’کوانٹم سیٹیلائٹ‘ آزمائش کے لیے تیار

تجربات میں کام یابی کی صورت میں محفوظ ترین مواصلاتی نظام تشکیل دیا جاسکے گا


غزالہ عامر August 11, 2016
تجربات میں کام یابی کی صورت میں محفوظ ترین مواصلاتی نظام تشکیل دیا جاسکے گا ۔ فوٹو : فائل

موجودہ دور میں سطح ارض پر کاروبار حیات جاری رکھنے میں مواصلاتی سیاروں کا کلیدی کردار ہے۔ یہ مواصلاتی سیارے زمین کے اطراف گردش کررہے ہیں اور موبائل فون نیٹ ورک، انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن نشریات وغیرہ سب انہی کی محتاج ہیں۔

خلا میں محوِگردش مصنوعی سیاروں کو اگر نقصان پہنچ جائے تو زمین پر کاروبار حیات تھم جائے گا اور ہمارا ایک دوسرے سے مختلف برقی آلات اور ٹیکنالوجی کی بدولت جو رابطہ قائم ہے، وہ ٹوٹ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سیاروں کو کسی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کی صورت میں بھاری مالی خسارہ بھی ہوگا۔ اسی خدشے کے پیش نظر انتہائی محفوظ مواصلاتی نیٹ ورک کی ضرورت برسوں سے محسوس کی جارہی ہے۔ محفوظ مواصلاتی نیٹ ورک کے ضمن میں پیش قدمی کرتے ہوئے چینی سائنس داں دنیا کا پہلا 'کوانٹم سیٹیلائٹ' خلا میں روانہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یہ سیٹیلائٹ ماہ رواں میں جی چوان شہر میں واقع خلائی مرکز سے ارضی مدار میں بھیجا جائے گا۔ 1300پونڈ وزنی' کوانٹم سیٹیلائٹ میں ایک کرسٹل نصب ہے جو ایک دوسرے سے الجھے یا جُڑے ہوئے فوٹان (entangled photons) کے جوڑے خارج کرے گا۔ خلا سے یہ فوٹان چین اور آسٹریا میں واقع زمینی اسٹیشنوں کی جانب فائر کیے جائیں گے۔

سائنس دانوں کے مطابق ایک دوسرے سے منسلک فوٹان سیکڑوں میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود بنیادی باہمی ربط برقرار رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس ربط میں خلل پیدا ہونے پر اس کی نشان دہی بے حد آسان ہوگی۔ سائنس دانوں کے مطابق دو سال تک سیٹیلائٹ کی آزمائش کی جائے گی اور اگر تجربات کام یاب رہتے ہیں تو پھر کوانٹم سیٹیلائٹس کا پورا بیڑا ارضی مدار میں پہنچایا جائے گا۔ تجربات کے دوران سائنس داں یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ فوٹان طویل باہمی فاصلے کے باوجود ایک دوسرے سے رابطہ برقرار رکھتے ہیں۔ ان تجربات کے دوران ذرات کا باہمی فاصلہ ساڑھے سات سو میل ہوگا۔

یہ موجودہ مواصلاتی نظام کا متبادل ڈھونڈنے کی اولین کوشش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کوانٹم مواصلاتی نظام کے تجربات کیے جاچکے ہیں، مگر ان تجربات کے دوران خلا میں کوئی سیٹیلائٹ نہیں بھیجا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ نظام ایک سو اسّی میل کے فاصلے تک مؤثر ثابت ہوا تھا۔ فاصلہ اس سے بڑھانے پر فوٹان کے درمیان ربط ٹوٹ گیا تھا۔ سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ خلا سے زمین پر فوٹان بھیجنے پر یہ ماضی کے تجربات سے کہیں زیادہ فاصلے پر باہمی ربط برقرار رکھیں گے۔

ہوا میں، یا آپٹیکل فائبر میں سفر کرتے ہوئے پروٹان منتشر یا پھر جذب ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر کوانٹم مواصلاتی نیٹ ورک کی بنیاد کھڑی نہیں کی جاسکتی۔ ان کے مقابلے میں فوٹان خلا میں بہ آسانی سفر کرسکتے ہیں۔ اگر سائنس داں سیکڑوں میل کی دوری پر واقع دو مقامات کے درمیان کوانٹم مواصلاتی نیٹ ورک قائم کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو یہ کام یابی انتہائی محفوظ عالمی مواصلاتی نیٹ ورک کو جنم دے گی، جس میں دو فریقین ایک مشترکہ انکرپشن کِی کے ذریعے رابطہ کرسکیں گے۔

کوانٹم فزکس کی رُو سے entangled particles کو اگر جُدا کردیا جائے، اس طرح کہ ان کے درمیان طویل فاصلہ ہو، تو بھی وہ ایک دوسرے سے منسلک رہتے ہیں اور ایک ذرّے کا برتاؤ یا فعل دوسرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ چناں چہ ایک ذرّے یا کوانٹم مواصلاتی نیٹ ور ک کے ایک سرے پر ہونے والی سرگرمی دوسرے سرے پر اثرانداز ہوگی۔ اس تجربے میں یہ نکتہ سب سے زیادہ اہم ہے۔

کہا جارہا ہے کہ دو سال کے آزمائشی عرصے کے دوران چینی سائنس داں اسی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ پہلے مرحلے میں چینی کوانٹم سیٹیلائٹ سے فوٹان کے جوڑے بیجنگ اور آسٹریا میں واقع زمینی اسٹیشنوں پر فائر کرکے انکرپشن کِی بنائی جائے گی۔ بعدازاں دوسرے مرحلے میں دونوں اسٹیشنوں کے درمیان پیغامات کی ترسیل و وصولی کے تجربات کیے جائیں گے۔ اگر یہ تجربات کام یاب رہتے ہیں تو پھر مزید کوانٹم سیٹیلائٹ خلا میں روانہ کیے جائیں گے۔ چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی کوانٹم مواصلاتی نیٹ ورک کے لیے زیادہ سے زیادہ بیس سیٹیلائٹس درکار ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں