پاکستانی زبانوں میں بولتا دستور
سقوط ڈھاکہ تک ملک میں مختلف دستور بنے جن میں 1956 کا دستور بھی شامل تھا
پاکستان کے قیام کو الحمد للہ 69 سال مکمل ہوگئے ہیں اور اس عرصے میں یوں تو حکمرانوں نے ملک کو اپنی مرضی کے مختلف دستور دیے جن میں 1973 کا دستور ملک کا منفرد دستور ہے جو ملک کے دولخت ہونیوالے ارکان قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظورکیا تھا۔
سقوط ڈھاکہ تک ملک میں مختلف دستور بنے جن میں 1956 کا دستور بھی شامل تھا جو اکتوبر 1958 میں لگنے والے مارشل لا میں جنرل محمد ایوب خان کے حکم پر منسوخ ہوا اور فوجی سربراہ نے اپنی مرضی کا دستور ملک پر مسلط کیا جو صدارتی نظام کا تھا اور اسی دستورکے تحت صدر ایوب خان 1969 تک اقتدار میں رہے اور جب ملک کی اپوزیشن نے متحد ہوکر ایوب حکومت کے خلاف تحریک چلائی تو ایوب خان نے اقتدار اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو سونپ دیا اور ملک کو نئے جنرل کے مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا اور نئی حکومت نے 1970 میں ملک میں عام انتخابات کرائے۔
جس کے نتائج جنرل یحییٰ خان کی توقعات کے برعکس نکلے اور انھوں نے اقتدار اکثریت حاصل کرنیوالی عوامی لیگ کے سپرد نہیں کیا، جس نے مشرقی پاکستان میں اپنے چھ نکات کی بنیاد پر بھاری کامیابی حاصل کی اور اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان میں دو کے سوا تمام نشستیں جیت لی تھیں اور صرف نورالامین اور راجہ تری دیو رائے مشرقی پاکستان سے منتخب ہونیوالے غیر عوامی لیگی رکن قومی اسمبلی تھے جب کہ مغربی پاکستان جس کے چار صوبے بن گئے تھے وہاں سندھ اور پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کی جب کہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور دونوں پارٹیوں نے بعد میں 1973 کے آئین کے تحت اپنے دونوں صوبوں میں مخلوط طور پر حکومتیں بنائیں۔
سقوط ڈھاکہ جنرل یحییٰ کے دور میں ہوا اور ملک دولخت ہونے کے بعد جنرل یحییٰ نے مجبوری میں اقتدار پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل کرنیوالی پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹوکو سونپ دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان سے ارکان قومی اسمبلی کی زیادہ تعداد پی پی کے ارکان کی تھی اور نیب اور جے یو آئی کے علاوہ جماعت اسلامی، جے یو پی، مسلم لیگ اور آزاد ارکان قومی اسمبلی کے ممبران تھے اور صدروچیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرذوالفقار علی بھٹوکی کوششوں سے تمام سیاسی جماعتیں 1973 میں باقی بچے ہوئے پاکستان کو ایک متفقہ دستور دینے میں کامیاب ہوئیں اور ملک میں پارلیمانی طرز حکومت قائم ہوا جس کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو منتخب ہوئے۔
جنھوں نے اپنی اکثریت کے زور پر 1973 کے دستور کو متفقہ نہیں رہنے دیا اور من مانی ترامیم کے ذریعے وہ ملک کے نہایت بااختیاروزیر اعظم بن گئے اور انھوں نے بلوچستان اور صوبہ سرحد کی منتخب مخلوط حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے پہلے بلوچستان میں گورنر راج لگایا جس پر بطور احتجاج وزیر اعلیٰ صوبہ سرحد مولانا مفتی محمود مستعفی ہوگئے اور بعد میں وزیر اعظم بھٹو نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کراکر دونوں صوبوں میں پی پی کی حکومتیں قائم کرادی تھیں۔
