ہجرت کی دلدوز داستانیں

قیام پاکستان کے بعد آبائی زمین چھوڑ کر اپنے دیس آنے والوں کے ساتھ کیا کچھ گزری


سید عاصم محمود August 14, 2016
لاکھوں افراد نے پاکستان آّنے کا خراج اپنوں کے کون سے ادا کیا فوٹو : فائل

میں پٹیالہ شہر میں 1939ء میں پیدا ہوا۔ میرے والد شہر کے بجلی گھر میں ملازم تھے۔ تب مہاراجہ یوراج ریاست پٹیالہ پر حکمران تھا۔ ہم پانچ بھائی بہن تھے۔ اس زمانے میں سیوریج سسٹم عنقا تھے۔ اس لیے ریاست میں یہ قانون موجود تھا کہ ہر گھر میں کوڑا و فضلہ پھینکنے کے لیے بھی ایک کنواں بنایا جائے۔مجھے یاد ہے، تب بزرگوں کا بہت احترام کیا جاتا۔ حتیٰ کہ یہ ریاستی قانون موجود تھا کہ گلیوں، سڑکوں میں بزرگوں کا احترام کیا جائے۔ جو اس قانون کی خلاف ورزی کرتا، اسے بھاری جرمانہ بھرنا پڑتا۔ ازروئے قانون ناواقف بزرگ کو بھی رک کر سلام کرنا ہوتا۔ مزید براں ہر بالغ سر پر ٹوپی یا پگڑی رکھ کر باہر نکلتا۔ تب گلی میں برہنہ سر نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔

ہم ''مغل والی کھوئی'' کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ وہاں سبھی سکھ و ہندو گھرانوں سے ملنا جلنا تھا۔ ہمارے محلے میں مشہور کلاسیکل موسیقار، اختر حسین خان بھی رہائش پذیر تھے۔ ان کے بیٹوں، امانت علی خان اور فتح علی خان نے پاکستان میں بہت شہرت پائی۔ استاد اختر حسین میرے بڑے بھائی کے دوست تھے اور کئی بار ہمارے گھر آئے۔ اس زمانے میں خوب کشتیاں ہوتیں۔ راجے مہاراجے پہلوانوں کی سرپرستی کرتے تھے۔میں پانچ سال کا تھا کہ میرے والد چل بسے۔ تب چچا ڈیرہ دون میں ملازمت کرتے تھے۔

وہ مجھے وہاں لے گئے اور میں پرائمری سکول میں تعلیم پانے لگا۔ 1947ء کے موسم بہار چچا اور میں پٹیالہ واپس پہنچے۔ چچا کی عنقریب شادی ہونے والی تھی۔ انہی دنوں تقسیم ہند کا اعلان ہوگیا۔ تب تک شہر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کشیدگی جنم لے چکی تھی۔ایک دن پولیس آئی اور سبھی مسلمانوں کے گھر سے جو ہتھیار ملا، اٹھا کر لے گئی۔ حتیٰ کہ اس نے باورچی خانے کے چاقو، چھری اور کانٹے بھی نہ چھوڑے۔ غرض ہمارے پاس دفاع کی خاطر کچھ نہ رہا۔ پھر علاقے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلح سکھ حملہ کرنے والے ہیں۔ اس افواہ نے ہمیں خوفزدہ کردیا۔

شام کو ہم سب گھر والے قریبی مسجد کے دھوبی گھاٹ میں چھپ گئے۔ ہم نے رات وہیں گزاری۔ وہ افواہ سچ نکلی اور رات نو بجے مسلح سکھوں نے مغل والی کھوئی پر حملہ کردیا۔ لوگوں کے شوروغل کی آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ ہم خوفزدہ ہوکر دھوبی گھاٹ میں چھپے رہے۔رات بارہ بجے چند لوگ دھوبی گھاٹ بھی آپہنچے۔ انہوں نے نیزے تھام رکھے تھے۔ یہ ہمارے سکھ محلے دار تھے۔ ہم نے اپنا قیمتی سامان انہیں دے کر اپنی جان بخشی کرائی۔ تب ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا مگر وہ ہمارا لحاظ کرگئے۔ پھر ساری رات دھوبی گھاٹ کوئی نہ آیا۔ گرمی شدید تھی، جلد ہی ہمارا پانی ختم ہوگیا۔ سبھی کو پیاس ستانے لگی۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی تو ہم نے مسجد کے نلکوں سے پانی پی کر پیاس بجھائی۔



