خوش رہو اہل وطن
دوسری جگہوں سے آنے والے کراچی میں تفریحی مقامات میں سے ایک قائد اعظم کا مزار بھی دیکھ لیتے ہیں
ایک کتاب نظر سے گزری بلکہ گزاری گئی کیونکہ کتب بینی کا شوق بے حد رکھنے کے باوجود جیب میں وہ شوق بے حد پیدا کرنا ایک امر محال ہے۔ کتاب چھاپنا اور چھپوانا بھی اب رؤسائے دکن اور بھوپال کا کام لگتا ہے رہ گیا ہے۔
یہاں ایک بات بہت نئی اور اچھی لگی کہ مصنف نے کتاب کا انتساب کہروہ اسٹیشن کے ان شہیدوں کے نام کیا جو تقسیم ہندوستان کے وقت اس اسٹیشن پر شہید ہوئے۔ کہروہ اسٹیشن بہت غیر معروف سا ریلوے جنکشن ہے۔ مصنف نے اسے جنکشن اور اسٹیشن دونوں لکھا ہے مگر غیر معروف قرار دیا ہے۔ یہ اسٹیشن یا جنکشن اجمیر اور بیاور کے درمیان واقع ہے یوں ایک ہندوستانی اسٹیشن ہے آج بھی۔
''(ستمبر 1942کی تاریخ اب کسی کو یاد نہیں جن کو یاد تھی وہ اب اس دنیا سے جاچکے) اجمیر سے مارواڑ جانے والی ٹرین میں اکثریت مسلمانوں کی تھی جو براستہ کھوکھرا پار پاکستان جارہے تھے۔ دن کے نو دس بجے کے درمیان یہ ٹرین کہروہ جنکشن پر روک لی گئی اور قتل عام کیا گیا تھا۔ تقریباً سب بچے قتل کیے گئے یا شدید زخمی ہوئے بچیاں اغوا کرلی گئیں یا قتل کردی گئیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے معروف اخبارات میں یہ خبر شایع نہیں ہوئی، حالانکہ مسلمانان بیاور نے بذریعہ تار اس کی خبر تمام اخبارات کو دی تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی تار بھیجے گئے تھے۔ ان شہیدوں میں میرا بھی ایک رشتے دار دس سالہ بچہ غلام محمد اور ایک بچی حسن بانو شامل تھے (بذل الرحمن 21 ستمبر 2015نیاگرا فالز)۔''
یہ ایک اقتباس ہے اس تحریر کا، نہ جانے ادب میں لوگوں نے فسادات کے حوالے سے کیا کیا حقیقی افسانے لکھ لکھ کر شہرت دوام پائی۔ مگر اس درد کا مداوا آج بھی نہ ہوا۔ اس ظلم و ستم کا شکار طبقہ اپنوں اور غیروں کے مشترکہ ظلم کا شکار کل بھی تھا آج بھی ہے۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس سے مفر نہیں ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے اب تیسری نسل پاکستان میں ان لوگوں کی ہے جو یہاں آئے تھے مگر لوگوں نے سینہ بہ سینہ اپنے بچوں کو یہ پیغام دیا کہ یہ لوگ مہاجر ہیں۔ اور ان کے بزرگوں نے بھی یہاں کے حالات کے مطابق شاید خود کو نہیں ڈھالا کہ جس سے یہاں کے Setup کے یہ عادی ہوجاتے جو پورے پاکستان میں بنیا چھوڑ گیا تھا اور آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ کردار موجود ہیں لوگ بدل گئے ہیں۔ شاید یہ بات بہت سے لوگوں کو بری بھی لگے مگر حقیقت یہی ہے۔
پاکستان سے دوسرے ملکوں کو ہجرت کر جانے والے لوگ بھی یہی لوگ ہیں یا ان میں سے لوگ ہیں اور پھر جب ان لوگوں نے دوسرے ملکوں میں جگہ بنائی تو پھر اس علاقے کے لوگوں نے جو جہاں رہتے تھے جسے پاکستان کہتے ہیں یہی روش اپنا لی اور امریکا ،کینیڈا، برطانیہ اور دوسرے ملکوں کا رخ کرلیا اور وہ سارے فوائد حاصل کرلیے جو ان مستقل مہاجروں نے حاصل کیے جو پہلے ہندوستان سے پاکستان اور پھر بہت محدود تعداد میں ان ملکوں کو گئے جہاں کا ذکر میں نے کیا۔ کہیں بھی آنا جانا کسی کے لیے ممنوع تو نہیں تھا تو پہلے لوگ کیوں نہ گئے۔ یہ شعور ان کو کس نے دیا یہ میرا سوال ہے؟
