۔ دوئم، استعداد (capacity) اور سوئم، عزم یعنی will۔ پاکستان کے 68 برس کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ بانیان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دور آیا ہو، جب حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں نے ان تینوں خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہو۔
میں یہاںبڑے اور پیچیدہ مسائل کا تذکرہ نہیں کر رہا۔ صرف ان مسائل کی نشاندہی کرنا چاہ رہا ہوں، جو معمول کی زندگی کا حصہ ہیں، مگر اسے حکمران اشرافیہ کی کوتاہ بینی، عدم دلچسپی یا نااہلی کہیے کہ 68 برس گزر جانے کے باوجود ان فوری نوعیت کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکا۔
اس سلسلے میں پہلی مثال مون سون کی بارشیں ہیں۔ اس خطے میں مون سون 15 جون کے بعد شروع ہوتا ہے اور کم وبیش 15 ستمبر تک جاری رہتا ہے۔ یہ صدیوں کی کہانی ہے۔ کسی برس کم، کسی برس زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ مگر کسی حکمران کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ نکاسی آب کا کوئی مستقل اور پائیدار بندوبست کر سکے۔ ہر سال بارشوں کے موسم میں ہر چھوٹے بڑے شہر کی سڑکیں اور گلیاں تالاب کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ وقتی لے دے ہوتی ہے، پھر وہی خواب خرگوش۔
دنیا چلا رہی ہے کہ آنے والے برسوں میں ماحولیاتی تغیر کے نتیجے میں پانی کی قلت بحرانی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں بارش کا پانی جمع کرنے کا کوئی چھوٹا موٹا منصوبہ تک نہیں بنایا جا سکا۔ بنایا بھی کیونکر جائے؟ جہاں کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کوئی واضح طریقہ موجود نہ ہو، وہاں کسی مسئلے کے سنجیدہ حل کی توقع عبث ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ دھواں آلودگی پھیلانے اور ٹریفک کی روانی کو متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے، آج 21 ویں صدی میں بھی شاہراہوں کے کنارے آگ لگا کر اسے ختم کرنے کا صدیوں پرانے طریقہ کار پر عمل ہو رہا ہے۔
اگر نوآبادیاتی حکمرانوں سے اپنے حکمرانوں کا تقابل کریں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انگریز نے 1858ء سے 1926ء تک 68 برسوں کے دوران پورے برصغیر میں 68 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھا دیا تھا۔ ہم نے ان 68 سال کے دوران نیا ٹریک بچھانا تو کجا کئی پرانے ٹریکوں کو اکھاڑ پھینکا۔ اس نے 1861ء سے 1929ء تک 68 برسوں کے دوران قوانین کے جو سیٹ دیے، خطے کے چار ملکوں (بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا) کا انتظامی نظام آج بھی انھی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ تین ممالک (بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش) کے آئینوں کی بنیاد اس آئینی ڈھانچے پر ہے جو اس نے 1935ء میں دیا تھا۔
یہ تو بڑے معاملات تھے۔ انگریز نے چھوٹے اور علاقائی نوعیت کے معاملات ومسائل کے حل کے لیے بھی ٹھوس حکمت عملیاں ترتیب دی تھیں۔ جس کی ایک مثال تھر ہے۔ بمبئی پریزیڈنسی کے گورنر نے ایک حکمنامہ جاری کیا تھا کہ اگر 15 اگست تک تھر میں بارش نہ ہو تو علاقہ کا کلکٹر اسے آفت زدہ علاقہ قرار دے کر دیگر اضلاع سے امداد طلب کرے گا اور غذا اور پانی کا مناسب ذخیرہ اکٹھا کرے گا۔ اس حکمنامہ پر ایوب خان کے اقتدار میں آنے سے قبل تک عمل ہوتا رہا۔ پھر اسے سردخانے کی نذر کر دیا گیا۔
اب ذرا ایک دوسری طرف نظر کرتے ہیں۔ نئی دہلی انگریزوں نے 1911ء میں مکمل کی۔ اس زمانے میں پورے دہلی میں ڈھائی تین سو کاریں تھیں۔ لیکن نئی دہلی کی چوڑی سڑکیں انگریز کی مستقبل بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جہاں آج ایک صدی بعد بھی تنگی کا وہ احساس نہیں ہے، جو آزادی کے بعد تعمیر کی جانے والی بستیوں میں پایا جاتا ہے۔ جب کہ گاڑیوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح نکاسی آب کے نظام کی بھی کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی۔ یہ شکایتیں، انگریز کے جانے اور مقامی قیادتوں کے آنے کے بعد پیدا ہوئی ہیں۔
کراچی میں تو خیر 2010ء کے بعد کوئی ترقیاتی کام ہوا ہی نہیں۔ لیکن لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں جہاں بڑے بڑے منصوبے جاری ہیں، مگر نکاسی آب جیسے مسئلے کو حل کرنے پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ آج بھی برسات کے موسم میں لاہور کی محلوں اور گلیوں کے علاوہ بڑی شاہراہیں بھی پانی میں ڈوبی ہوتی ہیں۔ کراچی کی دیگر سڑکوں اور شاہراہوں کو تو جانے دیجیے، سب سے بڑی اور مصروف ترین سڑک شاہراہ فیصل پر حیرت ہے کہ نکاسی آب کا کوئی زیر زمین انتظام نہیں ہے۔ جو حکمرانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آج کی دنیا میں کوشش کی جاتی ہے کہ اقتدار و اختیار کو جس قدر ممکن ہو نچلی ترین سطح تک منتقل کیا جائے۔ مگر ہمارے یہاں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں ترقیاتی فنڈز اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خاطر اقتدار واختیار کی مرکزیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بڑے منصوبے اس لیے شروع کیے جاتے ہیں تاکہ بڑا کک بیک مل سکے۔
یہی سبب ہے کہ حکمران اشرافیہ کی حکمرانی کی اہلیت اور صلاحیت ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی حکومتی نظام کو مکمل سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیار دیا جائے، تاکہ عوام کو فوری ریلیف مل سکے اور ان کے مسائل نچلی سطح پر حل ہو سکیں اور وہ مایوس ہوکر ادھر ادھر دیکھنے پر مجبور نہ ہوں۔