اردگان کا عروج زوال پذیر ہوسکتا ہے

ماضی میں ہم نے ان کی حمایت کی لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ ان کا خفیہ ایجنڈا کیا ہے


Zamrad Naqvi August 08, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

ترک وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گولن نیٹ ورک کے تحت پاکستان میں چلنے والے تمام تعلیمی ادارے بند کر دے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان گولن تنظیم کے تحت چلنے والے تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو بند کر دے گا کیونکہ وہ پاکستان اور دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسی تنظیموں کے حوالے سے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے جو ہر ملک کی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے جہاں یہ موجود ہیں ایک خطرہ ہیں۔

ماضی میں ہم نے ان کی حمایت کی لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ ان کا خفیہ ایجنڈا کیا ہے اور وہ ترکی میں ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ اس دہشت گرد گروپ کے خلاف پوری دنیا میں کوشش ہونی چاہیے۔ اس موقعہ پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ بیشتر ترک اسکول پاکستان میں اچھی تعلیم فراہم کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں فتح اللہ گولن کے حمایتی اسکولوں کی جانچ پڑتال کریں گے اگر کوئی اسکول غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو کارروائی کریں گے۔

ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد فتح اللہ گولن طیب اردگان کے اعصاب پر کس قدر سوار ہیں اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انھوں نے گولن مکتبہ فکر کے پاکستان میں تعلیمی اداروں کو بند کروانے کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان بھیج دیا کہ وہ دباؤ ڈال کر ان تعلیمی اداروں کو بند کروائے جہاں پاکستانی بچے اور بچیاں اعلیٰ معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہماری حکومت اس دباؤ کا شکار ہو کر یہ تعلیمی ادارے بند کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

فتح اللہ گولن کی خدمت تحریک نے پاکستان میں بھی 28 اسکول قائم کیے جس میں تیرہ ہزار سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد پندرہ سو ہے اور یہ سب پاکستانی ہیں۔ ان اسکولوں کو مقامی لوگوں کی امداد سے چلایا جاتا ہے۔ ترک حکومت اور آج کے وزیر خارجہ کا یہ مطالبہ کہ ان اسکولوں کو بند کیا جائے وہاں زیر تعلیم طلباء اور اساتذہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

یہ اسکولز پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی ہیں۔ یہ طلبا اور اساتذہ چاہتے ہیں کہ ترکی میں بغاوت کا نزلہ پاک ترک اسکولز پر نہیں گرنا چاہیے۔ پاک ترک اسکولز کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم صرف بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ کو آگاہ کیا جائے کہ اسکول پاکستانی قوانین کے تحت چل رہے ہیں۔ ان اداروں کو ترکی کی سیاست میں نہیں دھکیلنا چاہیے۔

ترک حکومت نے فتح اللہ گولن کو نہ صرف ریاست کا باغی اور دہشت گرد قرار دیا بلکہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد تقریباً دو ہزار آرمی آفیسرز کو نکال چکے ہیں جس میں 149 فوجی جرنیل ہیں پھر یہاں پر ہی بس نہیں آٹھ ہزار عدلیہ کے اہلکاروں کو نکالا جا چکا ہے جس میں پونے تین ہزار جج شامل ہیں۔ یہی سلوک سول بیوروکریسی کے ساتھ ہوا جہاں سیکڑوں افراد کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ اردگان حکومت اپنے مخالفوں کو زندگی کے ہر شعبے سے چن چن کر نکال رہی ہے۔

تعلیمی اداروں کے پندرہ سو سے زائد ڈینز پروفیسرز اور درجنوں وائس چانسلرز برطرف کر دیے گئے ہیں۔ اب آتے ہیں میڈیا کی طرف جہاں تین نیوز ایجنسیاں 45 اخبارات 15 جریدے 16 ٹیلی ویژن چینلز' 23 ریڈیو اسٹیشن اور 29 پبلشروں کے خلاف ایکشن لیا جا چکا ہے۔ جب کہ پچاس ہزار سے زائد افراد جن میں دانشور فنکار صنعتکار' تاجر حضرات پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی معاشرے کی کریم ہوتے ہیں۔

یہ لوگ کسی بھی معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں جن سے کوئی بھی معاشرہ زندہ رہتا اور ترقی کرتا ہے۔ خاص طور پر عدلیہ میڈیا اور شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد۔ اس بڑے پیمانے پر اپنے نظریاتی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کر کے اردگان نے ان الزامات کو صحیح ثابت کر دیا ہے کہ وہ آمرانہ رجحانات رکھنے والے وہ شخص ہیں جس نے جمہوریت کا نقاب اوڑھا ہوا ہے۔

ترکی کے موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے ہمیں پیچھے جانا پڑے گا۔ جب تک سوویت یونین قائم تھا ترکی میں سوشلسٹ تحریک بہت طاقتور تھی۔ اس تحریک کو روکنے کے لیے ترکی میں تین مارشل لگے۔ جیسے برصغیر میں سوشلسٹ تحریک کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے کہ کہیں خلق خدا راج نہ کرنے لگے اور سرمایہ داری نظام ناکام نہ ہو جائے۔ مصطفے کمال پاشا کے انتہائی سخت گیر نظام کے ردعمل میں ترکی میں مذہبی احیا فطری تھا۔

چنانچہ مغرب نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے کہ کہیں ایران کی طرح ریڈیکل طبقہ ترکی میں نفوذ نہ کرے انھوں نے نجم الدین اربکان اور رجب طیب اردگان کی سرپرستی شروع کر دی تا کہ ترکی میں ریڈیکل طبقے کا راستہ روک کر اعتدال پسند طبقے کو آگے لایا۔ماضی میں چند سال پہلے یہی کام اخوان المسلمین کے ساتھ مل کر حسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ کر کے کیاگیا۔ لیکن اخوان اسلام نافذ کرنے کی جلد بازی میں بہت جلد اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ترکی ہو یا مصر امریکا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس تلخ تجربے سے گزرے جس سے وہ ایران میں گزر چکا تھا۔

فرانس میں بیٹھی ایرانی جلا وطن قیادت سے اس کی توقعات پوری نہ ہو سکیں تو اس نے انتقامی طور پر جنگ سمیت وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جس سے ایران کو لاکھوں جانوں کا نقصان اور کھربوں ڈالر کی تباہی برداشت کرنا پڑی۔ ایران کے تلخ تجربے کے بعد امریکا نے یہ سیکھا کہ مسلم ممالک میں اگر مذہبی حکومت آنی ہے تو اعتدال پسند آئے جو سامراجی مفادات کو نقصان نہ پہنچائے۔ترکی ہو یا مصر یا پاکستان یہاں بیشتر مذہبی سیاسی جماعتیں وہ ہیں جن کا کام عوام کو غُچہ دے کر امریکی سامراجی مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔

سو طیب اردگان ہوش کے ناخن لیں... اس سے پہلے کہ ترکی بھی مصر، عراق بن جائے۔

2017ء میں طیب اردگان کا عروج زوال میں بدل سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں