دہشتگردی لیکس کا خطرہ
حضرت انسان نے اپنی تاریخ کی روشنی میں بالغ النظری اور عقلی پختگی کو حاصل کیا ہوا ہے
اسباب، سانحات و اہل دانش: عالم انسانیت آج اپنی تاریخ کے انتہائی بھیانک ارتقائی مرحلے میں اپنے وجود کو لاحق ہولناک مسائل سے نبرد آزما ہے، یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ حضرت انسان نے آسائش حیات کی خاطر جو خود کی پیدا کردہ موجودہ مادی ترقی حاصل کی ہوئی ہے، اسی کی تیز رفتاری کے لازمی نتیجے کے طور پر ظاہر ہونے والے موجودہ ہنگامی حالات اس کے لیے وبال جان بن گئے ہیں۔
چونکہ حضرت انسان نے اپنی تاریخ کی روشنی میں بالغ النظری اور عقلی پختگی کو حاصل کیا ہوا ہے جس نے اسے اپنے تمام گزشتہ ارتقائی مرحلوں کے مقابلے میں مادی طور پر اپنے شباب پر پہنچا دیا ہے۔ اور یہ تو ہر ذی ہوش انسان تسلیم کرتا آیا ہے کہ شباب ہی میں اکثر ایسی ہی غلطیاں سرزد ہوتی ہی ہیں کہ جس کا ازالہ کف افسوس ملتے رہنے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ اس لیے ماضی کے مقابلے میں آج یہ ٹھوس عقلی و مادی پیمانوں پر جانتا اور مانتا ہے کہ اس ترقی کو برقرار رکھنے کی خاطر موجودہ ہنگامی حالات ناگزیر ہیں۔
یعنی حضرت انسان نے آج یہ تسلیم کیا ہوا ہے کہ اسے دنیا میں رائج انھی حالات میں رہ کر اپنی بقا کی نہ صرف جنگ لڑنی ہے بلکہ عالم انسانیت کو یکساں طور پر لاحق مشکلات پر ضابطہ لائے جانے کا عملی مظاہرہ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت بھی حاصل کرنی ہوگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت انسان نے اپنی اپنی ریاستوں میں آج اسی قسم کی سبقت کے حصول کی خاطر ''مغربی نظام تمدن و انتظام معاشرت کے کلی عملی نفاذ'' کو اپنا عقیدہ بنایا ہوا ہے۔
جس کے عملی اظہار کے طور پر ترقی پذیری و ترقی یافتگی کی منزلوں میں صدیوں کی تفاوت اور مفاصلت کے باوجود مملکتوں کے تمام شعبہ ہائے ریاست یکساں جدید قوانین کے نفاذ پر متفق ہوتے ہوئے دکھائے دیے جانے لگے ہیں اور ریاستوں پر رائج قوانین میں ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملنے لگے ہیں کہ جن میں عالم انسانیت کی رہنمائی کی خودساختہ ذمے داریوں کو ادا کرنے والے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے صدر بارک اوباما کی بیٹی کو کسی مقامی ہوٹل میں غیر سرکاری نوکری کرتے ہوئے دیکھا جانا ممکن بن سکا ہے تو دوسری جانب ''لیکس گزیدہ خاندان'' انسانیت کو لاحق اس تیز ترین ہولناکیوں کی کہانیاں بیان کرتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔
کیا خوب کہ جہاں اس طرح کے منتظم و مدبر ریاستوں کی ذمے داریوں پر تعینات ہوں وہاں نائن الیون کے تسلسل میں پیرس، ترکی، بیلجیم یا کوئٹہ سانحات کا رونما ہوجانا کون سا مشکل کام رہ جاتا ہے؟ جس کی روشنی میں ہم برملا طور یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسی مغربی نظام تمدن اور انتظام معاشرت کے نفاذ کی عملی کوششیں ہی کرۂ ارض پر رائج اس تمام تر ہنگامہ خیزی و ہولناکی کی ذمے دار ہیں، تو شاید وسیع النظر اہل دانش حضرات اقرار میں اپنا سر ہلانے پر مجبور ہوجائیں۔ پھر چاہیں تو وہ اس مغربی نظام تمدن و انتظام معاشرت کی کچھ اور ''قابل فہم خصوصیات'' کی وضاحت کرنے کا اپنا ''حق'' استعمال کرسکتے ہیں۔
وسائل کا فقدان و ریاستیں: کرۂ ارض کے جن ممالک میں مغربی انتظام معاشرت کا عملی نفاذ اپنی گرفت مضبوط کرتا جارہا ہے وہاں ریاستی وسائل میں پیدا ہوتے جانے والے فقدان کے نتیجے میں وہ ریاستیں لگ بھگ کسی ''پرائیویٹ کمپنی'' کی طرح کرپشن فری ہوتی جارہی ہیں، جس سے یہ واضح ہوا چاہتا ہے کہ ان کمپنیوں (ممالک) میں کسی لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہیں۔ البتہ دیگر ریاستوں میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کی دولت کو ''ڈپازٹ'' کرنے کے ان کو مکمل اختیارات حاصل ہیں (چاہے یہ بات ثابت ہی کیوں نہ ہو کہ وہ دولت غیر منصفانہ طریقے سے حاصل کی گئی ہے)۔ اور یہ کہ جن ممالک میں اندھی لوٹ کھسوٹ جاری ہے وہ ریاستیں یا انسانی گروہ اب بھی اپنے اندر بہت سے وسائل سے مالامال ہیں۔
لیکن اس مغربی انتظام معاشرت و نظام تمدن کے ترقی یافتہ، تیز رفتار اور ہولناک اطلاقی تقاضوں کے باعث محدود ہوتے ان کے وسائل اور ان کی روشنی میں ان ریاستوں کو بھی ''کمپنی'' بنائے جانے کی ناگزیریت دن بدن شدت اختیار کرتی نظر آنے لگی ہے۔ ترقی یافتہ انسانوں کے شدت پکڑتے مطالبات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں، جس کے حتمی ولازمی نتائج کے طور پر ریاستوں کے پاس مغربی انتظام معاشرت و نظام تمدن (یعنی یورپ و امریکا میں رائج ریاستی و شہری قوانین) کے کلی نفاذ کے علاوہ عالم انسانیت کو لاحق مشکلات ومسائل کا کوئی اور حل قابل عمل نظر آنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔
کرپشن اور دہشتگردی لیکس: موجودہ ترقی یافتہ مغربی انتظام معاشرت و نظام تمدن کو حاصل کرنے میں ''مغربی انسانوں'' نے لگ بھگ پانچ صدیاں صرف کی ہیں، جس کی بدولت آج ان کی جدیدیت کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے سافٹ ویئر کی مدد سے لندن ایئرپورٹ کے تمام کمپیوٹرائزڈ سسٹم کو ہائی جیک کرلیے جانے جیسا چمتکار بھی اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔
مزیدار بات یہ کہ کمپیوٹر اور بینک انسان کی ناگزیر مجبوری کی شکل اختیار کرچکے ہیں، کیونکہ مغربی انسانوں کی جانب سے برتری وترقی کے حصول میںان دونوں سے نہ صرف اساسی کردار ادا کروایا گیا ہے، بلکہ اب تو موجودہ ترقی کا تمام تر انحصار ہی ان دونوں پر ہے۔ حالانکہ مغرب کی حاصل کردہ (عالمی اداروں سمیت) مصنوعاتی ترقی کی تمام تر بنیاد ''مشرقی خام مال'' پر ہے، اس لیے مغربی انتظام معاشرت و نظام تمدن میں رکاوٹ کھڑی کرنے والوں کے خلاف ''کرپشن'' اور ''دہشتگردی لیکس'' دونوں کاخطرہ موجود رہنے لگا ہے۔