1973 کے دستور کا خود کو تنہا خالق قرار دینے والے بھٹو نے آئین میں ترامیم کی ابتدا خود کی اور دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لیے قبل ازوقت انتخابات کرائے مگر پی این اے کی بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کے نتیجے میں 5 جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت برطرف کرکے مارشل لا تو لگایا مگر 1973 کے دستور کو منسوخ نہیں کیا بلکہ اس کی کچھ شقوں کو معطل کرکے اپنی مرضی کی ترامیم کرائیں اور 1985 میں متفقہ طور پر منظور دستور کے تحت غیر جماعتی الیکشن کرائے جس کے بعد 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت برطرف کرکے اپنی حکومت قائم کرکے دستور منسوخ نہیں کیا اور 2002 میں جماعتی بنیاد پر عام انتخابات کرائے۔ جنرل ضیا سے 2013 تک آنیوالی حکومتوں میں دستور میں من مانی تبدیلیاں ہوتی رہیں مگر 1973 کا دستور منسوخ نہیں ہوا اور اس میں ترامیم ہوتی رہیں اور آج 43 سال گزر جانے کے بعد بھی ملک میں 1973 کا دستور موجود ہے مگر ترامیم کے بعد یہ وہ دستور نہیں جو متفقہ طور پر منظور ہوا تھا۔
1973 کا دستور ملک میں آج بھی انگریزی اور اردو زبانوں میں تحریری طور پر موجود ہے اور ملک کے عوام کی اکثریت انگریزی تو کیا اردو میں بھی اس لکھے ہوئے دستور کو نہیں پڑھ سکی ہے کیونکہ ملک میں تعلیمی رجحان کم ہونے کی وجہ سے ملک کی اکثریت آج بھی غیر تعلیم یافتہ ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنیوالے ہی تحریری دستور پڑھ سکتے ہیں۔
عوام کی اکثریت لفظ دستور کے بارے میں بہت کم جانتی ہے کیونکہ ان کا دستور سے واسطہ ہی نہیں پڑتا اور حکومتی اور سیاسی حلقوں ہی میں دستور کی باتیں ہوتی ہیں اور حکومتیں دستورکو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے غلط طور پر استعمال کرنے کے لیے من مانی تشریح کرتی رہتی ہیں اور غیر آئینی اقدامات سے بھی گریز نہیں کرتیں جو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں چیلنج ہوجاتے ہیں اور اعلیٰ عدالتیں دستور کے تحت معاملات دیکھ کر دستورکی تشریح اور قانونی فیصلے کرتی ہیں۔آئین کے تحت ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہیں مگر جمہوری کہلانیوالی حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی ہیں مگر آج تک ان کے خلاف اس کھلی آئینی خلاف ورزی پر عدالتی کارروائی کبھی نہیں ہوئی اور انھیں ڈھیل ملتی رہی۔ اگر آئین کی اس خلاف ورزی پر ایکشن لے لیا جاتا تو عوام کے بلدیاتی مسائل حل ہوسکتے تھے۔
سپریم کورٹ اس بارے میں ریمارکس دیتی رہی اورہر نام نہاد جمہوری حکومت بلدیاتی انتخابات نہ کراکر دستورکی خلاف ورزی کرتی رہیں اور عوام کو سپریم کورٹ کے ریمارکس سے قبل تک پتا ہی نہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات کرانا آئین کے تحت ضروری ہیں جو سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے۔ ضروری تو ہے کہ ملک کے تھوڑے پڑھے ہوئے لوگوں کو بھی اپنے ملک کے دستور کے متعلق معلومات ہوں۔ حکومت ایسا چاہتی نہیں اور وہ عوام کو دستور سے متعلق لاعلم ہی رکھنا چاہتی ہے مگر اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ملک میں 14 اگست سے عوام کو بولتا ہوا ایسا دستور ملا ہے جو پانچ پاکستانی زبانوں میں منظر عام پر آیا ہے اور بولتا ہوا یہ دستور دنیا کا پہلا ڈیجیٹل دستور ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے جو موبائل ایپس کے ذریعے معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کے ساتھ عوام کو مکمل معلومات فراہم کرے گا اور ملک کا شہری اپنی مرضی کی زبان کے ذریعے دستور پاکستان سے نہ صرف آگاہ ہوسکے گا بلکہ اس جدید ڈیجیٹل دستور 1973 کے تحت اپنے حقوق و فرائض سے بھی باخبر ہوسکیں گے۔ ملک کے دستور سے آگہی پاکستان کی سالمیت اور بقا کی ضمانت ہے۔
اس جدید بولتے دستور کے خالق ظفر الحق قاسمی ہیں۔ جنھوں نے اپنی صلاحیتوں سے دور جدید کیمطابق تمام تقاضوں سے ہم آہنگ مکمل ڈیجیٹل دستورعوام کے لیے تیار کیا ہے جو اردو، سندھی، پشتو، بلوچی اور انگلش میں دستیاب ہوگا اور لوگ ایپس کی بدولت اب باآسانی تمام قانونی معاملات اپنے موبائل کے ذریعے حاصل کرسکیں گے۔ ملک کا پہلا یہ بولتا دستور نہ صرف تاریخی حیثیت کا حامل ہوگا بلکہ عام لوگوں کے لیے آسانیاں بھی فراہم کرے گا اور عوام کے لیے تحفہ ہوگا۔