پاکستان کی تاریخ کا ایک انمول باب ہجرت ہوتا اور شاید ابتدائی چند برس اسے برداشت بھی کیا۔ مگر غلام محمد نے پاکستان کے قیام کی جس طرح بیخ کنی کی اور جس طرح دوسروں نے اس کام میں دست تعاون دراز کیا یہ پاکستان کی تاریخ بن گئی۔ پاکستان لوٹ کا مال بن گیا۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد اور اب تک لوگ اس کی مانگ کا سیندور فروخت کررہے ہیں۔ میرے قلم سے اگر لہو ٹپکتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے ہے ان کا دکھ ہے۔ میں نے اور میرے خاندان نے پرآشوب دور کو اپنی محنت اور ہمت سے کام لے کر آگ کے دریا کی طرح عبور کرلیا اور معاشرے نے وہ عزت دی جو میرا حق تھا مگر سفر بہت مشکل تھا اور ہے۔
تو ایک محفل کی صدارت کے لیے میرا نام دوستوں نے انتخاب کیا اور مجھے ظفر قابل اجمیری اور ایک اور دوست تابش کی وجہ سے اسے قبول کرنا تھا۔ آج یہ بات عرض کر رہا ہوں شاید ایک بار اور بھی کہیں لکھا تھا کہ میرے ننھیال کا وطن اجمیر تھا اور میں نے بھی اس جگہ ہی آنکھ کھولی تھی اجمیر شریف میں۔ اجمیرکے قریب ایک علاقہ ہے سڑاڑ اور یہاں کے رہنے والے جگہ کی نسبت سے سڑاوڑی کہلاتے تھے شاید اب بھی کہلاتے ہوں۔ مگر مصنف کے بزرگوں نے نام کو آسان کرلیا اور اسے سروری کردیا کہ عام فہم ہوتا اور لوگوں کو ادائیگی میں مشکل پیش نہ آتی مگر ہمارے خیال میں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سندھی، بلوچی، پشتو اور بہت سی زبانیں بولنے والوں کے ملک پاکستان میں سڑاوڑی بھی چل جاتا۔ سروری سے تو مختلف اطراف میں دھیان جاتا ہے اور ایک خیال ہالا کی طرف بھی ہوتا ہے کہ شاید مخدوم کے مریدین ہیں اس سے سیاسی فائدہ تو ہوسکتا ہے مگر تاریخ بدل جائے گی۔
بہرحال حالات کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ قدرت کے فیصلے کے مطابق ہے یا نہیں۔ خود میرے ایک چھوٹے بھائی عاصم جعفری نے مسجد نبوی کا ملازم ہوتے ہوئے کینیڈا میں آباد ہونے کی خواہش دل میں رکھی اور وہاں کوئی خواہش رد نہیں ہوتی لہٰذا کینیڈا کے برفانی علاقے میں آباد ہے شاید میں ہوتا تو وہاں سے واپسی نہ ہونے کی دعا کرتا۔ اپنی اپنی دعا ہوتی ہے اور قبولیت بہرحال ہوتی ہے۔
اس کتاب میں قائد اعظم کے مقبرے کے ڈیزائن کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات ہے کہ جب مقابلہ ڈیزائن ہورہا تھا تو ایک ڈیزائن منظور کرلیا گیا اور اس پر کام شروع ہونے سے پہلے مصنف کے ایک عزیز یا جاننے والے نے متعلقہ لوگوں کو ایک پوسٹ کارڈ بھیجا جس پر اس ڈیزائن کی تکمیل شدہ تصویر تھی جوکسی دوسرے ملک میں ایک پارک تھا اور وہاں ہفتے کے ایک مخصوص دن کوئی بینڈ موسیقی کے سازوسامان کے ذریعے نغمہ سرائی کرتا تھا۔ یوں قائد اعظم اس نقشے میں دفن ہونے سے بچ گئے اوردوبارہ مقابلے کے بعد موجودہ ڈیزائن منظور کیا گیا اور قائد اعظم کو سکون کی جگہ مل گئی یہاں بھی قائد اعظم دو جگہ تجویز تھے اور اس جگہ بھی مصنف کے بزرگوں سے مشورے کے بعد انتخاب کیا گیا۔
دوسری جگہوں سے آنے والے کراچی میں تفریحی مقامات میں سے ایک قائد اعظم کا مزار بھی دیکھ لیتے ہیں۔ کتاب کا نام ہے ''نقوش زندگی'' مصنف ہیں بذل الرحمن جو 30 سال جدہ رہے اب 20 سال سے نیاگرا کینیڈا میں رہتے ہیں۔ خوش رہو اہل وطن! تقریب کا احوال ادھار رہا پھر کبھی سہی! ہے عبرت انگیز۔