الیکشن میں ’’عمران فیکٹر‘‘
برسر اقتدار حکمران کو برا بھلا کہنا اور جسے آزمایا نہ گیا ہو اس کے بارے میں خوش گمانی کا شکار ہونا ہماری قومی عادت ہے.
تحریک انصاف آیندہ الیکشن میں کلین سوئپ کرے گی؟ میرا خیال ہے کہ ملک کے موجودہ حالات عمران خان کے ماضی قریب کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ کل اچانک کچھ ہو جائے، کوئی بڑا ''انقلاب'' آ جائے تو ممکن ہے کپتان اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار الیکشن کا ''عالمی کپ'' بھی جیت جائے لیکن سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی قومی، پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں مؤثر نمایندگی ہی حاصل کر لے تو بڑی بات ہے۔ پے در پے سیاسی ناکامیوں کے باوجود عمران خان کو اپنے سیاسی حریفوں پر ایک ایڈوانٹیج بھی ہے اور یہ ایڈوانٹیج بطور حکمران انھیں آزمایا نہ جانا ہے۔
برسر اقتدار حکمران کو برا بھلا کہنا اور جسے آزمایا نہ گیا ہو اس کے بارے میں خوش گمانی کا شکار ہونا ہماری قومی عادت ہے۔ اس عادت کو مدنظر رکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران ''فیکٹر'' کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ بھی کہتے رہیں، یہ ماننا پڑے گا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کسی حد تک اپنی جگہ بنانے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے۔ بعض حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو آسان حریف سمجھنے والے غلطی کریں گے۔ پارٹی میں بری شہرت والے بعض امیدواروں کی شمولیت، کچھ کا ساتھ چھوڑ جانا، شیخ رشید جیسے ''بڑے'' لیڈر کے جلسے میں شمولیت اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل جلوہ افروزی جیسے ''کارناموں'' نے خان صاحب کی مقبولیت کو عموماً اور پارٹی کی مقبولیت کو خصوصاً نقصان پہنچایا ہے۔ کپتان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ انھوں نے بعض قومی ایشوز پر مبہم اور بعض پر دائیں بازو والوں کا موقف اختیار کیا۔ یوں وہ کوئی بھی نظریاتی دھڑا بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کے باوجود کرکٹ کی اصطلاح کے مطابق "He is down but not out yet"۔ سیاسی میدان میں کپتان کی موجودگی سے اب انکار ممکن نہیں۔
الیکشن میں ابھی پانچ ماہ کے قریب کا عرصہ باقی ہے۔ اس دوران بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ عمران اگرچہ اپنی تقریروں اور بیانات میں صدر زرداری اور ان کی پارٹی کو بھی نشانہ بناتے رہتے ہیں لیکن آج بھی ان کی سب سے بڑی حریف مسلم لیگ (ن) ہے۔ دونوں جماعتوں کا اصل مقابلہ بھی پنجاب میں ہو گا۔ یہ طے ہے کہ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی ہی مرکز میں حکومت بنائے گی۔ الیکشن تک عمران جتنے مضبوط ہوں گے مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن اتنی ہی کمزور ہو گی۔ عمران کی مقبولیت کا گراف نیچے آتا رہا تو (ن) لیگ کی کامیابی کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہونے سے ن لیگ کا گراف اوپر گیا ہے۔