مسجد سے باہر نکلے، تو دیکھا کہ گلیوں میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ کئی گھر جلے پڑے تھے۔ راستے میں ایسا کنواں دیکھا جو نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کی لاشوں سے پٹا پڑا تھا۔ سکھ لڑکیوں کو اغوا کرکے بے حرمتی کررہے تھے۔ کئی مسلمان لڑکیوں نے عزت بچانے کی خاطر کنوؤں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی تھی۔چونکہ اب گلیوں میں پولیس گشت کررہی تھی، اس لیے ہم اپنے علاقے سے جان بچاکر نکلنے میں کامیاب رہے۔ ہم پھر پندرہ بیس دن تک مختلف علاقوں میں واقف کاروں کے گھروں میں چھپے رہے۔

پھر قلعہ بہادر گڑھ کے مہاجر کیمپ پہنچ گئے۔ یہ مہاجر کیمپ پٹیالہ شہر سے چھ میل دور واقع تھا۔ہم کئی دن سے بھوکے تھے۔ کھانا بس اتنا ملتا تھا کہ جسم و روح کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ چناںچہ ہم اپنے نام رجسٹرڈ کرانے کے لیے قطار میں کھڑے تھے کہ میں کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہوگیا۔ میرے چچا قریبی جنگل گئے اور وہاں سے جنگلی پھل توڑ کر لائے۔ انہیں کھا کر میرے بدن میں کچھ جان آئی۔ایک ہفتے تک ہم جنگلی پھل اور پتے کھا کر ہی پیٹ بھرتے رہے۔ آخر ریاستی حکومت نے ایک وقت کھانے کا بندوبست کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پتوں کی وجہ سے ہماری جانیں بچ گئیں۔ پینے کے پانی کی بھی شدید قلت تھی۔ یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ کنوؤں میں زہر ملا دیا گیا ہے۔ اس لیے اکثر لوگ تالابوں سے گندہ پانی پیتے رہے۔

گندہ پانی پینے کی وجہ سے مہاجر کیمپ میں کئی بیماریاں پھیل گئیں۔ علاج نہ ہونے کے برابر تھا۔ چناںچہ کیمپ دن رات مریضوں کی کراہوں سے گونجنے لگا۔ کئی لوگ سکھوں یا ہندوؤں کے حملوں میں زخمی ہوگئے تھے۔ وہ بھی تکلیف کے مارے کراہتے رہتے۔ سبھی لوگ قریب ہی رفع حاجت کرتے تھے۔ لہٰذا کیمپ بدبو اور تعفن کا مرکز بھی بن گیا۔ آج بھی مجھے کیمپ میں گزارے دن یاد آئیں، تو وہ تھرا اٹھتا ہوں اور دعا مانگتا ہوں کہ خدارا، کسی پاکستانی کو ویسے خوفناک دن نہ دکھانا۔کئی عورتوں کے سروں میں گندگی کی وجہ سے جوئیں پڑگئیں۔ انہوں نے اپنے سارے بال کاٹ ڈالے اور گنجی ہوگئیں۔ جلدہی مریض اور زخمی مرنے لگے۔ ایک دن ہم نے بہت سے لوگوں کو دفن کیا۔ ہم ایک ماہ تک کیمپ میں رہے۔

جب وہاں وبائیں پھیلیں، تو ہم نزدیک ہی کچی آبادی کے ایک خالی گھر میں رہنے لگے۔ آخر چچا کے تعلقات کام آئے اور ایک فوجی ٹرک ہمیں لینے آپہنچا۔ اس نے ہمیں قریبی کسولی ریلوے اسٹیشن پہنچا دیا۔ریلوے اسٹیشن پر ہم اس جگہ رکے جہاں پولیس موجود تھی۔ تب ریلوے اسٹیشن موت کے گھر بن چکے تھے۔ کوئی بھی مسافر مسلح ہوسکتا تھا۔ وہ مخالف فرقے کے کسی شخص کو تنہا پاتا، تو فوراً قتل کردیتا۔ اس لیے ریلوے اسٹیشن پر چلنا پھرنا یا کھڑے ہونا موت کو دعوت دینا تھا۔خوش قسمتی سے ہمیں دہلی جانے والی ریل میں جگہ مل گئی۔ تب ریلیں کھچا کھچ بھری ہوتیں۔ حتیٰ کہ ان کی چھتوں پر بھی تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔ ہر ریل کی حفاظت پر فوجی یا سپاہی مامور ہوتے۔ ہماری ریل پر گورے سپاہی تعینات تھے۔

ان کی وجہ سے ہماری ریل زیادہ اسٹیشنوں پر نہیں رکی اور آخر کار لاہور پہنچ گئی۔ یوں ہماری ہجرت کا سفر اگست سے شروع ہوکر دسمبر1947ء میں تمام ہوا۔لاہور میں ہم وقتاً فوقتاً سکھوں یا ہندوؤں کے خالی گھروں میں مقیم رہے۔ پھر ہمیں لکشمی چوک کی ایک عمارت میں فلیٹ الاٹ ہوگیا۔ میں آج اسی عمارت میں مقیم ہوں۔ لاہور پہنچ کر میں نے الیکٹریشن کا کام سیکھا۔ پھر اپنی دکان کھول لی۔1978ء میں میری شادی ہوئی۔ دو بچے ہیں ۔اب اپنے بیٹے کے ساتھ رہتا اور پوتوں کو کھلاتا ہوں۔آج بھی میرے کانوں میں زخمی اور بیمار مرد عورتوں اور بچوں کی کراہیں و چیخیں گونجتی رہتی ہیں۔ کئی انسانوں نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر میرے سامنے جان دی اور میں کچھ نہ کرسکا۔ وہ خوفناک مناظر میری یادوں میں انمٹ نقوش بن چکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے 1930ء میں ضلع انبالہ کے گاؤں سیملہ میں جنم لیا۔ گاؤں میں میرے والد کی زمینیں تھیں۔ میرے آٹھ بہن بھائی تھے۔ والد ریلوے افسر تھے۔ بچپن گاوں میں گزرا۔ پھر جہاں والد کا تبادلہ ہوتا، وہ ہمارا مسکن بن جاتا۔ چناں چہ میں دہلی، پٹیالہ، فیروز پور وغیرہ میں مقیم رہا۔ ہم جہاں جاتے، ہماری بھینسیں اور بکریاں بھی ساتھ ہوتیں۔میں نے میٹرک کیا، تو ریلوے میں جزوقتی ملازمت کرنے لگا۔ جب تقسیم ہند ہوئی، تو میں اپنے ابا کے ساتھ بہاولنگر ریلوے اسٹیشن پر تعینات تھا۔ وہ اب اسٹیشن ماسٹر بن چکے تھے۔ تاہم ہمارے سبھی گھر والے سیملہ ہی میں مقیم تھے۔ تب بہاول نگر ریاست بہاول پور کا ضلع تھا۔ 14 اگست کو عملہ ریلوے اسٹیشن نے ایک تقریب میں یونین جیک اتارا اور وہاں ہلالی پرچم لہرا دیا۔

اس موقع پر خوش و مسرت کے جو جذبات تھے، انہیں میں تاعمر نہیں بھول سکتا۔لیکن چند دن بعد ریاست میں فساد شروع ہوگیا۔ دراصل جب ہندوستان سے سکھوں و ہندوؤں کے حملوں کا شکار لٹے پٹے مسلمان بہاولپور پہنچے، تو ان کی حالت زار دیکھ کر مسلم نوجوان بھڑک اٹھے۔ وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگے۔ انہوں نے پھر ہندوؤں اور سکھوں پر حملے کیے۔ چناں چہ ریاست میں آباد ہندو اور سکھ اپنی جانیں بچانے کے لیے ہندوستان کی جانب دوڑ اٹھے۔ اب بدلے کی آگ دونوں جانب بھڑک اٹھی جو لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانیں لے کر ہی سرد ہوئی۔

اسٹیشن پر ہندوستان سے آنے والی ریلیں پہنچ رہی تھیں۔ وہ مردہ، زخمی اور ناراض مسلمانوں سے بھری ہوتیں۔ کسی کی ٹانگ کٹی ہوتی تو کسی کا بازو! اسٹیشن پر ان کے علاج کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ جلد ہی ہندو شرناتھی (مہاجر) بھی اسٹیشن پر پہنچنے لگے۔ ان کے لیے علیحدہ جگہ بنادی گئی۔ وہ بہت خوفزدہ اور سہمے ہوئے ہوتے۔ ریاستی حکومت نے ان کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک دستہ تعینات کردیا۔چند دن میں مشہور ہوگیا کہ ہندو و سکھ ریلوے اسٹیشن پر پناہ لے رہے ہیں۔ ایک رات بڑی تعداد میں لوگوں نے ان غیر مسلموں پرحملہ کردیاجو ریلیں آنے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ہم باپ بیٹے ہجوم کو نہ روک سکے اور ہمیں اپنے دفتر میں پناہ لینا پڑی۔ فوج کے دستے نے ہوا میں گولیاں چلائیں مگر وہ غصیلے لوگوں کو منشتر نہیں کرسکا۔ جلد ہی کچھ لوگوں نے انہیں محصور کیا، باقی ہندوؤں اور سکھوں کو مارنے پیٹنے لگے۔



یہ دیکھ کر ہمیں سخت صدمہ پہنچا۔ ابا کی ہدایت پر میں مدد کا تار بھیجنے کمیونیکیشن روم پہنچا۔ دیکھا وہاں پانچ ہندو مردوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ وہ خوف سے لرز رہے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دی۔ وہیں چھپا رہنے کی تلقین کی اور واپس جاکر سارا واقعہ ابا کو سنایا۔ اب ہم ان ہندوؤں کو ہندوستان جانے والی کسی ریل میں سوار کرانا چاہتے تھے۔اس زمانے میں ریلوے کے اہل کار سرخ یا نیلی وردی پہنتے تھے۔

جب مسلح و غصیلا ہجوم رفع دفع ہوگیا، تو ابا نے پانچ نیلی وردیاں لیں اور کمیونیکیشن روم پہنچ گئے۔ وردیاں ان ہندوؤں کو پہنائیں، انہیں کمرے سے باہر نکالا اور ایک خالی ریلوے کوارٹر میں چھپا دیا۔ یوں ان کی حفاظت کا بندوبست ہوگیا۔ اسی رات بہاولنگر شہر میں کرفیو لگ گیا۔ہجوم نے سبھی ہندو شرناتھیوں کو زخمی کردیا تھا۔ چناں چہ اب وہ ہسپتالوں میں زیر علاج تھے۔ بعض زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئے۔ ہم نے ان ہندوؤں کو کوارٹر میں چھپائے رکھا اور انہیں کھانا پانی دیتے رہے۔ چوتھے دن کوئٹہ سے ہندوستان جانے والی ایک ریل پانی لینے بہاولنگر رکی۔ وہ ریل ہندو شرناتھیوں سے بھری پڑی تھی۔ ایک گورے میجر کی قیادت میں انگریز فوجیوں کا دستہ ریل کی حفاظت پر مامور تھا۔

ریلوے اسٹیشن پر زیادہ پانی موجود نہ تھا۔ ابا نے گورے میجر کو صلاح دی کہ دو کلو میٹر پیچھے ایک چشمہ بہتا ہے جس کا پانی صاف ہے۔ لہٰذا ریل پیچھے لے کر چشمے سے جتنا چاہو پانی لے لو۔ میجر کو یہ مشورہ پسند آیا۔ وہ ریل کو دو کلو میٹر پیچھے لے گیا۔ وہاں سبھی مسافر نیچے اترے، چشمے سے پانی پیا اور بہت سا اپنی چھاگلوں وغیرہ میں بھی بھرلیا۔جب ریل واپس اسٹیشن پر پہنچی تو میجر نے اتر کر ابا کا شکریہ ادا کیا۔ تبھی میں نے ابا کو ان پانچ ہندوؤں کے متعلق یاد دلایا۔ ابا نے ترنت میجر سے پوچھا کہ کیا وہ پانچ ہندو شرناتھیوں کو ریل میں سوار کرالے گا؟ میجر نے ہامی بھرلی۔ چناں چہ ہم اپنی حفاظت میں پانچوں شرناتھیوں کو لائے اور انہیں ریل میں سوار کرادیا۔

یوں ہم نے پانچ انسانوں کی جانیں بچالیں۔بعدازاں ہم اہل خانہ کو پاکستان لے آئے۔انٹر کرنے کے بعد میں باقاعدہ طور پر پاک ریلوے سے وابستہ ہوگیا اور چالیس سال تک اپنی ذمے داری ادا کی۔ 1990ء میں نواب شاہ کے اسٹیشن ماسٹر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوا۔1951ء میں شادی ہوئی۔ پانچ بچے تولد ہوئے۔ اب بچوں کے ساتھ لاہور میں مقیم ہوں۔میرا خیال ہے کہ قیام پاکستان ناگزیر تھا۔ مگر انگریز حکومت نے تقسیم ہند کا منصوبہ بہت جلد ہم پر تھونپ دیا۔ دونوں مملکتوں کو وقت دینا چاہیے تھا تاکہ وہ ہر کسی کی حفاظت کا بندوبست کرلیتیں۔ یوں ہجرت کے دوران جو فساد و قتل ہوا، وہ جنم نہ لیتا۔

لیفٹیننٹ کرنل(ر) وجاہت اللہ خان ۔۔۔۔۔
رادھن پور سے کراچی
میں 1925ء میں ضلع گجرات (ہندوستان) کے قصبے، رادھن پور میں تولد ہوا۔ دس سال کا تھا، تو مجھے دہلی کے بورڈنگ سکول بھجوا دیا گیا۔ میں نے وہاں ایک تقریری مقابلہ جیتا اور پنڈت نہرو کے ہاتھوں انعام پایا۔ اگست 1947ء میں، میں اپنی ایک بہن کے ہاں انبالہ میں مقیم تھا۔ جیسے ہی تقسیم ہند کا اعلان ہوا پنجاب میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ انبالہ میں بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین چھڑپیں ہونے لگیں۔

میری بہن کے شوہر دوسرے شہر میں مقیم تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ بہن اور اس کی شیر خوار بیٹی کو بحافظت لاہور لے جاؤں۔ چناں چہ ہم ایک ریل میں بیٹھ گئے۔ وہ مال گاڑی تھی جسے ضرورت پڑنے پر مسافر گاڑی بنادیا گیا۔ ریل کے ڈبے بغیر چھت کے تھے اور ان میں کوئلہ رکھا جاتا تھا۔ اب بھی ڈبوں میں کوئلہ بکھرا پڑا تھا۔ سبھی مسافروں کو کوئلے پر بیٹھنا پڑا۔

شام کو جب ریل روانہ ہوئی اور مضافات میں پہنچی، تو سکھوں کا ایک بڑا ہجوم برچھے، نیزے اور کرپانیں لیے ساتھ ساتھ بھاگنے لگا۔ سبھی مسافر شدید خوفزدہ ہوگئے۔ مردوں نے فیصلہ کیا کہ خدانخواستہ ریل رکی، تو وہ اپنی اپنی عورتوں کو مار ڈالیں گے تاکہ ان کی عزت محفوظ رہے۔ خوش قسمتی سے ریل کی حفاظت پر تعینات گورکھا کمپنی کا کمانڈر ایک انگریز تھا۔ اس کے حکم پر ڈرائیور نے ریل کی رفتار بڑھا دی اور بلوائی پیچھے رہ گئے۔



19 اگست 1947ء کی رات دو بجے ریل قصبہ بیاس کے اسٹیشن پہنچی۔ وہاں ہندو ڈرائیور نے خباثت دکھائی اور انجن لے کر فرار ہوگیا۔ ہمارے سبھی ڈبے پیچھے رہ گئے۔ جب ہمیں یہ خبر ملی تو سبھی پریشان ہوگئے۔ مگر کیا کرتے؟ خاموشی سے ڈبوں میں بیٹھے رہے۔جب صبح ہوئی تو انکشاف ہوا کہ ریل کے دونوں اطراف مسلح سکھ موجود ہیں۔ تاہم انگریز کپتان اور گورکھا کمپنی کی جوابی کارروائی کے خوف سے انہیں حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ وہ بس کھا جانے والی نظروں سے ہمیں گھورتے رہے۔ نو بجے انگریز کپتان نے سکھوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ منتشر نہ ہوئے تو ان پر گولی چلوا دے گا۔ اس پر سکھ جانیں بچانے کے لیے اِدھر اُدھر ہوگئے۔

انگریز کپتان نے پھر عملہ اسٹیشن کو حکم دیا کہ نیا انجن بلوایا جائے۔ ہندو عملہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا اور دو بجے تک انجن کے کہیں آثار دکھائی نہ دیئے۔ آخر انگریز کپتان نے عملے کو بھی دھمکی دی۔ گالیاں کھانے کے بعد ہندو عملہ حرکت میں آیا اور سہ پہر کو امرتسر سے نیا انجن آن پہنچا۔ اب ریل واہگہ بارڈر کی جانب روانہ ہوئی۔پاکستان کی سرحد پر لاہوریوں کی بڑی تعداد نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ وہ ہمارے لیے بریانی پکاکر لائے تھے۔ مہاجرین پر خوف و دہشت کے جو سائے لہرا رہے تھے، وہ چشم زدن میں اڑن چھو ہوگئے۔

ہم نے پاک وطن پہنچنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اہل لاہور کی مہمان نوازی اور زندہ دلی نے ہمارے دل جیت لیے۔میں زندگی میں پہلی بار لاہور آیا تھا اور یہاں میرا کوئی واقف کار نہ تھا۔ تاہم میں لاہور سے نکلنے والا ایک اخبار ''کوثر'' باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ میں اخبار کا پتا پوچھتا پوچھاتا گوالمنڈی پہنچ گیا جہاں دفتر واقع تھا۔ اخبار کے مدیر نے مشورہ دیا کہ میں جماعت اسلامی کے مہاجر کیمپ میں قیام کروں۔ چناں چہ میں بتائی گئی جگہ پر پہنچا۔ جماعت اسلامی نے مہاجرین کے قیام و طعام کا عمدگی سے بندوبست کررکھا تھا۔ میں والٹن کیمپ سے اپنی بہن کو بھی وہاں لے گیا۔

اسی مہاجر کیمپ میں میری ملاقات مولانا ابوالاعلی مودودی سے ہوئی۔میں اگست 1948ء میں کراچی چلا گیا۔ وہاں میرے والدین اور دیگر اقربا پہنچ چکے تھے جبکہ بہن کو شوہر لے جاچکا تھا۔ کراچی میں خبر ملی کہ پاک فوج میں بھرتیاں ہورہی ہیں۔ میں نے درخواست دی، انٹرویو دینے گیا اور سبھی امتحانات میں کامیاب بھی ہوگیا۔ مگر میٹرک کی سند نہ ہونے کے باعث میرا انتخاب نہ ہوسکا۔ اگست 1949ء میں پھر میں نے درخواست دی۔ اس باربھی میٹرک کی سند نہ ہونے سے معاملہ لٹک گیا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس کی نقل بروقت آپہنچی۔ یوں میں پاک فوج کا حصہ بن گیا۔

اب زندگی لگے بندھے راستے پر چل نکلی۔ نئے وطن میں ہمیں سہولتیں ملیں اور آسائشیں بھی! تاہم غم و اندوہ کے لمحات بھی دامن گیر ہوتے رہے۔ میں نے 1952ء میں شادی کرلی۔ میرے ہاں تین بیٹے تولد ہوئے۔ 1957ء میں میری بیوی تینوں بیٹوں کے ساتھ میری بہن سے ملنے ڈیرہ غازی خان گئی ۔جب بس دریائے سندھ کا پل پار کررہی تھی تو اس کا ٹائی راڈ ٹوٹ گیا۔ بس نیچے جاگری۔ میری بیوی دو بیٹوں سمیت جاں بحق ہوگئی۔ میرا ڈھائی سالہ چھوٹا بچہ معجزانہ طور پر بچ گیا۔جب یہ خبر مجھے ملی تو میری دنیا اندھیر ہوگئی۔ میں کئی دن تک حواس باختہ رہا۔ آخر اپنے ڈھائی سالہ بیٹے کی خاطر میں نے دوسری شادی کرلی۔ بیوی نیک سیرت ملی جس نے سوتیلے بیٹے اور اپنے بچوں کو بھی دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا۔ میں 1975ء میں فوج سے ریٹائرڈ ہوگیا اور اب بچوں کے پاس مقیم ہوں۔

محمد وکیل خان ۔۔۔۔۔
کاکرا سے مانا والہ
1935ء میں ریاست پٹیالہ کے گاؤں، کاکرا میں میری پیدائش ہوئی۔ میرے والد کسان جبکہ چچا گاؤں کے نمبردار تھے۔ ہمارا شمار علاقے کے کھاتے پیتے خاندانوں میں ہوتا تھا۔ جب تقسیم ہند کا اعلان ہوا، تو سکھ بلوائی ہمارے گاؤں پر حملے کے لیے پر تولنے لگے۔ ہمارے پاس بھی اسلحہ موجود تھا۔ اس لیے آنے والے دنوں میں ہماری سکھ حملہ آوروں سے کئی لڑائیاں ہوئیں۔

جب گاؤں کے مسلمانوں نے دیکھا کہ بلوائیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو انہوں نے مالیر کوٹلہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ہم سب بے سروسامانی کے عالم میں گاؤں سے روانہ ہوئے۔ ہمارا بہت سارا سامان وہیں رہ گیا۔ خیال تھا کہ حالات معمول پر آتے ہی واپس آجائیں گے مگر یہ خیال کبھی عملی جامہ نہ پہن سکا۔

راستے میں مسلح سکھوں کے ایک جتھے نے ہم پر حملہ کردیا۔ جب میں نے اپنے پیارے رشتے داروں کو گولیاں کھاکر مرتے دیکھا، تو دہشت زدہ ہوگیا۔ میں پھر ایک جانب بھاگ نکلا۔ افراتفری میں امی ابا بھی نجانے کھوگئے تھے۔ میری پگڑی میں بہت سا زیور بندھا ہوا تھا۔ میں درختوں کے ایک جھنڈ میں جاکر چھپ گیا۔ وہاں میری عمر کے پندرہ سولہ لڑکوں نے بھی پناہ لے رکھی تھی۔



بلوائی دیر تک لوٹ مار اور قتل و غارت میں مصروف رہے۔ رات ہوئی تو وہ شور ہنگامہ ختم ہوا۔ ہم سب لڑکے صبح تک جھنڈ میں چھپے رہے۔ جب اجالا ہوا تو باہر نکلے۔ ہمیں سخت بھوک لگی تھی۔ ہم کھانے پینے کی اشیا ڈھونڈ رہے تھے کہ سکھ بلوائی پھر آپہنچے۔ انہوں نے ہم پر حملہ کردیا۔ کچھ لڑکے مارے گئے، میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

میں نے پھر نزدیکی گاؤں، ہنڈکیاں بھٹیاں کا رخ کیا۔ وہاں میرے والد کا ایک سکھ دوست، جرنیل سنگھ رہتا تھا۔ اس نے مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ اسی سے اطلاع ملی کہ بلوائیوں نے گاؤں میں ہمارے گھر جلا ڈالے ہیں۔ میں جرنیل سنگھ کے پاس ایک ماہ مقیم رہا۔ وہ بااثر شخصیت تھا، اسی لیے کسی بلوائی کو مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

ایک دن جرنیل سنگھ مجھے لیے مالیرکوٹلہ کی سمت روانہ ہوا۔ راستے میں پولیس نے ہمیں روک لیا۔ میرے پاس شناختی کاغذات نہیں تھے، اسی لیے مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم جرنیل سنگھ نے پولیس افسر کو یقین دلایا کہ مالیر کوٹلہ میں لڑکے کا کوئی رشتہ دار نہ ملا تو وہ اسے اس کے حوالے کردے گا۔ خوش قسمتی سے مجھے مالیر کوٹلہ کے مہاجر کیمپ میں ماموں مل گئے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے اہل خانہ میں سے صرف بہن ہی زندہ بچی ہے۔ میرے والدین اور بقیہ بہن بھائی شہید ہوچکے ۔ یہ سن کر مجھ پر بجلی گرپڑی اور میں نیم بے ہوش ہوگیا۔ میں کئی دن اپنے ہوش و حواس میں نہ رہا۔ پھر دوسروں کے دکھ درد دیکھ کر اپنی تکلیف کم ہوتی چلی گئی۔

ایک دن میں، بہن اور ماموؤں کے ساتھ قافلے میں پاکستان کی سمت چل پڑا۔ ہم خیروعافیت سے نئے وطن پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ماموؤں کو ماناوالہ (ضلع ننکانہ صاحب) میں زمین الاٹ ہوگئی۔ چناں چہ ہم اس علاقے میں جابسے اور زندگی نئے رنگ ڈھنگ سے گزارنے لگے۔

اقبال بی بی ۔۔۔۔۔
جدالہ سے دنیا پور، ملتان
میں 1932ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئی۔ گو میرے ابا کا تعلق ضلع ہوشیار پورکے گاؤں، جدالہ سے تھا۔ وہ بسلسلہ ٹھیکے داری کوئٹہ مقیم تھے۔ جب 1935ء میں زلزلہ آیا، تو ہم واپس گاؤں چلے گئے۔ میری دو بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ میرا بچپن سہیلیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے خوش باش گزرا۔ علاقے میں لڑکیوں کا کوئی سکول نہ تھا لہٰذا میں ناخواندہ رہی۔1945ء میں میری ایک رشتے دار سے شادی ہوگئی۔ تب میری عمر صرف تیرہ سال تھی۔ وہ تئیس سال کا تھا۔ تاہم میں والدین کے ساتھ ہی رہی۔ جب اٹھارہ برس کی ہوئی تو مجھے شوہر کے پاس بھیجا گیا جو بھوت گڑھ نامی قریبی گاؤں میں رہتا تھا۔

جب تقسیم ہند کا اعلان ہوا تو میں والدین کے گھر ٹھہری ہوئی تھی۔ چند دن بعد مضافاتی دیہات میں مقیم مسلمان خاندان ہمارے گاؤں آنے لگے۔ انہوں نے خبر دی کہ مسلح سکھ و ہندو مسلمانوں پر حملے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔اس خبر نے سبھی کو پریشان کردیا۔ طے پایا کہ مہندی پور کوچ کیا جائے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے۔ یہ قصبہ دس میل دور تھا۔ سہ پہر کو سبھی مسلمان مہندی پور کی جانب چل پڑے۔ راستے میں خبر ملی کہ اندھیرا چھاتے ہی مضافات کے دیہات سے مسلح سکھوں نے جدالہ پر حملہ کردیا۔ہم نے ایک ہفتہ مہندی پور میں قیام کیا۔

اس دوران چاروں طرف سے قتل و غارت گری کی خبریں آنے لگیں۔ تبھی بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان ہجرت کی جائے۔ چناں چہ مسلمان ایک قافلے کی صورت چل پڑے۔ ہم نے دریائے بیاس کے کنارے کنارے سفر کیا۔ کئی بار ہم نے دریا میں بہتی لاشیں دیکھیں۔ راہ میں ایک مہاجر کیمپ میں بھی ٹھہرے تاکہ سکون کا سانس لے سکیں۔اسی مہاجر کیمپ میں ایک دن ایک آدمی درخت پر چڑھ گیا۔ وہ سبھی سے دریا کا راستہ پوچھ رہا تھا تاکہ ڈوب کر خودکشی کرسکے۔ اس کے چھ بیٹے اورچھ بیٹیاں تھیں۔



بلوائیوں نے اس کی آنکھوں کے سامنے چھ بیٹے بے دردی سے مار ڈالے جبکہ بیٹیاں اٹھا کر لے گئے۔ شدت غم سے اب وہ پاگل ہوگیا تھا۔ اسے بہ مشکل درخت سے اتارا گیا۔دوران سفر ہم نے کئی ویران گاؤں دیکھے۔ کبھی وہاں بچوں کی کلکاریاں گونجتی تھیں۔ خوب چہل پہل نظر آتی، مگر اب وہ اجاڑ پڑے تھے۔ بعض جگہ خواتین کی ایسی لاشیں دیکھیں جن کے سینے کٹے ہوئے اور پیٹ چاک تھے۔

ان مناظر نے مجھے شدید خوفزدہ کردیا اور میں اپنی عزت و جان کی سلامتی کے لیے ہر آن دعائیں مانگتی رہتی۔ میں نے اپنے چہرے اور جسم پر کیچڑ مل لیا تاکہ میری خوبصورتی چھپ جائے اور میں بدنما نظر آؤں۔ تب ہندو اور سکھ بلوائی مسلمان حسین لڑکیوں اور عورتوں کو خاص طور پر اغوا کررہے تھے۔ خدا کے کرم سے آخر کار ہمارا خاندان بٹالہ پہنچ گیا۔ وہاں ایک فوجی ٹرک نے ہمیں سوار کرایا اور لاہور کی سمت چل پڑا۔ راستے میں بلوائیوں نے سڑک پر فائرنگ کی مگر بفضل خدا سبھی محفوظ رہے۔

پاکستان پہنچ کر ہماری زندگیوں کے نئے باب کا آغاز ہوا اور ہم پیٹ پالنے کی خاطر تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ میرے ہاں چار بیٹے اور تین بیٹیاں تولد ہوئیں۔ سبھی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ میں باری باری ہر بچے کے ہاں قیام کرتی ہوں۔ میں پاکستانی نئی نسل سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ پاک وطن بہت قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ اس کی حفاظت کریں اور اپنی صلاحیتوں سے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی معراج پر پہنچادیں۔

رحمت بی بی ۔۔۔۔۔
کالرو سے بھلوال
میں ریاست کپورتھلہ کے ایک گاؤں کالرو سے تعلق رکھتی ہوں۔ 1935ء میں پیدا ہوئی۔ میرے والد کسان تھے اور مویشی پالتے۔ مجھے یاد ہے، ہمارے گھر کے دو دروازے تھے۔ ایک دروازہ ہمارے زیر استعمال تھا، دوسرے سے مویشی آتے جاتے۔ جب تقسیم ہند کا اعلان ہوا تو میری عمر بارہ سال تھی۔



ایک دن جب میرے امی ابا اور بھائی کپورتھلہ کسی کام سے گئے ہوئے تھے، سکھ بلوائیوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کردیا۔ تب شدید بارش ہورہی تھی۔ مجھ سمیت گاؤں کے سبھی مسلمان بارش میں نکلے اور لاہور کی سمت چل پڑے۔ بہت سوں کو سکھوں نے شہید کردیا۔ یہ قافلہ بلوائیوں سے بچتا بچاتا امرتسر پہنچ گیا۔وہاں مجھے بھائی بھی مل گئے۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے کپورتھلہ میں امی ابا کو شہید کردیا۔ یہ سنتے ہی میں چیخیں مار مار کر رونے لگی۔

میں پھر بھائیوں کے ساتھ پاکستان چلی آئی۔ مجھے پتا چلا کہ میری ایک بھابھی نے غنڈوں سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگادی تھی۔ تاہم کچھ رحم دل دیہاتیوں نے اسے ڈوبنے سے بچالیا۔ ہمیں ضلع بھلوال میں زمین الاٹ ہوگئی۔ بعدازاں ایک مہاجر سے میری شادی ہوئی اور زندگی خوش و خرم گزرنے لگی۔ میرے شوہر وفات پاچکے، اب میں بیٹی کے ساتھ رہتی ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں