گورنر سندھ وزیراعلیٰ اور جامعہ کراچی
یہ آنکھیں منظر دیکھ رہی تھیں کہ لوگوں کا ایک ہجوم ہے، ایک صاحب اپنے ہاتھ میں میگا فون لیے کھڑے ہیں
یہ آنکھیں منظر دیکھ رہی تھیں کہ لوگوں کا ایک ہجوم ہے، ایک صاحب اپنے ہاتھ میں میگا فون لیے کھڑے ہیں اور ہجوم سے مخاطب ہیں، ہجوم سے نعروں کی آواز آتی ہے ''جینا ہوگا مرنا ہوگا... دھرنا ہوگا، دھرنا ہوگا''۔ جو صاحب خطاب کررہے تھے ان کے مطالبات میں یہ بھی شامل تھا کہ ان کی ماہانہ تنخواہیں اور پنشن فوری ادا کی جائیں۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ تھی کہ نہ تو ہجوم اور نہ ہی ان سے مخاطب صاحب معمولی پڑھے لکھے، کسی بھٹہ یا ملز کے ملازم تھے، نہ ہی ان کا حلیہ اس کی عکاسی کرتا تھا، بلکہ یہ تمام لوگ نہایت پڑھے لکھے اور ان سے مخاطب شخص بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھا۔ یہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کے اساتذہ تھے، جن میں ڈاکٹرز اور پروفیسر شامل تھے۔
ان سب کا وقت انتہائی قیمتی تھا، انھیں اس وقت ریسرچ لیب یا پھر کلاسوں میں تدریس کرکے اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، مگر مسائل کے بھنور میں پھنس کر یہ اپنا قیمتی وقت کسی ملز کے مزدوروں کی طرح گزارنے پر مجبور تھے، نعرے لگانے پر مجبور تھے، کیونکہ ان سب کو گزشتہ چار ماہ سے تنخواہیں اور پنشن نہیں ملی تھیں۔ ان کے احتجاج کی محنت رنگ لے آئی اور گورنر سندھ کی جانب سے نوٹس لیا گیا، ہائر ایجوکیشن کے سربراہ سے بات کی گئی اور یوں تنخواہ کا مسئلہ تو حل ہوا، جب کہ دیگر مسائل کے حل کے لیے بھی امید کی کرن پیدا ہوئی۔
یہاں ایک سوال بڑا اہم ہے اور وہ یہ کہ کیا ہم لوگ اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمارے ہاں اب اساتذہ، جن کا کبھی احترام ماں باپ سے کم نہ ہوتا تھا، ان کی عزت اور اہمیت اس قدر کم ہوگئی ہے کہ ان کو ان کی خدمات کے بدلے وقت پر تنخواہ اور پنشن بھی نہ دی جائے؟ اور یہ معزز سفید پوش کسی مزدور یونین کی طرح سڑکوں پر آکر احتجاج کریں تو پھر تنخواہ کی ادائیگی کی جائے اور اس پر بھی یہ ظلم کہ جو اساتذہ زندگی بھر اس ملک و قوم کی خدمت کرتے ریٹائر ہوگئے انھیں اب بھی پنشن نہ دی جائے۔ ذرا غور کیجیے کہ وہ ملک اور قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے کہ جہاں ان لوگوں کو جو ترقی کے راستے پر قوم کو ڈالتے ہیں، وقت پر تنخواہ ہی نہ ملے، انصاف ہی نہ ملے۔
یہ تو اب کوئی راز کی بات نہیں رہی ہے کہ کوئی قوم حقیقی معنوں میں اس وقت ہی ترقی کرتی ہے کہ جب وہ نہ صرف علم سے آراستہ ہو بلکہ زمانے کے اعتبار سے رائج علوم میں بھی مہارت رکھتی ہو۔ آج ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک کا مقام بھی اسی سبب ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمران جو اپنے ملک کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں، وہ تعلیم کے شعبے کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں۔ اسکولوں کی سطح پر تو تعلیم کا معیار تباہ و برباد ہوا ہی تھا جامعات کی سطح پر بھی حالت خراب تر ہوتی نظر آرہی ہے۔
تعلیمی بجٹ انتہائی کم ہے، اس پر اس کی غلط تقسیم سے بھی مسائل بڑھے ہیں۔ جامعہ کراچی کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ ہے، یہاں منسلک طلبا کی تعداد بھی لگ بھگ پچاس ہزار ہے اور گرانٹ تقسیم کرنے والوں کا الٹا انصاف یہ ہے کہ سندھ کی تمام جامعات کو برابر رقم تقسیم کر رہے ہیں۔ جس جامعہ میں محض چند ہزار طلبا ہیں اسے بھی سو ملین اور جامعہ کراچی جہاں پچاس ہزار کے قریب طلبا ہیں اسے بھی سو ملین کی گرانٹ دی جارہی ہے۔ گویا تعلیمی بجٹ تو پہلے ہی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے، مگر گرانٹ کی غلط تقسیم بھی جامعہ کراچی جیسے تعلیمی ادارے کے لیے مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
جامعہ کراچی میں احتجاج سے خطاب کرتے ہیں انجمن اساتذہ کے نمایندوں ڈاکٹر شکیل فاروقی اور معیزخان کا کہنا تھا کہ جامعہ میں تنخواہوں کی دیر سے ادائیگی کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کی طرح یہاں بھی بغیر تنخواہوں کے کام کرنے کا کلچر متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جامعات کو کسی مل یا فیکٹری کی طرح چلایا نہیں جاسکتا، جامعہ کراچی کی گرانٹ میں کم از کم تین سو فیصد اضافہ کیا جائے، اسی طرح مالی بحران سے نکلنے کے لیے پانچ ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکیج دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر جامعات میں ملازمین کو صرف لیو انکیشمنٹ ہی نہیں پلاٹ تک دیے جاتے ہیں، یہاں تنخواہ اور پنشن تک روکی جارہی ہے۔
راقم کے خیال میں ہمارے معزز اساتذہ کا شکوہ بجا ہے۔ یہ اس ملک اور معاشرے کا المیہ ہے کہ ایک استاد کو جو مقام و رتبہ ملنا چاہیے تھا وہ اسے نہیں مل رہا، بلکہ اب الٹا ان کی عزت کو مجروح کیا جارہا ہے۔ ایک سرکاری ادارے کے سترہ، اٹھارہ گریڈ کے افسر کو تو سفر کے لیے گاڑی، ڈرائیور اور پٹرول بھی فراہم کیا جاتا ہے، مگر جامعہ میں بیس گریڈ کے فیکلٹی کے ڈین کو بھی گاڑی نہیں دی جاتی۔ (جامعہ کراچی کے ایک استاد کا کہنا تھا کہ وہ کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مالک مکان کرایہ لینے دروازے پر آیا تو انھوں نے نہایت شرمندگی کے ساتھ کہا کہ آپ دو ایک روز بعد آکر کرایہ لے جائیے گا، ابھی تنخواہ نہیں ملی۔ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کے پروفیسر کی عزت کا اس طرح رسوا ہونا کسی قوم اور معاشرے کے لیے سوالیہ نشان تو ہے ہی مگر حکمرانوں کے لیے بھی ڈوب جانے کا مقام ہے)۔
جامعہ کراچی میں مالی مسائل کی وجہ سے ہر قسم کے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، یقیناً اس میں گڈ گورننس کی بھی کمی ہے، لیکن ایک اہم اور بڑی وجہ اس کو فراہم کی جانے والی گرانٹ کی معمولی رقم ہے کہ جس سے تنخواہوں اور انتظامی اخراجات ہی پورے ہونا مشکل ہے، بھلا علمی اور تحقیقی سرگرمیاں کیسے ممکن ہیں کہ جن کی بنیاد پر ہی کوئی ملک و قوم ترقی کرتی ہے۔
آج جامعات کے اساتذہ کی مالی حالت ایسی نہیں کہ وہ ریٹائر ہونے پر کوئی پلاٹ ہی خرید سکیں، یا اپنے بچوں کی شادی بے فکر ہوکر کرسکیں۔ یہ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ کسی ادارے میں تو ملازمین کو ایک نہیں کئی کئی پلاٹ دیے جاتے ہوں، گاڑیاں، ڈرائیور اور خادم تک دیے جاتے ہوں مگر اسی درجے اور گریڈ کے اساتذہ کو ان سب سے محروم رکھا جائے۔ اگر عید کے موقع پر انھیں ان کی اپنی چھٹیوں کے بدلے تنخواہ دی جائے کہ وہ بھی اپنے خاندان کے عید کے اخراجات پورے کرلیں تو ان کا یہ قانونی حق بھی ان سے چھین لیا جائے۔
یہ ہمارے حکمران اس قدر غفلت میں کیوں؟ کیا یہ ان اساتذہ کی عزت و توقیر کرنا بھی بھول گئے کہ جن سے تعلیم حاصل کرکے آج یہ مسند اقتدار تک پہنچے ہیں؟ کیا یہ وزیراعظم، صدر، گورنر، وزیراعلیٰ اور ایوانوں میں براجمان دیگر ارکان نے ان ہی جامعات اور ان کے اساتذہ سے علم کی روشنی حاصل کرکے وہ مقام حاصل نہیں کیا جس کے سبب آج یہ ایوانوں میں پہنچے ہیں؟
راقم نے نیٹ پر سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر عطاالرحمن، ابن انشاء، ڈاکٹر جمیل جالبی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، حسینہ معین، انصار برنی، ڈاکٹر اسرار احمد، محمد تقی عثمانی، سابق چیف جسٹس آف پاکستان اجمل میاں، معروف سیاستدان و قانون داں اور سابق وزیر قانون فاروق نائیک، سابق وفاق وزیر اطلاعات و نشریات نثار میمن، پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما (مرحومہ) فوزیہ وہاب، سینیٹ چیئرمین رضا ربانی، سابق وزیر داخلہ رحمن ملک، سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن، سابق سفیر و صحافی حسین حقانی، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین ہارون اور منیر اکرام، اور ماضی کے معروف اداکار وحید مراد وغیرہ سب کی اسناد پر اس جامعہ کراچی کا نام و نشان موجود ہے۔ لیکن راقم کے نزدیک ان تمام ناموں سے بڑے وہ اساتذہ ہیں جن کی بدولت ان سب کو یہ مقام حاصل ہوا۔ راقم کی گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سے اپیل ہے کہ وہ تھوڑا سا وقت جامعہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے بھی نکالیں کہ اس جامعہ کا بھی ان پر کچھ قرض ہے۔