میاں نواز شریف نے کچھ عرصہ سے جس تحمل اور بردباری سے سیاست کی ہے، اس نے بھی (ن) لیگ کو فائدہ پہنچایا ہے۔ عمران خان کا فوکس نوجوان ہیں۔ (ن)لیگ نے دیر ہی سے سہی نوجوانوں پر کام ضرور کیا ہے۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم پر تنقید اب تک ہو رہی ہے لیکن اس اسکیم کے ذریعے بیس پچیس فیصد نئے ووٹر نوجوان بھی ن لیگ کی طرف راغب ہو گئے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔ لاہور چونکہ (ن) لیگ کا گڑھ ہے، اس لیے شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال بھی اس بات کا گواہ ہے کہ شہباز شریف اور ان کی قیادت کسی قیمت پر اسے کھونا نہیں چاہتے۔ یوتھ فیسٹیول بھی ان کا اہم کارنامہ ہے۔ چھوٹے میاں صاحب پر سب سے زیادہ تنقید لاہور میٹرو بس کے منصوبے کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ بے شک یہ منصوبہ مہنگا ہے اور اس نے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم کر رکھا ہے، لوگ سفری مشکلات کی وجہ سے پنجاب حکومت کو برا بھلا بھی کہتے ہیں لیکن ایک بار یہ بس سروس شروع ہوگئی تو اہل لاہور کے خیالات یکسر بدل جائیں گے۔
لاہوریوں کا مزاج ہی ایسا ہے۔ یہ محبت اور نفرت کے جذبات تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ پتہ نہیں یہ مثال یہاں ٹھیک رہے گی یا نہیں، لیکن اس کا ذکر کرنا چاہوں گا، قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان چیمپئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنا منٹ کا فائنل ہو رہا تھا، قومی ٹیم کے کپتان وسیم اکرم کے حق میں نعرے لگ رہے تھے، پھر اچانک یہ نعرے گالیوں میں تبدیل ہو گئے۔ ہوا یوں کہ پہلے وسیم اکرم کی مس فیلڈنگ سے ایک چوکا ہوا، اس کے بعد ان کے اوور کی دو مسلسل گیندوں پر چوکے لگے تو ان کے سارے چاہنے والے ان کے بدترین ''دشمن'' بن گئے۔ میرا خیال ہے ایک سال پہلے الیکشن ہو جاتے تو ن لیگ شاید لاہور میں بھی سیٹ جیتنے کے لیے ترس جاتی لیکن اس وقت صورتحال خاصی تبدیل ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت سے ڈرنے والے سعد رفیق جیسے لیڈروں کا اعتماد بھی اب کافی حد تک بحال ہوچکا ہے۔ میٹرو بس سروس کی تعریف اس وقت شاید بے جا لگے لیکن یہ بس چل گئی اور کہیں ایسا ہو گیا کہ اس کے روٹ پر کاروں کی تعداد میں واقعی کمی ہو گئی تو شہر کا سارا نقشہ ہی بدل جائے گا۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا اتحاد بھی الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ کالا باغ ڈیم کا ایشو بھی الیکشن کا اہم حصہ ہو گا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے اس مردے گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ اہل پنجاب اس منصوبے کے حق میں ہیں، لہٰذا جو پارٹی صوبے میں اس ڈیم کی حمایت کرے گی اس کے ووٹ بینک میں یقیناً اضافہ ہو گا۔ کم از کم پنجاب میں تواس ڈیم کی مخالفت کا رسک کوئی پارٹی نہیں لے سکتی۔ مجھے تو بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کا ایشو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور اے این پی کو اپنے اپنے انداز میں فائدہ دے گا۔ ن لیگ اس ڈیم کی حمایت کر کے پنجاب میں سیٹیں لینے کی کوشش کرے گی، پیپلز پارٹی اس کی مخالفت کر کے قوم پرستوں سے یہ کارڈ چھین کر سندھ میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کر سکتی ہے جب کہ اے این پی کو ایک بار پھر نئی زندگی مل جائے گی اور وہ خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کو ٹف ٹائم دے گی۔
سیاسی منظر نامہ خواہ کچھ بھی ہو، پیپلز پارٹی کی خواہش اور کوشش ہے کہ پنجاب خصوصاً وسطی اور شمالی پنجاب میں کپتان کی مقبولیت کے موجودہ گراف میں کمی بیشی نہ ہو۔ ن لیگ کوشش کرے گی کہ یہ گراف اور گرے۔ عمران 30 اکتوبر 2011ء کے جلسہ لاہور کے فوری بعد والی مقبولیت کی بلندی پھر سے چھونا چاہیں گے۔ عمران کی اپنی کوشش کامیاب رہے یا ان کے حریفوں کی خواہش پوری ہو جائے جو بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ پنجاب میں اگلے الیکشن میں ''عمران فیکٹر'' ہی سب سے اہم ہو گا۔