ریو اولمپکس میں میڈلز کی برسات پاکستانی دستہ حسب ِ توقع پیاسا رہ گیا

تمام قومی کھلاڑیوں کا اولمپکس کے آٹھویں روز ہی سفر تمام ہو گیا


Mian Asghar Saleemi August 14, 2016
ملکی تاریخ میں پہلی بار سب سے کم 7 اتھلیٹس وائلڈ کارڈ پر میگا ایونٹ کاحصہ بننے میں کامیاب ہوئے فوٹو: فائل

وہ پیدا تو فرعون کے دیس میں ہوئی لیکن اس نے فرعونیت اور چنگیزیت کی بجائے دوسروں کے لئے مشعل راہ بننے کا انتخاب کیا، اکثر خواب میں دیکھتی کہ وہ ایسا کارنامہ سرانجام دیتی ہے جس پر اس کے عزیزواقارب ہی نہیں بلکہ پورا ملک رشک کرتا ہے،اس نے اپنی خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کا فیصلہ کیا اور پھر ہدف کو حاصل کرنے کے لئے جت گئی، پھر اس نے وہ کچھ کر دکھایا جس کے بارے میں اس جیسی لڑکیاں بس خواب ہی دیکھ سکتی ہیں۔

وہ مصر کی سارہ احمد ہیں جنہوں نے برازیل میں جاری ریو اولمپکس میں میں تمغہ جیت کر نہ صرف نئی تاریخ رقم کی ہے بلکہ اولمپکس میں میڈل جیتنے والی پہلی عرب خاتون کا بننے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا ہے، کھیلوں کا حجاب پہنی ہوئی مصری ویٹ لفٹر سارہ احمد نے 69 کلو گرام کیٹیگری میں 255 کلوگرام وزن اٹھا کر کانسی کا تمغہ جیتا، میڈل جیتنے کے بعد سارہ کا کہنا تھا کہ وہ مصری خواتین ایتھلیٹس کیلئے مشعل راہ بننا چاہتی تھیں، اللہ کا شکر ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہیں،11سال کی عمر میں ویٹ لفٹنگ بحیثیت شعبہ اپنانے والی سارہ نے امید ظاہر کی ان کی اس کامیابی سے مصر میں خواتین کی کھیلوں میں شرکت کی راہ ہموار ہو گی۔

ریو اولمپکس میں مصر کی سارہ احمد ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے اتھلیٹس اپنے سنہری کارناموں سے کھیلوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں، اب تک 62 ممالک ایسے ہیں جو میڈلز کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں، ان میں بعض ایسے ملک بھی ہیں جن کے پاس نہ تو بہت زیادہ مالی وسائل ہیں اور نہ ہی ان کی آبادی کروڑوں میں ہے۔

سنگاپور کی آبادی ہی دیکھ لیں، صرف 55 لاکھ کی آبادی والا یہ ملک بھی اولمپکس کی تاریخ کا پہلا طلائی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہو چکا ہے، اس ملک کے جوزف سکولنگ نے دنیا کے سب سے زیادہ طلائی تمغہ حاصل کرنے والے امریکی تیراک مائیکل فلپس کو 100 میٹر بٹر فلائی میں شکست دے کر یہ کارنامہ انجام دیا، 21 سالہ سکولنگ نے اس دوران نیا اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا، 90 لاکھ 93 ہزار کی آبادی والے ملک فجی نے بھی ریو اولمپکس کے رگبی کے مقابلوں میں انگلینڈ کو شکست دے کر اولمپک کی تاریخ میں پہلا گولڈ میڈل اپنے نام کیا ہے۔

فائنل میں فجی نے برطانیہ کو یکطرفہ مقابلے کے بعد سات کے مقابلے میں 43 پوائنٹس سے چاروں شانے چت کر کے سونے کا تمغہ اپنے نام کیا جبکہ میڈل کیلئے فیورٹ تصور کی جانے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم پانچویں نمبر پر رہی۔غربت، بھوک اور افلاس کے مارے ملک ایتھوپیا کی الماز آیانا نے 1993 میں چین کی وانگ جنشیا کے قائم کردہ عالمی ریکارڈ کو توڑ کر 10,000 میٹر دوڑ میں طلائی تمغہ جیتنے میں سرخرو رہی ہیں، انھوں نے یہ فاصلہ 29 منٹ اور 47.45 سیکنڈز میں طے کیا اور 14 سیکنڈ کے فرق سے نیا عالمی اور اولمپک ریکارڈ قائم کیا، ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں ایران کے ویٹ لفٹر نے اپنا ہی عالمی ریکارڈ توڑتے ہوئے طلائی تمغہ حاصل کیا جو کہ ریو اولمپکس میں ایران کا پہلا تمغہ تھا۔

ایرانی ویٹ لفٹر کیانوش رستمی نے مجموعی طور پر 396 کلوگرام وزن اٹھا کر نیا عالمی اور اولمپک ریکارڈ قائم کیا، اسی طرح برازیل کے لیے طلائی تمغہ خواتین کے جوڈو کے 57 کلوگرام زمرے میں رفیلا سلوا نے جیتا۔ ان کے اس کارنامے کو غیرمعمولی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ان کی پرورش ریو کے انتہائی پسماندہ علاقے میں ہوئی ہے۔ روس کی یانا ایگورین نے خواتین کے شمشیر زنی کے مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کیاہے۔ وہ یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی روسی خاتون ہیں۔ انھوں نے روس کی ہی سوفیہ ویلیکایا کو شکست دی جبکہ یوکرین کی اولگا خارلان نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔



زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح کھیلوں کے میدانوں میں بھی امریکہ اور چین میں کانٹے دار مقابلہ ہے، اب تک کے مقابلوں میں امریکہ 50 میڈلز کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ 37 تمغوں کے ہمراہ چین کا دوسرا نمبر ہے، امریکہ کے ایٹنی ارون نے مردوں کے 50 میٹر فری سٹائل تیراکی مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کر کے سب سے طویل عمر میں طلائی تمغہ جیتنے والے تیراک کا نیا ریکارڈ قائم کیا، انھوں نے 35 سال کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیا، وہ سڈنی اولمپکس میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے مشترک فاتح تھے، انھوں نے 2002 میں ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اب وہ پھر سے امریکہ کی تیراکی ٹیم میں شامل ہیں۔

امریکا کی ہی خاتون پیراک سیمون مینوئیل نے ریواولمپکس 2016 میں 100 میٹر فری سٹائل مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیت کر پہلی افریقی نژاد امریکی خاتون گولڈ میڈلسٹ ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا، سیمون نے کامیابی کے بعد خوشی کے آنسو کو پونچھتے ہوئے کہا کہ یہ ایک لمبا سفر تھا اور میں اس سفر نے مجھے جہاں پہنچایا میں اس پر حد سے زیادہ خوش ہوں۔یہ کسی بھی امریکی پیراک کی جانب سے 100 میٹر کے مقابلوں میں 1984 کے بعد پہلی کامیابی ہے، نینسی ہوگشیڈ اور کیری اسٹینسفر نے 1984 میں امریکا کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔

خواتین کے 100 میٹر بریسٹ سٹروک مقابلے میں امریکہ کی لیلی کنگ نے روس کی متنازع تیراک یولیا ایفیمووا کو شکست دے کر طلائی تمغہ حاصل کیا۔کنگ پہلی بار اولمپکس میں شریک ہوئی ہیں اور انھوں نے اس مقابلے میں نیا اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا۔انھوں نے مقررہ فاصلہ 01.04.93 سیکنڈز میں طے کیا جبکہ روسی تیراک کا وقت 01.05.50 سیکنڈز رہا۔اولمپکس میں پہلی بار خواتین کے رگبی مقابلے منعقد کرائے گئے جس میں آسٹریلیا کی ٹیم نے نیوزی لینڈ کو 17-24 سے شکست دے کر طلائی تمغہ حاصل کیا جبکہ کانسی کا تمغہ کینیڈا نے برطانیہ کی ٹیم کو ہرا کر حاصل کیا۔

ٹینس میں مردوں کے ڈبلز مقابلوں میں سپین کے رافیل نڈال اور مارک لوپیز کی جوڑی نے طلائی تمغہ حاصل کیا۔امریکا کے شہرہ آفاق ایتھلیٹ مائیکل فیلپ نے اولمپک میں نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے ریو اولمپکس 2016 میں چوتھا طلائی تمغہ کر 2 ہزار سال سے زائد پرانا ریکارڈ توڑنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔امریکی پیراک نے 200 میٹر کے انفرادی مقابلے کے فائنل میں فتح حاصل کر کے اپنے کیریئر کا 22 واں سونے کا تمغہ جیتا، اس فتح کے ساتھ ہی انہوں نے تاریخ کے سب سے بہترین ایتھلیٹ سمجھے جانے والے قدیم یونانی لیونیڈز آف رہوڈز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، وہ اس کامیابی کے ساتھ ہی لگاتار چار اولمپک گیمز میں ایک ہی مقابلہ تواتر سے جیتنے والے تاریخ کے پہلے پیراک بن گئے ہیں۔

اس سے قبل انہوں نے 2004، 2008 اور 2012 کے اولمپکس میں بھی اس ریس میں کامیابی حاصل کی تھی۔جدید اولمپک کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں اور 1894 میں اولمپک کمیٹی کے قیام کے بعد 1896 میں پہلی مرتبہ جدید اولمپک گیمز کا انعقاد کیا گیا تھا۔اولمپک ویب سائٹ کے مطابق 2 ہزار 160 سال قبل 164 سے 152 قبل مسیح کے دوران لیونیڈز نے 12 فتوحات حاصل کی تھیں اور انہیں ان کے عہد کے بڑے ایتھلیٹ بھی ہیرو مانتے تھے تاہم اب مائیکل فیلپ نے نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنا نام بھی اس فہرست میں درج کرا لیا ہے۔

اب ہم اولمپکس مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بھی بات کرلیتے ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی بار سب سے کم 7 اتھلیٹس وائلڈ کارڈ پر میگا ایونٹ کاحصہ بننے میں کامیاب ہوئے جبکہ ان کے ساتھ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن، پاکستان سپورٹس بورڈ اور مختلف فیڈریشنوں کے10 عہدیداروں نے بھی برازیل کے لئے اپنی ٹکٹیں پکی کیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام قومی کھلاڑیوں کا اولمپکس کے آٹھویں روز ہی سفر تمام ہو گیا ہے، پاکستانی پلیئرز نے ایونٹس کے دوران نہ صرف انتہائی مایوس کن کھیل پیش کیا بلکہ وہ مقابلوں کے دوران آخری نمبروں پر رہے۔

جوڈو کے شاہ حسین شاہ امیدوں کے محور تھے لیکن وہ بھی شکست کھا کر ریواولمپکس سے باہر ہو گئے،انہیں 100 کلوگرام ویٹ کیٹگری کے دوسرے مرحلے میں یوکرائن کے آرٹم بلوشینکو کے ہاتھوں 100 کلوگرام میں زیر کیا،شاہ حسین نے گلاسگو میں دولت مشترکہ گیمز2016 کے مقابلوں میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا جبکہ رواں سال بھارت میں منعقدہ جنوبی ایشیائی گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔قبل ازیں پاکستان کی پہلی خاتون شوٹر منہال سہیل، غلام مصطفی بشیر، سوئمر لیانا سوان، حارث بانڈے بھی پہلے ہی مرحلے میں آؤٹ ہوکر مقابلوں سے باہر ہو گئے تھے، یہ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے اور ساتویں ایٹمی طاقت ملک کو اولمپکس میں میڈل حاصل کئے ہوئے 24 سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔

عالمی سطح پر میڈلز سے دوری کی جہاں بہت ساری وجوہات ہیں وہاں سپورٹس فیڈریشنوں پر سالہا سال سے براجمان شخصیات بھی ملکی کھیلوں کی تباہی کی بڑی ذمہ دار ہیں،ان عہدیداروں کو کھیلوں سے زیادہ دنیا بھر کے سیر سپاٹوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے یہ عہدیدار برازیل کی سیر کے بعد جب واپس آئیں گے تو فنڈز نہ ہونے اور وسائل کی کمی کارونا روئیں گے،ملکی انفراسٹریکچر کا موازنہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کریں گے،ان کے کھلاڑیوں کو ملنے والی مراعات کا تذکرہ کریں گے،ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل میں اچھا کرنے کے دعوے کریں گے اور پھر چین کی بانسری بجا کر سو جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں