حکم ران اور احتساب

اسلامی قانون میں حکّام اور عام شہریوں کے حقوق میں کوئی امتیاز نہیں ہے


اسلامی قانون میں حکّام اور عام شہریوں کے حقوق میں کوئی امتیاز نہیں ہے فوٹو : فائل

اسلام دینِ فطرت اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو زندگی کے تمام پہلوؤں اور جہتوں کے بارے میں مکمل راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے ظہور کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام اور ناانصافی و قانون شکنی کا مکمل خاتمہ ہے۔

اسلامی حکومت کی عمارت اخوت اور مساوات کی بنیاد پر اُٹھائی گئی ہے۔ اس کی قوت کا انحصار دل کی محبت اور روح کی اطاعت پر تھا، حکومت کا آئین و قانون دین کا جز تصور کیے جاتے تھے اور دین چوں کہ صحابہ کرامؓ کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔ اس لیے یہ ایک نہایت کا م یاب اور مثالی حکومت ثابت ہوئی اور یہ مثالی حکومت کیوں نہ ہوتی حضور اکرم ؐ حکومت کے کارندوں اور حکام کا تقرر خود فرماتے تھے۔ آپؐ حکام کا تقرر ان لوگوں میں سے فرماتے جن کا تقدس، زہد اور پاکیزگی مسلّمہ ہوتی، اس کے علاوہ وہ عالم اور واعظ بھی ہوتے۔ تقرر سے پہلے آپ ان کے علم اور طرز عمل کا امتحان بھی لیتے تھے۔

آپؐ نے جب حضرت معاذ کا تقرر فرمایا تو اس سے پہلے ان کی اجتہادی قابلیت کے متعلق اطمینان فرمالیا۔ ترمذی میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے جب معاذ بن جبلؓؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا، تم کس چیز سے مقدمات کا فیصلہ کروگے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید سے۔ آپؐ نے فرمایا، اگر اس میں وہ فیصلہ تم کو نہ ملے تو کیا کرو گے۔ انہوں نے کہا احادیث سے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، اگر احادیث میں بھی وہ مسئلہ نہ ملے تو۔ انہوں نے کہا اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ ﷺ نے اس پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا۔

اسلام میں عمال حکومت کا تقرر ان کی اہلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا! جو کوئی مسلمانوں کا حاکم مقرر ہو اور وہ ان پر کسی کو بلااستحقاق اور رعایت کے طور پر افسر بنادے۔ اس پر اﷲ کی لعنت پڑتی ہے، اﷲ تعالیٰ اس کا کوئی عذر اور فدیہ قبول نہیں فرمائے گا، یہاں تک کہ اس کو جہنم میں داخل کردے گا۔

حاکم اور عمال حکومت کو عام مسلمان کے مقابلے میں کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا، سوائے اس کے کہ ان کی ذمے داریاں زیادہ تھیں۔ اسلامی قانون کی نظر میں حکام اور عام شہریوں کے حقوق میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ حاکم کو عوام کی بہتری اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے مقرر کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا '' لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، دشواری پیدا نہیں کرنا اور ان کو بشارت دینا، ان کو وحشت زدہ نہیں کرنا، آپس میں اتفاق رکھنا اور اختلافات پیدا نہیں کرنا۔

آپ ﷺ عمالِ حکومت پر کڑی نظر رکھتے تھے حتیٰ کہ جب کوئی عامل (حاکم) اپنے دورے سے واپس آتا تو رسول اﷲ ﷺ بہ ذات خود اس کا محاسبہ فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپؐ نے ان کا محاسبہ خود فرمایا۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ یہ آپ ﷺ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ ملا ہے '' یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا، تم کو گھر بیٹھے ہوئے یہ ہدیہ کیوں نہ ملا ؟ چناں چہ ان سے وہ ہدیہ لے کر بیت المال میں جمع کردیا گیا۔ اس پر بھی تسکین نہ ہوئی۔ تو آپؐ نے ایک عام خطبہ دیا اور تمام لوگوں کو اس قسم کا مال لینے سے سختی سے منع فرمایا۔

حکم رانوں پر کڑی پابندی اور محاسبے کا عمل خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی جاری رہا۔ حضرت عمرفاروقؓ نے ہر ایک عامل (حاکم) کے لیے چند شرائط مقرر کر رکھی تھیں۔ مثال کے طور پر عامل ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، باریک کپڑا نہیں پہنے گا، چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا، دروازے پر دربان نہیں رکھے گا، ہر حاجت مند کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے گا۔ حتیٰ کہ عامل (حاکم) کے تقرر کے وقت اس کے مال و اسباب ( اثاثہ جات ) کی فہرست تیار کرکے اپنے پاس محفوظ رکھتے، جب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا تو فوراً جائزہ لے کر آدھا مال تقسیم کرکے بیت المال میں جمع کرا دیتے۔

تاریخ کی کتب میں یہ واقعہ تحریر ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے عمال کو حکم دیا کہ وہ اپنے اثاثہ جات کی ایک فہرست بنا کر ان کو بھیج دیں۔ انہی عمال میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی تھے ، جب انہوں نے اپنے اثاثوں کی فہرست بنا کر بھیجی تو حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے ان کے مال میں غیر معمولی اضافہ دیکھ کر ان کے مال کے دو حصے کرکے ایک حصہ ان کے لیے چھوڑ دیا اور ایک حصہ بیت المال میں جمع کرادیا۔ ( تاریخ الخلفاء )

اگر کسی عامل کے خلاف کوئی عام آدمی بھی شکایت کرتا تو اس کا فوراً ازالہ کیا جاتا۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھے بے قصور کوڑے مارے ہیں۔ آپؓ نے تحقیق کی اور جب الزام ثابت ہوگیا تو حکم دیا کہ مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے مارے جائیں۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایک یہ عادت کریمہ یہ بھی تھی کہ عمال کے انتخاب اور تقرری میں اپنے قبیلے کے کسی شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح ہر عامل کے تقرر کے وقت اسے ایک خط دیا جاتا، جس میں اس کے اختیارات کی تفصیل ہوتی تھی۔ جہاں وہ مقرر ہوکر جاتا تھا، وہاں یہ خط مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا تاکہ کوئی عامل اپنی حدود سے تجاویز نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا دور خلافت ایک مثالی دور ہے۔

موجودہ حکم ران بھی حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ان سنہری اُصولوں پر عمل کرکے پاکستان کوایک مثالی اور پُرامن ملک بناسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں