ساڑھے تیرہ اگست

والدین ہجرت کرکے نئے ملک میں آئے تھے،مجھ سے پہلی نسل نے اس خواب کے لیے ذاتی قربانیاں دی ہیں۔


راؤ منظر حیات August 12, 2016
[email protected]

جشن آزادی نزدیک ہے۔بے ترتیبی سے قومی جھنڈے عمارتوں،گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں پرلگنے شروع ہوچکے ہیں۔لیکن کیاہم واقعی آزادہیں؟سوالات کاایک ہجوم ہے اورکسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔عرض کرتا چلوں۔ اَن گنت ملکوں میں جانے کاموقعہ ملاہے۔چنددن گزارنے کے بعدصرف ایک خواہش ذہن میں آتی ہے کہ جلدازجلد پاکستان واپس چلاجاؤں۔ سب سے محترم خطہ صرف اورصرف میرااپناوطن ہے۔

والدین ہجرت کرکے نئے ملک میں آئے تھے۔مجھ سے پہلی نسل نے اس خواب کے لیے ذاتی قربانیاں دی ہیں۔ معدودے چنددس سے بارہ فیصدخاندان نئے باغ میں جڑپکڑسکے۔آج کوئی اندازہ نہیں کرسکتاکہ ہجرت کے دوران کتنے ہولناک مظالم اورانسانی جرائم ہوئے تھے۔ سربریدیں لاشوں کے رقص دیکھے جاتے تھے۔تمام برصغیر خون میں نہاگیا۔مگران تاریخی مظالم کاذکرصرف تقریری مقابلوں اورمباحثوں تک محدودہے۔ہماری سوسائٹی نے کوئی سبق سیکھنے سے انکارکردیاہے۔نفی کایہ مشکل سفرآج بھی جاری ہے۔مظالم سرانجام دینے کے طریقے تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ دنیاکاواحدملک ہے جس میں اکثریت نے اقلیت کو چھوڑا ہے۔ہمارے منجمدذہنوں نے مشرقی پاکستان کے باسیوں کوبرابرکے حقوق دینے سے انکار کر دیا تھا۔

جسم دوحصوں میں کاٹ دیاگیامگرمقتدرطبقے کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی۔1947سے لے کرآج تک وہی کہانی، وہی داستان باربارپیش کی جارہی ہے۔ کبھی کبھی کوئی نحیف سی حب الوطن آوازاٹھتی ہے تواسے ہمیشہ کے لیے بے زبان کردیاجاتاہے۔پچھلے دنوں تقسیم کے وقت پاکستان آنے والے مہاجرین کے متعلق سوکے قریب دلخراش تصاویر دیکھیں۔ انکودیکھناانتہائی دشوارہے۔دل کٹتا ہے۔ بلیک اینڈوائٹ تصاویرکودیکھ کرگھنٹوں خاموش رہا۔ ہر تصویر ایک ایسی سفاک حقیقت بیان کررہی تھی جولفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔مگرانکودیکھنااسلیے ضروری ہے کہ ہمیں ادراک ہو سکے کہ بالاخرہم نے کتنی عظیم قربانی دی ہے۔ چند تصاویرآپ کے سامنے لفظوں میں بیان کرنا چاہونگا۔

یہ ایک چالیس سالہ مردکی تصویرہے۔سفیدرنگ کا کُرتاپہن رکھاہے جوگرداورپسینہ سے مٹیالہ ہوچکا ہے۔ کُرتا سامنے سے مکمل پھٹاہواہے۔ آدھے بازوبھی پرپھٹے ہوئے ہیں۔نچے آدھی دھوتی باندھ رکھی ہے۔ٹانگیں تقریباً برہنہ ہیں۔دھوتی کارنگ شائدکچھ عرصہ پہلے سفید تھا۔ آدمی کے چہرے پرکوئی جذبات نہیں۔بالکل سپاٹ چہرہ ہے۔لگتاہے صدیوں سے پیدل چل رہاہے۔کندھے پر ایک بانس اٹھا رکھاہے۔اسکاترازوسابنارکھاہے۔پچھلے پلڑے میں ٹین کاڈبہ، بوری اورشائددومرغیاں ہیں۔اگلے پلڑے میں ایک آہنی گول آدھاڈبہ ہے۔اس سے پانچ چھ رسیاں منسلک ہیں جواسے بانس سے جوڑرہی ہیں۔گول ڈبے میں ایک معصوم بچہ بیٹھاہواہے۔بچے کی آنکھیں بالکل بند ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ کپڑے رکھے ہوئے ہیں۔

