آزادی بھی ایسی شکل میں
ہم پاکستانی اس دن کی آمد پر بہت خوش ہوتے ہیں ،گویا یہ ہماری ایک مقامی اور قومی عید ہوتی ہے
بڑے یوم آزادی کے دن میں اگرچہ چند دن باقی ہیں لیکن اس بڑے دن کے خیرمقدم میں کئی چھوٹے چھوٹے دن بھی کونوں کھدروں سے نمودار ہو رہے ہیں جو آنے والے پر رونق دن کو زیادہ بارونق بنانے کی کوشش میں ہیں بلکہ کچھ ناراض ہیں کہ ہمیں وقت سے پہلے کچی نیند سے جگا دیا جب کہ جاگنے کا جو مزا بڑا دن اچانک آنے کا تھا یعنی ایک صبح گھر والے شور مچاتے کہ اٹھو چودہ اگست ماشاء اللہ طلوع ہو گیا ہے، اس کے استقبال کی بھرپور تیاری میں جت جاؤ پورے جذبات اور جوش کے ساتھ کہ یہ دن اب سال بھر بعد لوٹے گا۔ عید کی طرح جو سال میں ایک بار آتی ہے اور اسی لیے عرب اسے عید یعنی عود کر آنے والا دن کہتے ہیں۔
اگرچہ اکثر عربوں کے ہاں اب بھی یہ ایک سالانہ تہوار ہے لیکن خود عرب کہتے یں کہ لوٹ کر آنا بھی خود عید کے لفظ میں موجود ہے یعنی عود کرکے آنے والا دن۔ چنانچہ یہ اس کا ذکر اس عرب محاورے میں بھی اشارتاً موجود ہے کہ ''کل یوم و انتم بخیر'' یعنی ہر دن اور تم ہر دن بخیریت۔ لوٹ کر آنے والے دن کو یوں عید بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوٹ کر آتا ہے۔ ہمارا آزادی کا دن بھی سال بہ سال آتا ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ گزرتا ہے۔
ہم پاکستانی اس دن کی آمد پر بہت خوش ہوتے ہیں ،گویا یہ ہماری ایک مقامی اور قومی عید ہوتی ہے جس کا مذہبی عبادت سے نہیں ہماری حب الوطنی کی عقیدت سے تعلق ہوتا ہے اور ہم ہر سال اس موقعے پر دعا کرتے ہیں کہ خدا ہمیں ایسے دن دیکھنے کی توفیق اور موقع عطا کرتا رہے اور ہم اپنے وطن عزیز کی دہلیز پر اپنی عقیدت کے پھول بکھیرتے رہیں اور اپنے وطن عزیز کے لیے دعائیں کرتے رہیں۔ یہ ملک اگرچہ ہمیں ایک سیاسی جدوجہد سے ملا ہے لیکن اس سیاسی قومی عبادت میں ہماری دعائیں بھی شامل تھیں جو ہمارے دلوں سے بلند ہوئیں اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور یہ قبول ہوں گی کیونکہ اس کی بڑی وجہ خود یہ ملک ہے جس کی ایک ایک اینٹ دعاؤں اور کلموں کے ساتھ رکھی گئی ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ روئے زمین پر کسی ایک آزاد اور مستقل ملک کی بنیاد اس کلمے پر رکھی گئی جس کے نام پر یہ ملک بنا تھا اور جس پر ہر پاکستانی فخر کرتا چلا آ رہا ہے اور اس کی تمنا ہے کہ یہ فخر سلامت رہے اور وہ اس پر ناز کرتا رہے۔
انسانوں کی مصنوعی زندگی میں ایسے حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں جب انسان اپنے ہاتھوں بے بس ہو جاتا ہے لیکن ان حادثوں کے پیچھے انسانی جذبات کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے جو ان حادثوں کو برداشت کرتی ہے اور نہ جانے کب سے برداشت کرتی چلی جا رہی ہے اور کرتی چلی جائے گی کیونکہ زندگی کی روانی کے لیے ضروری ہے کہ یہ سلسلہ چلتا رہے اور اس کا نفع نقصان ہم برداشت کرتے ہیں۔ ہماری جدید زندگی ان مصنوعی سہاروں کے ساتھ ہی چلتی ہے۔ اسی زندگی کی خوشیوں غمیوں کے ساتھ اور یہی حادثات اور زندگی کے گرم و سرد واقعات انسان کو آگے لے جاتے ہیں۔ اسی کشمکش شب و روز کا نام زندگی ہے اور یہ اپنے غموں اور خوشیوں کے ساتھ اس قدر خوبصورت ہے کہ انسان اس کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کرتا ہے اور اس کی بقا کی قیمت اپنی توفیق سے بڑھ کر ادا کرتا ہے لیکن اس کو باقی رکھنے پر مصر رہتا ہے۔
ہمارا یہ ملک جس میں ہم سانس لے رہے ہیں قدرت کا عطیہ یوں ہے کہ قدرت کی دی ہوئی توفیق سے ہم نے یہ دنیا آباد کی ہے اور اس میں گھر بنایا اور یوں ایک دنیا آباد کر لی ہے لیکن اب اس دنیا کو خطروں کی زد میں دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ کالم میں بجلی کے بغیر ایک مصنوعی روشنی میں لکھ رہا ہوں اور نہیں معلوم یہ بھی کس لمحے گل ہو جائے گی۔
ہماری انسانی زندگی بضاعت میں اتنی ہی ہے کہ بجلی کا ایک نامواقف جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکتے جب کہ یہ دنیا ہماری اپنی آباد کردہ مصنوعی زندگی ہے جس میں آپ کو اپنی ضرورت اور پسند کے مطابق بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں ہیں، زندگی کا تڑا مڑا سفر طے کرنے کے لیے قدم قدم پر ایک نئی مشکل سامنے آتی ہے۔ اس وقت اندھیرا ہے اور رات کا وقت ہے جس میں خطرہ مول لے کر یہ چند سطریں لکھ رہا ہوں جیسی تیسی ہیں انھیں قبول فرمائیں اور اپنے منتظمین کی کارکردگی پر ماتم کریں جو ایک غیرمعمولی تکنیکی زندگی اختیار کرتے ہیں لیکن اس کو رواں دواں نہیں کر سکتے ،اب اس سے زیادہ کچھ لکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ کل ملیں گے اگر حالات نے ساتھ دیا۔