شاد باد منزل مراد

میری اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ بالکل ٹھیک اور مثالی ہے


Amjad Islam Amjad August 14, 2016
[email protected]

سب سے پہلے تو ہم سب کو وطن عزیز کی انہترویں سالگرہ کی بہت بہت مبارک اور ان تمام مہربانوں سے ایک سوال کہ جو اٹھتے بیٹھتے آزادی کو تقسیم اور تقسیم کو انگریز کی چال اور سازش قرار دے کر سرحد کی لکیر کو غلط ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ مختلف حوالوں سے یہ پروپیگنڈہ بھی کرتے رہتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو برصغیر کے مسلمانوں کے حالات اب سے بہت بہتر ہوتے اور ان کے گھروں میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتیں اور پھر وہ اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پاکستان کی تاریخ اور اس کو درپیش گزشتہ موجودہ اور آیندہ کے متوقع مسائل کی ایک لمبی چوڑی فہرست پیش کرتے ہیں جو اپنی واقعیت کے اعتبار سے کم و بیش درست بھی ہوتی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ان کے باوجود پاکستان کے عام آدمی کی ترقی کی شرح اور صورت حال بھارت کے عام مسلمان شہری سے کم ہے یا زیادہ؟

میری اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ بالکل ٹھیک اور مثالی ہے میں شاید اپنے معاشرے کی ان سے بھی زیادہ خامیاں اور خرابیاں گنوا سکتا ہوں۔ اس بحث کو بھی فی الوقت ایک طرف رکھتے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے اور اس کے جواب میں ہم نے اسے کیا دیا ہے؟ میری ان اعتراض کنندگان سے صرف اتنی درخواست ہے کہ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ اعلان کریں کہ کیا ہر طرح کی خرابیوں کے باوجود ان کے حالات اپنے آباؤ اجداد اور بالخصوص قیام پاکستان کے وقت زندہ نسل سے بہتر ہیں یا نہیں؟

کل شام ہی برادرم مجیب الرحمن شامی ایک ٹی وی پروگرام میں 1947ء سے پہلے پاکستان میں شامل علاقوں کے تمام لوگوں کے طرز حیات، معاشرت، معیشت، ترقی کے وسائل، مواقع اور دستیاب سہولتوں کا موازنہ آج کے عام آدمی کی زندگی سے کر رہے تھے جس سے پتہ چلتا تھا کہ آج کا امیر اور غریب دونوں ہی کے حالات اپنی پچھلی نسلوں سے بہتر ہوئے ہیں اور اگر موازنہ بھارت کے عام مسلمان کے حوالے سے کیا جائے تو یہ فرق اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

اب اندازہ کیجیے کہ اگر ہم نے اس ملک کو ٹھیک طرح سے چلایا اور اس کے اداروں کو آگے بڑھایا ہوتا تو یہ فرق کس حد تک زیادہ ہو سکتا تھا۔ اس ساری گفتگو کا لب لباب میرا وہی پرانا استدلال ہے کہ اس مسئلے کو اس طرح سے دیکھیے کہ ہم نے پاکستان تو بالکل ٹھیک بنایا مگر ہم اسے اس مطلوبہ ذہانت، مہارت، دیانت، کمنٹ منٹ اور سوجھ بوجھ سے چلا نہیں سکے جو ہمارا فرض اور اس کا حق تھا۔

چنانچہ تنقید کا اصل ہدف پاکستان کا تصور اور اس کا قیام نہیں بلکہ ہمارے حاکم طبقوں کی نالائقی، کم کوشی، عاقبت نااندیشی، خود غرضی اور اقربا پروری ہے جس نے اسے مسائلستان بنا دیا ہے۔ یعنی کرنے والا کام ان منفی رویوں کی درستی ہے نہ کہ قیام پاکستان کی ضرورت اور اس کے لیے کی گئی جدوجہد پر عدم اعتماد اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے کئی اہم مسائل کی جڑیں ہماری جیوپولیٹکل صورت حال، مذہبی تشخص، بین الاقوامی سیاست، معدنی اور قدرتی وسائل اور بھارت کی سیاسی قیادتوں کی اس پاکستان دشمنی میں بھی تھیں اور ہیں جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے یعنی ان کی وجہ سے ہماری اپنی غلطیاں اور غلط کاریاں مزید پیچیدہ اور سنگین ہو گئی ہیں۔

تعلیم، صحت، انصاف، روزگار، سوشل سیکیورٹی، دہشتگردی، حکمران طبقوں کی لوٹ مار، کرپشن، رشوت ستانی، اقربا پروری، سیاسی تنہائی اور معیشت کی زبوں حالی سمیت بے شمار مسائل نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور بظاہر ہماری کوئی سیاسی جماعت ان سے بحسن و خوبی عہدہ برا ہونے کی صلاحیت کی حامل بھی نظر نہیں آتی۔ بجلی، پانی، گیس، علاقائیت، عدم برداشت اور ایک مخصوص نوع کی ملائیت کے فروغ نے ہمیں قافلے کے بجائے ایک ہجوم اور بھیڑ میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود انفرادی سطح پر ہمارے لوگوں نے ہر میدان میں شاندار کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔

کوئی باقاعدہ اور مربوط انفراسٹرکچر نہ ہونے اور کم نظر سیاسی قیادتوں کی نااہلیوں کے باوجود ہم نے ان 69 برسوں میں کئی شعبوں میں ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ایٹم بم بھی بنایا اور نوبل انعام کے حق دار بھی پیدا کیے۔ کھیلوں کے شعبے میں بھی تسلسل سے نہ سہی مگر کئی بار چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی پایا۔ عبدالستار ایدھی، حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے انسانیت کے خادم بھی دنیا کو دیے اور نصرت فتح علی، نور جہاں اور مہدی حسن جیسے فنکار بھی۔

صاحبان سیف اور اہل قلم دونوں کی صفیں بھی درخشندہ ناموں سے بھری پڑی ہیں۔ سیلابوں اور زلزلوں کا وہ ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ دنیا کے لیے ایک مثال بن گئے۔ اسلامی دنیا میں اتحاد کا ڈول بھی ڈالا اور کئی شعبوں میں اس کی رہنمائی بھی کی اور یہ سب کچھ ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے کیا جن میں سے ہر ایک جان لیوا اور تباہ کن ہے۔

آج کل سوشل میڈیا اور فیس بک وغیرہ پر ملک دشمن مواد اور مایوسی پھیلانے والی خبروں کو بہت ہوا دی جا رہی ہے اور نہ صرف بہت سی باتوں کو توڑ مروڑ کر بیان کیا جاتا ہے بلکہ ایسی ایسی بے معنی افواہ، بے بنیاد اور انتشار پیدا کرنے والی باتوں کو بار بار سامنے لایا جاتا ہے جو اگرچہ اپنی اصل میں بے بنیاد اور لایعنی ہوتی ہیں مگر تکرار اور خود ساختہ اور غیر مصدقہ شواہد کی ماہرانہ رنگ آمیزی سے حقیقت محسوس ہونے لگتی ہیں۔

مثال کے طور پر یہ بات کہ پاکستان کا پہلا باقاعدہ اور سرکاری قومی ترانہ قائداعظم کی فرمائش پر جگن ناتھ آزادؔ نے لکھا تھا جو حفیظ جالندھری مرحوم کے تحریر کردہ قومی ترانے سے پہلے ڈیڑھ برس تک ہمارے قومی ترانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے جب کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ نہ کبھی قائد کی جگن ناتھ آزادؔ سے ملاقات ہوئی نہ جگن ناتھ نے کبھی اس کا دعویٰ کیا اور نہ ہی ان کے لکھے ہوئے ترانے کو کبھی کسی سرکاری تقریب میں استعمال کیا گیا۔ یہ اسی طرح کا ایک عام ترانہ تھا جو بھارتی شاعر مجازؔ سمیت اس دور کے بے شمار پاکستانی شاعروں نے بھی لکھے تھے۔

قصہ مختصر یہ کہ ہمیں آزادی رائے اور نام نہاد تحقیق کی آڑ میں پھیلائی جانے والی ہر اس بات کا محاسبہ کرنا چاہیے جو تاریخ کو مسخ اور لوگوں کو مایوس، گمراہ اور کنفیوژ کرتی ہو اور دل و جان سے مل جل کر ان تمام خرابیوں کو دور کرنا چاہیے جو مختلف النوع وجوہات کی بنا پر ہماری زندگیوں اور معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔

ایک علیحدہ وطن پاکستان کے قیام کا فیصلہ کل بھی درست تھا اور آج بھی بالکل صحیح ہے رہی اس کی تعمیر و تشکیل، حفاظت اور ترقی کی ضمن میں کی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کی بات تو انشاء اللہ ہم مل جل کر ان کا بھی حل اور سدباب نکال لیں گے۔ ضرورت ہر ایسے بیان کے جواب میں بلند آواز سے No کہنے کی ہے جو کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہو۔ واضح رہے کہ میرا اشارہ ان درد دل رکھنے والے حساس لوگوں کی طرف قتعاً نہیں جو کسی شدید دکھ یا جذباتی دباؤ کی کیفیت میں اس طرح کی کوئی بات کہہ یا کر جاتے ہیں۔

ہر ایک راہ ستارہ فشاں ہے میرے لیے
مرے وطن کی زمیں آسماں ہے میرے لیے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں