عیش کیجیے جگائیے مت
کشمیر میں قتل عام ہو رہا ہے اور بلاول بھٹو جوکچھ کہہ رہے ہیں اس کا کوئی مدلل، موثر جواب نہیں ہے۔
ترکی کے عوام نے آمریت کومستردکردیا۔اس موضوع پرسیرحاصل اورلاحاصل دونوں طرح کے مضامین آپ پڑھ چکے ہوں گے کیونکہ ہمیں عادت ہے کہ ''کاتا اور لے دوڑے'' ترکی کی تاریخ اتا ترک، جمال گرسل اور اب رجب طیب اردگان تک بے حد خوبصورت ہے اس ملک کی طرح جسے ہم Face Book پر دیکھتے رہتے ہیں۔ Face بک کا مسئلہ بھی عجیب ہے یہاں لوگ جو بھی پوسٹ کیا جاتا ہے اسے صرف 'حمایت ، مخالفت' کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں حالانکہ اس میں کوئی نہ کوئی اطلاع، خبر، مزاح وغیرہ ہوتے ہیں۔
کشمیر میں قتل عام ہو رہا ہے اور بلاول بھٹو جوکچھ کہہ رہے ہیں اس کا کوئی مدلل، موثر جواب نہیں ہے۔ اس حکومتی پارٹی کے پاس کیونکہ جوآدمی کابل میں پاکستان کوگالیاں دے کر لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پاکستان میں اس کا استقبال کیا جاتا ہے وہ پاکستان میں ایک تقریب میں شرکت کرکے واپس دہلی چلا جاتا ہو اوراس پر بھی بھارت کے لوگ وزیر اعظم کو برا کہتے ہوں کہ وہ پاکستان کیوں گیا تو پاکستان کے حکمرانوں کی Rating آپ خود کرلیجیے۔پاکستان کو بیرونی سے زیادہ اندرونی عناصر نے زیادہ نقصان پہنچایا اور اب تک پہنچا رہے ہیں، ایوب خان سے پہلے سازشی غلام محمد ٹولہ پھر بنگالی سیاست کہ پاکستان کے بعد میں وزیراعظم بن جانے والے نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے پوچھا تھا کہ کیا دو پاکستان نہیں بن سکتے اورلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا اب بہت دیرہوچکی ہے۔
اس کے بعد بھٹو جو نرسری سے تو ایوب خان کی آئے تھے مگر وہ محب وطن تھے،کوئی برا نہ مانے اس بات کا کیونکہ ایوب خان بھٹوکے ڈیڈی مشہور تھے سیاسی زبان میں۔
اس کے بعد پاکستان کا سیاہ ترین باب ضیا الحق جو ایسا ہی تھا جیسے کہ طالبان اور اسلام، یعنی وہ طالبان جو قتل کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں بے گناہ لوگوں کو اورکہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ نام توضیاالحق تھا مگر اندھیرا تھا جسے حبیب جالب نے بہت اچھی طرح بیان کیا ہے، پاکستان کی ترقی کو خاک میں ملاکر ایک خود ساختہ اسلام ملک پر نافذ کرنا جس میں قرآن اور سنت کو بے دریغ اپنے مقاصد کے لیے بلکہ مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا کیونکہ مقصد امیر المومنین یا اگر یہ منصب سعودیہ تسلیم نہ کرے تو ان کا نائب بننا تھا۔
وہ یہ بھول گئے تھے کہ مغرب کو سب کچھ پسند ہے سوائے اسلام کے وہ رویہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے ۔
ترکی ہمارا برادر ملک ہے اور اسے برادر بنانے میں موجودہ نے نہیں بہت سے سابقہ حکمرانوں نے بہت محنت کی ہے پاکستان کے جن میں قائداعظم، لیاقت علی خان، ایوب خان، ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر بھٹو شامل ہیں۔ آپ نے تو صرف تجارت کی ہے ہر طرف وہ بھی ذاتی تجارت۔ پاکستان کی تجارت کا تو دھڑن تختہ کردیا گیا ہے۔ ویسے تو ہروزیر نے اپنے شعبوں کا وزارتوں کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔ وزارت اطلاعات کو ہی دیکھ لیجیے۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ بجلی نہ ہونے سے ریڈیو پاکستان حیدرآباد اکثر بند رہتا ہے۔
تمام اخراجات کے لیے رقم ہے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد اور دوسرے اسٹیشنوں پر ڈیزل اورآرٹسٹوں کو ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ ہم یہ بات آج اس لیے لکھ رہے ہیں کہ آرٹسٹوں نے ہمیں بھی بہت برا بھلا کہا ہے کہ آپ کیا خاک لکھتے ہیں ہم پرآپ کی نظر نہیں پڑتی حالانکہ ہم میں سے ہیں۔ آوازوں پر 18 فیصد ٹیکس ہے یہ بھی ایک مسئلہ ہے بھلا ریڈیو کے فنکاروں کو آپ دیتے کیا ہیں کہ 18 فیصد اس میں سے TAX کاٹ لیتے ہیں۔ یہ ایک ظلم ہے کہ آواز پر ٹیکس ہے۔ قلم پر ٹیکس ہے اور آپ پاکستان میں آواز بلند نہیں کرسکتے کہ یہ ایک طریقہ ہے آواز دبانے کا کہ آواز بند کردو اس کی جو آواز بلند کرے، پاکستان کی قابل خاتون وزیر ایک جگہ مقبوضہ کشمیر کو Pakistan Held کشمیر کہتی رہیں جس ملک کی وزیر کو آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا فرق نہ معلوم ہو وہ کشمیر کے بارے میں کچھ کہیں تو لوگ مذاق سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کشمیر کو مذاق اور مودی کی جاگیر سمجھتی ہے۔
کشمیر میں کشمیریوں نے پاکستان کے جھنڈے کیوں اٹھا لیے ہیں غور کیا ہے آپ نے۔ نہیں کیا ہوگا دو وجوہات ہیں ایک تو وہ آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ آزادی کی حفاظت کرو آپ کی آزادی کا سودا ہونے جا رہا ہے ،یہ سوداگر سب کچھ بیچ باچ کر اس ملک سے چلے جائیں گے جہاں ایک قطار میں ان کے مکانات ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ حکومت سے مایوس اور Pakistan State کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کا جھنڈا State کا جھنڈا ہے، حکومت کا نہیں کسی پارٹی کا نہیں۔
ترکی کے عوام نے بھی ایک سبق دیا ہے کہ عوام کے حقوق پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہوجاؤ اور اپنا حق محفوظ کرلو۔ پاکستان میں عوام کسی آمر کے خلاف اس طرح کھڑے نہیں ہوتے جیسے ترکی کے عوام رجب طیب اردگان کی ایک آواز ایک موبائل خطاب پر گھروں سے نکل آئے، کیونکہ ترکی میں حقیقی جمہوریت ہے اور پاکستان میں سوائے ابتدائی چند سالوں کے قیام کے بعد، بدترین سول آمریت Civil Dictatorship رہی ہے جمہوریت کے نام پر۔ نوازا شریف کو چاہیے کہ وہ بڑھ بڑھ کر ترکی کے عوام کو مبارکباد نہ دیں۔ کہیں پاکستان کے عوام نہ جاگ جائیں اور انھیں اپنے حقوق کا شعورنہ آجائے۔ تقریروں میں بھی اس سے پرہیز کریں انھیں سونے دیں آرام کرنے دیں اسی میں ہی آپ کا آرام ہے آپ کا چین ہے۔ آپ کے پاس ایک مولانا ہیں وہ قوم کو سلانے کے لیے کالے سفید جھنڈے کے ساتھ کافی ہیں۔
مت عوام کے زخموں سے کھیلیے۔ یہ یاد رکھیے کہ یہ وہی قوم ہے جس نے پاکستان ایک شخص کی آواز پر قائم کردیا جہاں آپ عیش کررہے ہیں کیونکہ وہ سچا لیڈر تھا، اس کے ساتھی سچے تھے اور کم ازکم اس وقت تو پاکستان کے خیرخواہ تھے جب قائد زندہ تھا، یہ قوم پھر بیدار ہوجائے گی جب کوئی زندہ قائد اسے مل جائے گا۔ مردہ قائدوں کی آواز پر یہ قوم بیدار ہونے سے رہی۔ عیش کیجیے، جگائیے مت!