ستارے
رائج الوقت رویہ توبالکل یہی ہے کہ قلمکارصرف اور صرف نوحہ گری کریں اور ہوبھی یہی رہاہے
رائج الوقت رویہ توبالکل یہی ہے کہ قلمکارصرف اور صرف نوحہ گری کریں اور ہوبھی یہی رہاہے۔اکثریت حد درجہ منفی باتیں بولتے اورلکھتے ہیں جن میں اکثرحقیقت سے بالکل متضادہوں۔کیا بیس کروڑ پاکستانیوں میں سے کوئی بھی ٹھیک نہیں، کامیاب نہیں،متوازن نہیں۔حالانکہ ملک میں ہرسطح پرایسے نادرلوگ پائے جاتے ہیں جومشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنا اورملک کانام روشن کرکے دنیا میں ہماری پہچان بن جاتے ہیں، محنت سے اپنے خواب عمل میں بدل دیتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کے وہ جگنوہیں جنھوں نے ہمیں راستہ بھی دکھایااورنشانِ منزل بھی دیا۔
وقاص علی،لاہورشہرکاطالبعلم تھا۔ وہ تعلیم حاصل کرکے نوکری نہیں کرنا چاہتا تھا۔مالی حالات کاروبارکرنے میں مانع تھے۔اسے احساس ہوا ہمارے ہنرمنداعلیٰ درجہ کے جوتے بناتے ہیں مگر ملک میں معمولی قیمت پربکتے ہیں۔اوکاڑہ میں وقاص کئی ایسے لوگوں سے ملاجوبرس ہابرس سے محنت کررہے تھے مگران کا پرسان حال کوئی نہیں تھا۔ان کی آئندہ نسلوں کا بھی مستقبل غیریقینی تھا۔وقاص پہچان چکا تھاکہ اگر کاریگروں کاہنردنیاکے سامنے رکھاجائے توپوری دنیاان کے جوتوں کی خریداربن سکتی ہے۔گوقاص کوجوتے بنانے یابیچنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
اوکاڑہ میں اس کی ملاقات محمدحسین سے ہوئی۔2010ء کازمانہ تھا۔وقاص فیس بُک اورانٹرنیٹ کی دنیاکانوجوان تھا۔ وقاص نے حسین کوکہاکہ ایک آن لائن اسٹوربناناچاہتاہے جس کے ذریعے سے پوری دنیاکومحمدحسین کے بنائے ہوئے جوتے بیچے گاتو حسین نے وقاص کوخبطی اورلاابالی نوجوان سمجھ کر انکار کر دیا۔وقاص نے حسین کوقائل کیاکہ دنیابدل چکی ہے اوروہ اوکاڑہ بیٹھے بیٹھے تمام دنیا میں گاہگ تلاش کرسکتاہے۔دونوں نے مل کر اپنی محنت کوآئن لائن اسٹورپرپیش کردیا۔پہلی ویب سائٹ کے لیے کیاکیاپاپڑ بیلنے پڑے،یہ الگ کہانی ہے۔پہلے چاردنوں میں کسی نے جوتے خریدنے کی خواہش کااظہارنہیں کیا۔ پانچویں دن مایوسی سے بیٹھاہواتھاکہ فرانس سے ایک شخص نے کہاکہ وہ جوتے خریدنا چاہتا ہے۔
پہلا آرڈر، دوسرا اور تیسرا،اس کے بعد خریداروں کی ایک قطار لگ گئی۔وقاص نے ''مارخور'' کے نام سے جوتے بنانے شروع کردیے۔ لاہور،کراچی اورتمام بڑے شہروں کے بڑے اسٹوروں پر جوتے دھڑادھڑبکنے لگے۔آج وقاص پوری دنیامیں اعلیٰ ترین جوتوں کاکامیاب تاجر ہے۔ محمد حسین کے مرنے کے بعداس کا بیٹا وقاص کاشریک سفر ہے۔ناکامی سے کامیابی تک کے بے مثال سفرمیں سدرہ نے بھی وقاص کابے حد ساتھ دیا۔یہ نوجوان لڑکی بھی وقاص کے شانہ بشانہ اس کے کاروبارمیں شریک ہے۔دونوں نے کاروبارمیں بالکل نئی جہت کاآغازکیاہے۔ اپنے کاریگروں کوعام مارکیٹ سے پچھترفیصدتنخواہ زیادہ دیتے ہیں۔پہلے پچیس کاریگروں کواپنے کاروبارمیں حصہ داربنالیاہے۔آج مارخورپاکستان اور بیرون ملک اعلیٰ اورقیمتی جوتوں کانشان بن چکا ہے۔ چند سالوں میں ان بچوں نے وہ کارنامہ سرانجام دے ڈالا، جو چند سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔
بلوچستان میں قلعہ عبداللہ پاکستان کاآخری ضلع ہے۔ افغانستان سے جڑاہواہے۔ضلعی ہیدکواٹرچمن ہے۔تمام علاقہ قبائلی طرزکاہے۔وہی انداززندگی،وہی عصبیت اور وہی طرزعمل۔قلعہ عبداللہ کی ایک تحصیل گلستان ہے اوراس میں ایک گاؤں کِلی احمدخیلان ہے۔ہرطرف بنجرپہاڑ، افلاس اورجنگ کی تباہ کاری۔رفیع اللہ کاکڑکاتعلق اسی گاؤں سے ہے۔ ایسے خاندان میں پیداہواجس میں تعلیم حاصل کرنے کاکوئی رجحان نہیں تھا۔چاربھائی اورآٹھ بہنوں پر مشتمل خاندان قبائلی طرززندگی گزاررہاتھا۔نہ کوئی کاروبار اورنہ کوئی ہنر۔رفیع اللہ کوپڑھنے کاشوق تھا۔خودہی اپنے گاؤں کے سرکاری اسکول میں داخل ہوگیا۔
ساتویں جماعت تک وہ صرف پشتوبول سکتاتھا۔تھوڑی تھوڑی گزارے لائق اردوبھی لکھ سکتاتھا۔اسکول کے ایک استاد نے اس کاشوق دیکھ کر وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے کامشورہ دیا۔ننھاسارفیع اللہ وظیفہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔اسے لورالائی کے بورڈنگ اسکول میں حکومتی اخراجات پرداخلہ مل گیا۔جب رفیع اللہ وہاں گیاتواسے انگلش کاایک لفظ نہیں آتاتھا۔اسکول میں انگلش سیکھنے اوربولنے پرکافی زوردیاجاتاتھا۔رفیع اللہ بالکل نہیں ہچکچایا۔ڈیڑھ برس میں انگریزی زبان پر عبور حاصل کرلیا۔لورالائی میں تعلیم پر بہت محنت کی۔اسکول میں سب کی نظروں میں آگیا۔
تقریری مقابلوں میں بھی اس کا اندازِبیان نادرتھا۔وہاں سے رفیع اللہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگیا۔لاہوراس دیہاتی نوجوان کے لیے ایک عجیب دنیاتھی۔گاؤں اوربلوچستان کے فطری ماحول سے ہزاردرجہ متضاد۔رفیع اللہ نے اپنی محنت جاری رکھی۔لورالائی میں سائنس کاطالبعلم تھامگرگورنمنٹ کالج میں آرٹس کے مضمون منتخب کیے۔یہ انتخاب بھی بہت عجیب تھا۔رفیع اللہ کو گھر والوں نے یہ مضامین پڑھنے کے لیے مجبورکیاکیونکہ وہ اسے ایک سیاستدان یاافسربناناچاہتے تھے۔لاہورنے رفیع اللہ کو بہت زیادہ تبدیل کرڈالا۔اسے اپنے ماحول سے مختلف ایک ایساتعلیمی ماحول ملاجس میں وہ بہت آگے بڑھ سکتا تھا۔ نوجوانوں کے ایک پروگرام کے تحت اسے امریکا میں پڑھنے کاموقعہ مل گیا۔
جنوبی ڈکوٹا میں آگستانہ کالج میں ایک سمیسٹرپڑھنے کاتجربہ رفیع اللہ کومکمل طور پر جھنجوڑ گیا۔ امریکا پہنچاتومحسوس ہواکہ تحقیق،تجزیہ اورتجربہ میں اس قوم کا تعلیمی معیارکتنابلندہے۔ امریکا سے واپس آیاتودل میں خیال پیداہواکہ اپنی باقی تعلیم اُسی ملک میں مکمل کرنی چاہیے۔مالی حالات بیرونی تعلیم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ دوستوں سے مشورہ کیااورروڈزسکالرشپ کے لیے درخواست بھجوادی۔روڈزسکالرشپ، وظیفہ دینے کاوہ ادارہ ہے جوذہین طلباء اورطالبات کوپوری دنیاسے چنتا ہے۔ بعدازاں ان بچوں کودنیاکی بہترین درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
وظیفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اس ذریعہ سے اسے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات پڑھنے کانایاب موقعہ مل گیا۔اپنے صوبہ سے معتبر وظیفہ حاصل کرنے والاپہلاانسان تھا۔کِلی احمدخیلان سے شروع ہونے والاسفراسے آکسفورڈیونیورسٹی تک لے جائے گا مگررفیع اللہ کی محنت نے اسے ایک ایسے ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے کاموقعہ فراہم کیا،جہاں پڑھناایک اعزازکی بات ہے۔نمیرہ سلیم کاتعلق پاکستان سے ہے۔حیرت انگیز حد تک نئے تجربات کرنے کاحوصلہ رکھتی ہے۔اہل خانہ کے ساتھ دبئی اورموناکومیں رہائش پذیرہے۔اس لڑکی کی ہمت کااندازہ لگائیے کہ2007ء میں قطب شمالی تک پہنچ گئی۔ اس کے اگلے برس یعنی2008ء میں قطب جنوبی تک سفر کر گئی۔اس کاحوصلہ پہاڑوں سے بھی بلنداورسمندرکی اتھاہ گہرائیوں سے بھی قوی تھا۔
اسی سال ماؤنٹ ایورسٹ گئی اور وہاں سے سکائی ڈائیو(Sky Dive)کرنے والی پہلی ایشیائی خاتون ہونے کااعزازحاصل کیا۔مگراب وہ زمین سے باہرخلامیں سفرکرناچاہتی تھی۔ اسٹروناٹ (Astronaut) بننے کاجنون تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے خلائی سفرکی ابتدائی منزلیں طے کرنی شروع کردیں۔ہمت اورعزم دیکھ کر خلا کے شعبہ سے وابسطہ تمام لوگوں نے مددکرنی شروع کردی۔ سررچرڈبرانسن(Sir Richard Brenson)نے بذات خودنمیرہ کااسٹروناٹ ہونے کااعلان کیا۔پاکستان میں پیداہونے والی لڑکی خلاکے حوالے سے ہماری پہچان بن چکی ہے۔اسے ہمارامعتبرترین تمغہ امتیازسے نوازاگیا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی نے آج تک بے شماربین الاقوامی اعزازحاصل کیے ہیں۔
ہمارے کامیاب لڑکے اورلڑکیوں کی فہرست صرف مندرجہ بالاانسانوں تک محدود نہیں ہے۔یہ طویل فہرست اتنی شاندارہے کہ بحیثیت قوم ہماراسرفخرسے بلند ہوجاتا ہے۔ڈاکٹرعمرسیف،نائلہ عالم،یاسمین درانی،عائشہ فاروق، فیضان بزوار،ڈاکٹرارجمندہاشمی،مہک گل،کرامت علی، پروین سمیر،فیصل مرزا،سرمدطارق اوراَن گنت لوگ ہمارے ملک کے عزم،ہمت اوراہلیت کے وہ نشان ہیںجوثابت کرتے ہیںکہ لاکھ دشواریوں کے باوجودپاکستان میںترقی کرنے کے مواقع موجودہیں۔اس طرح کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ہر گاؤں،تحصیل، قصبہ اورشہرمیں موجود ہیں۔ ہمارا ملک ایک ایسی بہادر قوم پرمشتمل ہے جومشکل سے مشکل حالات میں بھی سانس لیناجانتی ہے،تاریکی میں بھی دیے جلانے کی استطاعت رکھتی ہے۔جسکے عزم کے سامنے ہرمصیبت ہیچ ہے۔
کسی قسم کے حادثات اورواقعات مایوس نہیں کرتے۔ افسوس ضرورہوتاہے کہ دہشتگردی اورجہالت نے ہمیں آگے نکلنے کے کئی راستوں سے محروم کردیاہے۔مگرجب میں وقاص علی کی طرف دیکھتاہوں توہمت بڑھ جاتی ہے۔ نمیرہ سلیم کی طرف نظرڈالتاہوں توخلابھی مسخرہوتی معلوم ہوتی ہے۔جب رفیع اللہ کاکڑ کی طرف آنکھ اٹھتی ہے توقلعہ عبداللہ کے سامنے آکسفورڈیونیورسٹی مسخرنظرآتی ہے۔اَن گنت شاندارلوگوں کی موجودگی میں ہمارامستقبل ستاروں کی طرح تابناک ہے۔میں توبالکل مایوس نہیں ہوں۔