غورسے دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ بچہ زندہ ہے کیونکہ اس کی گردن ڈھلکی ہوئی نہیں ہے۔مرداوربچہ پرنظرڈالیں توپیہم اندازہ ہوجاتاہے کہ بے سرسامانی اورغربت کی پاتال میں گرچکے ہیں۔ ترازو نماپلڑے میں بیٹھابچہ اورآہستہ آہستہ چلتاہوامردایک ایسے نئے ملک کی طرف قدم بڑھارہے ہیں،جسکے متعلق انھیں بتایاگیاہے کہ وہاں مسلمان مکمل آزادہونگے اور ترقی کے سنہرے خواب مکمل کر پائینگے۔خواب کرچی کرچی ہوگئے یا تعبیرمل گئی،اس کے متعلق کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا۔ایک اورتصویرمیں ایک بوڑھاساطویل قامت انسان کچی زمین پرچل رہا ہے۔

پھٹی ہوئی قمیض کے نیچے نہ پاجامہ ا ورنہ شلوار۔نہ دھوتی ہے اورنہ کوئی اور پہناوا۔ گھٹنوں کے اوپرتک ایک کٹا پھٹا نیکر سا ہے۔ ایک پاؤں میں دیسی جوتاہے اوردوسرے پاؤں میں بھی وہی جوتا مگر صرف آدھا ہے۔اسکاپچھلاحصہ نہیں ہے۔ تصویر کا درد ناک پہلویہ ہے کہ بوڑھے شخص نے کمزور کندھوں پراپنی جوان بیٹی کو بٹھا رکھا ہے۔نوجوان بچی نے سرپردوپٹہ لینے کی ناکام سی کوشش کررکھی ہے۔دونوں کے بال گردسے اَٹے ہوئے ہیں۔ لڑکی کے پاؤں میں کوئی جوتا نہیں ہے۔ لڑکی نے دونوں ہاتھ اپنے والدکے سر پر رکھے ہوئے ہیں۔بزرگ اپنی بیٹی کو لے کرپاکستان زندہ پہنچ بھی پایا یا نہیں، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خواب انھیں نئے وطن تولے آئے مگر تعبیر کیا ہوئی، کوئی کچھ نہیں بتاسکتا۔

ایک جوہڑکی تصویرہے۔گدلے پانی میں درخت کا عکس نظرآرہاہے۔جوہڑمیں سات مرداورخواتین کی پھولی ہوئی لاشیں ہیں۔پانی میں کئی دنوں تک موجودرہنے والے یہ بے جان جسم ان بدقسمت انسانوں کے ہیں جونئے خواب دیکھنے کے لیے ہجرت کررہے تھے۔اس میں تین جسم بالکل برہنہ ہیں۔معلوم ہوتاہے کہ قتل کرنے سے پہلے ان کے تمام کپڑے اتاردیے گئے تھے۔پھولے ہوئے پیٹ، ٹانگیں اورکولہے پہچاننے مشکل ہوچکے ہیں۔ایک لاش کا سر موجود نہیں ہے۔لگتاہے کہ سرکاٹ دیاگیاتھا۔دایاں بازو بھی کٹا ہواہے۔مرنے کے بعدانھیں دفن نہیں کیاگیابلکہ ایک دوسرے پرپھینک دیاگیاتھا۔کسی کی بے جان ٹانگ کسی کے سرپرہے اورکسی کابازوکسی کے برہنہ پیٹ پر۔ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں مردکون ہیں اورخواتین کون۔چار لاشیں نچلے کپڑوں سے مکمل طورپرمحروم ہیں۔

صرف اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ انکوکس اذیت اورظلم سے قتل کیا گیا ہوگا۔ سربریدہ جسم ایک نہیں بلکہ دوہیں۔صرف غور سے دیکھنے سے نظر آیا ہے۔ تصویر کہاں کی ہے۔لوگ کون ہیں۔انھیں کس نے زندگی سے محروم کیا۔انھیں دفن بھی کیا گیایاان کے مردہ جسم جنگلی جانوروں کے حوالے کردیے گئے۔وثوق سے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔صرف ایک تصویر سب کچھ بتارہی ہے۔کٹی پھٹی پانی سے پھولی ہوئی لاشیں، ہم لوگوں سے سوال کررہی ہیں کہ ان کا قصور کیا ہے۔انھیں کس جرم کی سزا ملی ہے۔کسی کے پاس بھی ان کے خاموش سوالوں کاجواب نہیں۔

