زندگی یوں بھی گزرتی ہے
میں انسانی تنہائی کا یہ ذکر ایک شناسا کی حالت دیکھ کر کر رہا ہوں
اندازہ ہوا کہ خود کسی بیماری میں گرفتار ہونا اس قدر پریشان کن نہیں جس قدر کسی ایسے شخص کی بیماری جس کی ذمے داری آپ پر ہو اور جس کے علاج میں کوتاہی سے آپ پر ایک نہیں کئی حرف آتے ہوں لیکن پھر بھی حالات کچھ بھی ہوں ہر بیماری میں کسی بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑ ہی جاتا ہے اور آپ اس کا مقابلہ اور سامنا کیے بغیر بھاگ نہیں سکتے۔
میں ان دنوں اپنے خیال میں بھلا چنگا ہوں کسی بیماری کے بغیر۔ صرف ان بیماریوں کو یاد نہیں کرتا یا ان کی پروا نہیں کرتا جو مدتوں سے میری جان کو لاحق اور لاگو ہیں اور میرے اندر گھر بنائے ہوئے ہیں لیکن یہ سب میری ذات کی حد تک ہے اس سے باہر بھی بیماری سے بعض اوقات ایسی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں جو ضروری نہیں کہ آپ کی جان کی ہی ہوں آپ کے عزیزوں کی بھی ہو سکتی ہیں۔ آپ کے قریب ترین لوگوں کی بھی ہو سکتی ہیں اور آپ کے اس قدر قریب بھی کہ آپ ان کے پریشان کن حالات سے بچ نہ سکیں۔
انسانی سوسائٹی ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتی ہے کسی انسان کا اکیلی زندگی بسر کرنے کا کوئی تصور نہیں جن کے پاس ان کے غمگسار اور عملاً ہمدرد نہیں ہیں وہ تنہائی کے ایک مسلسل عذاب میں مبتلا ہیں شاعر نے اس تنہائی کو زہر کہا ہے ع تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ میں جب کبھی کسی دوست کو ایسی تنہائی کے زہر میں پگھلتا ہوا دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس بھری دنیا میں وہ آخری عمر میں کسی کو اکیلا نہ کرے اسے ہمیشہ دوسرے انسانوں میں گھرا ہوا رکھے۔ پنجابی میں ایک محاورہ ہے کہ ''انسان انسان کا دارو ہے' یعنی وہ اس کے دکھوں کا علاج اور ان کی دوا ہے۔
میں انسانی تنہائی کا یہ ذکر ایک شناسا کی حالت دیکھ کر کر رہا ہوں۔ وہ بیمار ہے اگرچہ نسبتاً خوشحال ہے لیکن اس کی یہ خوشحالی کوئی دوسرا انسان بن کر اس کے پاس نہیں رہ سکتی وہ بھری ہوئی جیب کے باوجود غریب ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنی دولت سے اپنی تنہائی کیسے ختم کرے۔ انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے تنہائی نہیں۔ اکیلا پن ایک بہت بڑا مرض ہے جس کا علاج صرف اس مرض کو دور اور ختم کرنا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کو ختم کرنے کے کیا کیا طریقے ہیں۔
مدت ہوئی میں وادی سون کے ایک ڈاک بنگلے میں اس وقت کے ایک نواب کے پاس بیٹھا تھا جس کو اس کے بڑے خاندان زمینوں اور اونچے گھروں کی رشتہ داریوں اور تعلقات دیکھ کر ڈپٹی کمشنر نے ان کے لیے 'نواب' کے خطاب کی سفارش کی جن کے بعد وہ برطانوی سرکار کے نواب بھی بن گئے۔ اپنی تمام تر خاندانی وجاہت کے ساتھ وہ نواب بھی بن گئے لیکن دنیا کی اس سب شان و شوکت کے باوجود وہ ایک تنہا شخص تھے اور بدقسمتی سے حقہ بھی نہیں پیتے تھے کہ کوئی اسی بہانے ان کے پاس موجود رہتا اور ان کی تنہائی میں غمخواری کرتا۔
بدقسمتی کی کیا انتہا ہے کہ اتنے بڑے نام ''نواب ملک اللہ بخش ٹوانہ' کے باوجود ان کے ساتھی اور تنہائی میں بات چیت کرنے والے وہ چند ملازمین تھے جن کو نواب صاحب پسند کرتے تھے۔ ان دنوں جہاں وہ مکین تھے وہاں کے کاشتکار لوگ اور عام حیثیت رکھنے والے ان سے ڈر کر دور رہتے۔ عام لوگ تو اس راستے سے بھی گزرنا چھوڑ دیتے جہاں نواب صاحب ڈیرہ ڈالے ہوا کرتے تھے۔ میں وادی سون کے ایک روائتی رئیس کے ہاں مقیم تھا۔ وہ جس دن نواب صاحب سے ملنے کی تیاری کر رہے تھے وہ دن ایک اہم دن تھا۔
گاؤں میں کلف لگے سفید کپڑے استری شدہ حالت میں تیار ملنے کسی کی امارت کی نشانی تھی کہ اس کے گھر میں کچھ ملازمین ایسے بھی ہیں جو گھر کے کسی رئیس کو کسی بڑی ملاقات کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔ بہرکیف بن سنور کر سفید چمکدار کپڑے زیب تن کر کے گھوڑے پر بیٹھ گئے۔ سائیسں ان کے ساتھ دوڑ رہا تھا وہ اس خاص حالت میں ڈاک بنگلے کے برآمدے میں سواری سے اترے اور نواب صاحب کو اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی جواب ملا بلایا تو نہیں تھا مگر اب اندر بٹھا دو۔
وہ آرام کے ساتھ برآمدے میں آگئے جہاں اس مہمان کو بلا لیا گیا۔ مقصد ایک گزرے زمانے میں جب انگریز اور ان کے خواص کی حکومت تھی ہم دیسی پاکستانیوں کی کیا حالت تھی اس کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی ہے بلکہ پاکستانی بھی کیا ہندوستانی کیونکہ اس وقت تک پاکستان نہیں تھا اور ہم سب ہندوستانی محکوم تھے اور سرکار انگریز کی عملداری میں وقت کاٹ رہے تھے۔ یہ وقت اسی انداز میں کٹتا گیا تاآنکہ قدرت نے ہماری قسمت کو بدل دیا اور ہم جوں توں کر کے آزاد ہو گئے۔ آزاد خود مختار پاکستان۔
آج ہمیں اس پاکستان میں وہ سب کچھ میسر ہے جو برطانوی دور میں میسر ہوا کرتا تھا۔ ہم آزاد ہیں اور اب یہ سب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی اس آزادی کی قدر اور عزت کرتے ہیں یا نہیں اور اپنے آپ کو برطانوی غلامی سے ذہنی طور پر نکال لیتے ہیں ورنہ برطانوی رعب و دبدبہ اب تک موجود ہے کاش ہم اپنی آزادی کو قبول کریں اور اسے عزت دیں۔