ایک دیوانے کا خواب
انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دونوں جانب کے عوام بھوک، غربت کے ہاتھوں خودکشیاں کررہے ہیں
کیا یہ صرف ایک دیوانے کا خواب ہے؟ جس کی تعبیر کے لیے کچھ سرپھرے محبت کے مارے دونوں سرحدوں کے درمیاں گزشتہ 68 سال سے آتے جاتے رہے ہیں، کبھی دوستی بس کی سروس کے تحت، کبھی مشرف واجپائی دعوتوں کی بنیاد پر، تو کبھی امن کی آشا کے تحت فنکار وادیب محبتیں بانٹنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ کیا کبھی اس سے دلوں میں پڑی دراڑیں اور نفرتیں ختم ہو پائیں گی؟ وہ زخم بھر پائیں گے جو نفرت بانٹنے والے پیدا کرتے ہیں یا کرتے رہتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ دشمنی کی خلیج کم ہونے کو نہیں آتی؟ کیوں اس طرح کے واقعات کے ذریعے نفرت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے؟ کیا بھارتی سرکار کی پالیسی کا حصہ ہے کہ ان کا ووٹ بینک انھی شرپسندوں کے ذریعے کامیابی حاصل کرتا رہے؟ پاکستان نے ہمیشہ ایک اچھے ہمسائے کا رول بخوبی ادا کیا ہے، مگر بھارت کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی ڈکشنری میں پڑوسیوں کے حقوق کا صفحہ سرے سے نہیں ہے۔ وہاںکے اکثریتی عوام ان نفرتوںکو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر سفارتی سطح پر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔
چند دنوں قبل ہمارے ہاں کچھ مہمان انڈیا سے تشریف لائے، پاکستان اور انڈیا کرکٹ میچ کی بات چلی تو وہ کہنے لگے کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان میچ کھیلا جاتا ہے تو بیشتر مسلم عوام کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے ہوتی ہیں۔ گویا آج بھی وہاں کے مسلمان پاکستان سے والہانہ محبت رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں، ویزا کے مسائل کو دور کیا جائے، باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔ مگر چند سیاسی لیڈرز اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نام دے کر اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں۔
انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دونوں جانب کے عوام بھوک، غربت کے ہاتھوں خودکشیاں کررہے ہیں۔ وہ ننھے ہاتھ جن میں کتابیں ہونی چاہئیں محنت کرنے کے باعث زخمی ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کے باعث ایسے ایسے المیے سامنے آرہے ہیں کہ انسانیت بھی شرمسار ہوجائے۔ بھوک، بیماری، جہالت نے دونوں ملکوں کے عوام کو جذبات سے عاری کردیا ہے۔ حب الوطنی کے نام پر مرنے مارنے پر تل جانے والے اس سے زیادہ مالی و جانی نقصان اپنے ملکوں میں اپنے ہاتھوں کررہے ہیں۔
دونوں ملکوں میں آپس کے دوستانہ مراسم اور امن کی جب بات کی جاتی ہے تو بھارتی شرپسند عناصر اسے کامیاب نہیں ہونے دیتے، اس بات سے قطعی بے پروا ہوکر کہ دونوں ممالک جو ایٹمی طاقت کہلاتے ہیں، شرپسند عناصر کی شہ پر اس آگ میں کود پڑے تو دونوں طرف باقی کیا بچے گا۔ دونوں ممالک اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتے رہے ہیں۔
صرف سیاچن کی جنگ میں اب تک پاکستان اور بھارت تقریباً 10 ارب ڈالر جھونک چکے ہیں۔ یہ دنیا کا بلندترین اور سخت ترین سرد علاقہ کہلاتا ہے۔ سیاچن میں ہمارے پاکستانی 1344 جوان اور بھارت کے 1025 جوان زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ دونوں ممالک اس پر سالانہ 20 سے 30 کروڑ ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ اگر دونوں جانب امن کو یقینی بنالیا جائے تو یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ آج پوری دنیا میں یہ کھلی حقیقت ہے کہ جنگ سے کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوا۔
9/11 کے بعد جب حالات نے ایک نئی کروٹ لی، پاکستان کو امریکی دباؤ کی وجہ سے کشمیری نوجوانوں سے کہنا پڑا کہ کشمیر عسکری امداد کے سوا ہر قسم کی امداد پاکستان سے حاصل کرسکتا ہے۔ سارک سربراہ کانفرنس میں پاکستان کا اپنی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے کا اعلان کشمیر کی تحریک کو کمزور کرنے کی بھارتی سازش تھی۔ ایسی تحریک جس میں ہیومن رائٹس کے مطابق جنوری 1989 سے 31 دسمبر سے 2004 تک ایک لاکھ سے زائد انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کشمیر میں سات سو نو قبرستان ان شہیدوں سے مزین اپنے چراغ سحر کا انتظارکررہے ہیں۔ کشمیریوں کو اپنے لیڈروں اور قیادت پر اعتماد ہے، وہ پرعزم ہیں کہ ان کے لیڈر سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک جیسے کئی دوسرے محب وطن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کشمیر کو آزاد نہ کرالیں۔ بھارتی جارحیت کو خود ان کے اپنے ملک میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کا ثبوت دہلی یونیورسٹی کی طالبہ کا ایک مضمون ہے، جو انھوں نے کشمیر میں دو ماہ گزار کر آنے کے بعد لکھا۔
کہتی ہیں ''میرا دعویٰ ہے کہ بھارتی جمہوریت کی آخری حد لکھمن پور (کشمیر اور بھارت کو الگ کرنے والا قصبہ) ہے، اس سے آگے ہمیں کہیں جمہوریت نظر نہیں آتی''۔ اگر کچھ ہے تو ظلم و جبر ہے، ایک ایسی ریاکاری، جو بھارت کے مین اسٹریم میڈیا نے بڑی خوبی سے دکھائی ہے، تاکہ وہ اس خطے میں اپنے خصوصی مقاصد کو تقویت دے سکے، کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے وادی کشمیر میں فوج کشی میں مصروف ہے، پورے کشمیر میں ذرایع ابلاغ مکمل بند ہیں، دونوں ملکوں میں آج تک پانی کی تقسیم اور آزادی کشمیر جیسے اہم مسئلوں پر کوئی فیصلہ نہیں ہوپایا، ماسوائے مذاکرات کے۔ اس قسم کے درجنوں مذاکرات ان 67 برسوں میں کیے گئے، مگر لاحاصل! محض ایک ڈھونگ، ایک ناٹک کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارا اپنے معاملات کا بھارت سے حل کرنے کی امید رکھنا ایسا ہی ہے کہ بقول میر تقی میر؎
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جن کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
گزشتہ جمعرات کو سات رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں سارک سربراہ کانفرنس سے خطاب میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جواباً تقریر تمام پاکستانیوں کی تر جمان ہے۔ کہتے ہیں کہ افغانستان، بنگلہ دیش اور انڈیا میں شدت پسندی کے واقعات قابل مذمت ہیں، بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی قابل مذمت ہیں، آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے، شدت پسندوں اور حریت پسندوں میں فرق ہے۔
وزیر داخلہ نے یہ بات کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے تناظر میں کہی، جس کے جواب میں بھارتی وزیر داخلہ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ اس کانفرنس کا مقصد رکن ممالک کے مسائل کو حل کرنا ہے، نا کہ حقائق سے منہ موڑ کر راہ فرار اختیار کرلی جائے۔ یہ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ بھارت اگر ایسا سوچتا ہے کہ اس طرح سے وہ دنیا میں اپنی مظلومیت کا ڈھونگ رچا سکتا ہے تو یہ ایک دیوانے کا خواب ضرور ہے۔ دنیا میں بڑی حیرت انگیز جغرافیائی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ایک دن بھارت کو کشمیر کا فیصلہ کرنے کا حق خود اس کے باشندوں کو دینا ہی ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کشمیری عوام کی غلامی کا طوق ایک دن آزادی میں ضرور تبدیل ہوگا۔