ایک ریلوے اسٹیشن کی تصویرہے۔کچی اینٹوں کا پلیٹ فارم ہے۔اس پرٹین کی چھت ہے۔لوہے پر چونے سے اسٹیشن کانام لکھاہواہے۔انگریزی کے صرف آخری دو حروف نظرآرہے ہیں۔وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ کون سااسٹیشن ہے۔پلیٹ فارم پرایک آدمی صرف کُرتے میں ملبوس خاموشی سے ایک جانب پیدل جارہا ہے۔کُرتے کے نیچے اس نے کچھ نہیں پہنا ہوا۔ لمبا سا کُرتا ہے اور سر پرایک کپڑالپیٹاہواہے۔اسٹیشن کے ایک کونے میں ایک ریڑھا کھڑاہواہے۔اس پرایک خاندان بیٹھا ہوا ہے۔ شائدٹرین کامنتظر۔پتہ نہیں کہ ٹرین آئی یا نہیں آئی۔پلیٹ فارم کے نیچے ریل کی پٹری صاف دکھائی دے رہی ہے۔ پٹری اور دیوارکے درمیان دوبسترے پڑے ہوئے ہیں۔ بستروں سے تھوڑاساپیچھے ایک نوجوان کی لاش ہے۔

اس کا ایک خاموش بازوپلیٹ فارم کی دیوارسے جڑاہوالگتاہے اور دوسرا بازوآدھاہے۔سردیوارکی طرف جھکاہواہے۔سرسے ذراسا پیچھے چندکپڑے اورکالی چپل کا ایک پَیر پڑا ہوا ہے۔ چپل کا دوسراپَیربائیں طرف موجود ہے۔پلیٹ فارم پر چلنے والا زندہ شخص لاش کودیکھ تک نہیں رہا۔ مکمل طور پر ماؤف سا ہوچکاہے۔ زندہ اورایک مردہ جسم کس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسکاجواب وہ خودہی دے سکتے ہیں۔وہ ٹرین جوانھیں منزل پرپہنچادے،کبھی آئی بھی یا نہیں۔اسکابھی کوئی پتہ نہیں۔وہ شخص کیوں ماراگیا،کس نے اسے قتل کیا، اس کا مذہب کیا تھا، یہ بھی صرف سوال ہیں!

ایک خچرکی تصویرہے شائدگدھے کی۔ جانور پر چار خالی بوریاں بندھی ہوئی ہیں۔بوریوں پرایک منقش لحاف ہے۔لحاف پرایک چادرپڑی ہوئی ہے۔جانورکے گلے میں ایک رسی ہے۔رسی کادوسراسراسوارکے ہاتھ میں ہے۔ سوارکوئی مردنہیں،کوئی عورت نہیں،آٹھ سے دس برس کابچہ ہے۔ اس نے کوئی کپڑے نہیں پہنے ہوئے۔ایک ہاتھ میں رسی لیے اپنی سواری کودائیں جانب موڑنے کی کوشش کررہا ہے۔دس سالہ بچے کے دوسرے بازومیں ایک اور چھوٹا سا بچہ ہے۔اس کی عمرحدسے حد،دوسال ہوگی۔چھوٹے سے معصوم بچے نے ایک کُرتاپہن رکھاہے۔وہ دھاڑیں مار مار کررورہاہے۔گدھے پرسواربڑابھائی بھی خوف سے رو رہا ہے۔یہ رنج واَلم کی وہ داستان ہے جوتصویرسے نکل کر انسان کے دل پروارکرتی ہے۔روح کوکرچی کرچی کر دیتی ہے۔ دونوں روتے ہوئے،بچے کون ہیں۔ والدین کے بغیرایک نئے ملک میں کہاں جارہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا۔

مزیدتصاویردیکھنے کی ہمت نہیںہے۔نہ بیان کرنے کاحوصلہ ہے۔مگریہ تصاویرپاکستان کے ہر بچے، بوڑھے، بزرگ،مرداورخواتین کودیکھنی چاہیے۔انھیں پتہ توچلے کہ ہماری آزادی خون سے لبریزتھی۔انسانی خون کی یہ لکیر روحوں کوبھی زخمی کرچکی ہے۔پتہ نہیں،ہجرت کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے،خواتین اورمرد،بے مقصدقتل ہونے کے بعدجب آسمان پرپہنچے ہونگے تو خداسے ضرور پوچھاہوگاکہ ہمیں کیوں ماراگیا۔ ہمارا قصور کیا تھا۔ خدا کا جواب صرف خداکومعلوم ہوگا۔مگرزمین پرہم نے آزادی کو زمینی خداؤں کے پاس گروی رکھ دیاہے۔ایک آقاسے دوسرے آقاکایہ سفرانتہائی المناک ہے۔صرف چند سو خاندان ملک پرقابض ہوگئے اورعام آدمی، صرف اور صرف غلام۔کبھی کبھی لگتاہے کہ ہماراآزادچودہ اگست توکبھی آیاہی نہیں۔ہم تمام لوگ ساڑھے تیرہ اگست میں پھنس چکے ہیں۔ایک چوتھائی انتہائی طویل سفرکب اورکیسے طے کرینگے۔سب کومل کرآج ضرورسوچناچاہیے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں