میرا لاہور واپس دلا دیں
ستر کی دہائی کا لاہور میرے بچپن کا زمانہ ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے
جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، آسمان پر ساون کی گھنگھور گھٹائیں چھا گئی ہیں، لاہور میں کہیں بوندا باندی اور کہیں بارش ٹوٹ کر برس رہی ہے، مست کر دینے والی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں، ایسے موسم میں کون ظالم سیاست اور دہشت گردی کے بکھیڑوں میں اپنے قلم کی سیاہی ضایع کرے گا۔ ساون کا موسم جب جھوم کر آتا ہے تو گرمی اور حبس کے مارے انسانوں اور حیوانوں پر مستی چھا جاتی ہے، درخت ایسے جھومتے ہیں جیسے الہڑ مٹیار جوانی کے نشے میں سرشار ہو کر بھائی کی شادی میں گدا ڈالتی ہے۔ نان پکوڑے، آلو والے پراٹھے کھانے اور دودھ پتی پینے کا مزہ اس موسم میں کچھ اور ہی ہے۔ ساون رت میں پیدا ہونے والے احساسات کو چراغ حسن حسرت نے ماہیے کی زبان میں بیان کیا ہے، ماہیا خالصتاً پنجابی شاعری کی صنف ہے لیکن چراغ حسن حسرت نے اسے اردو میں لکھا اور استاد برکت علی خان نے اسے گا کر امر کر دیا، یقیناً آپ نے بھی سنا ہو گا لیکن یاد دلانے میں کیا حرج ہے۔کلاسیک گیت، غزل اور ماہیے جب بھی سنیں لطف دیتے ہیں۔
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو،ہم تم کو نہیں بھولے
یہ رقص ستاروں کا
سن لوکبھی افسانہ تقدیر کے ماروں کا
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا رہ کر جیناکوئی جینا ہے
راوی کا کنارا ہو ، ہر موج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہو
خیالات اور احساسات کا جوار بھاٹا مجھے کبھی ماضی میں لے جاتا ہے اور کبھی حال دھکیل دیتا ہے۔ ماضی بھی کیا خوبصورت اور رومانی ہوتا ہے اور حال جس میں ہم زندہ ہوتے ہیں، ناکامیاں اور کامیابیاں ساتھ لے کر چلتا ہے، کامیابی اور ناکامی بھی سوال ہوتا ہے، جس کا جواب مرنے کے بعد ملتا ہے کہ کوئی کامیاب تھا یا ناکام۔
مجھے بچپن کا ساون بڑا رومینٹک، حسین اور چلبلا نظر آتا ہے جب کہ آج کا ساون سہما سہما اور خوفزدہ یا پھر جذبات اور احساسات سے عاری۔ بارش ہو جائے تو سب سے پہلا خیال یہ آتا ہے، یار سڑکوں پر پانی کھڑا ہو جائے گا، گھر کیسے پہنچوں گا اور اگر گھر میں موجود ہیں تو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ دفتر کیسے پہنچوں گا؟
ستر کی دہائی کا لاہور میرے بچپن کا زمانہ ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے، اس زمانے میں گھروں میں پھل دار درخت ہوا کرتے تھے، ساون کے مہینے میں جامن اور امرودوں کی بہار ہوتی تھی، بچے بارش میں نہاتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں لگے جامن کے پیڑوں سے زمین پر گرنے والے جامن اٹھا کر کھاتے تھے، کسی کے بھی گھر میں گھس جائیں، کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ لاہور کے ملتان روڈ جہاں فلم اسٹوڈیوز ہیں، کے ارد گرد درختوں کا جنگل تھا اور ہرے بھرے کھیت۔ شام کے وقت آسمان پر پرندوں کے غول ایسے امڈتے کہ شام رات میں ڈھل جاتی، ہر طرف پرندوں کی چہکار اور آوازیں جلترنگ کا احساس پیدا کرتی تھیں۔ رنگ رنگ کے پرندے جنھیں دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔
لاہور کا مال روڈ ناصر باغ سے اسمبلی ہال تک یورپ کے کسی ترقی یافتہ ملک کی شاہراہ کا منظر پیش کرتا تھا، جب میں اسکول میں داخل ہوا تو اپنے والد کے ہمراہ یونیفارم خریدنے انار کلی بازار آیا کرتا تھا، میں والد کی انگلی پکڑے انار کلی بازار اور مال روڈ پر چلتا تھا، اس زمانے میں مال روڈ پر گورے سیاح عام نظر آتے تھے، سنہرے اور سرخ بالوں والی گوریاں جنھیں اکثر نوجوان روک کر ہیلو ہائے کرتے نظر آتے تھے، میرا بھی بڑا دل چاہتا تھا کہ کسی گوری سے ہاتھ ملاؤں اور کہوں "How do youdo" کیونکہ انگریزی کا بس یہی جملہ مجھے زبانی یاد تھا لیکن والد کے ڈر سے ایسا نہ کر سکا البتہ جب میں کالج پہنچ گیا تو مال روڈ پر ہی بچپن کی یہ خواہش پوری کر لی، اب سوچتا ہوں تو ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے، کیا سنہرے دن تھے، کاش وہ واپس آ جائیں لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکتا، زندگی کو صرف آگے بڑھنا ہے اور آخر میں اس کا اختتام ہونا ہے۔
یہ وہ لاہور تھا جب یہاں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے، دہشت گردی کا نام و نشان نہیں تھا، اسمبلی ہال کے عین سامنے چیئرنگ کراس سے متصل باغیچے میں ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ نصب تھا، اس وقت تک یہاں بت اکھاڑنے کی مہم شروع نہیں ہوئی تھی اور لارنس گارڈن جسے ہم نے جناح باغ کا نام دیا، اس کے ارد گرد لوہے کے بلند جنگلے نہیں لگے تھے، زندگی سے بھرپور یہ باغ دن رات کھلا رہتا تھا کیونکہ اس کا کوئی دروازہ ہی نہیں تھا، پورے باغ کی چار دیواری پودوں کی باڑ سے کی گئی تھی اور راہداریاں دن رات کھلی تھیں، مزدور، ہوٹلوں کے چھوٹے ملازم جو دوسرے شہروں سے آتے تھے اور ان کے پاس رہائش نہیں تھی، وہ اس باغ میں سوتے تھے۔ گردوغبار کا نام و نشان نہیں تھا، اس باغ میں قطار اندر قطار جامن کے بلند و بالا درخت لگے تھے، ساون میں راہداریاں درختوں سے گرنے والے جامنوں سے اٹ جاتی تھیں، آج بھی چند درخت باقی ہیں، دیکھیں کب تک۔ برگد، پیپل اور ٹاہلی کے بلند و بالا درختوں نے مال روڈ کو ڈھانپ رکھا تھا، مال روڈ کیسا تھا، اس کی ایک جھلک غلام عباس کے مشہور افسانے اوور کوٹ میں نظر آتی ہے۔
اس زمانے میں یہ کالجوں اور باغوں کا شہر کہلاتا تھا، زندگی میں ڈسپلن تھا، ٹھہراؤ تھا اور سرکاری عمال کی لوٹ مار ابھی پانچ دس روپے یا زیادہ سے سو ڈیڑھ سو روپے رشوت تک محدود تھی، لیکن معاشرے کو زہر آلود بنانے کا کام شروع ہو چکا تھا، اس کا احساس اب جا کر ہوا ہے کہ پاکستان کو مذہبی، نسلی اور لسانی نفرتوں، عصبیتوں کے زہریلے انجکشن لگانے کا آغاز تو تقسیم کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا، پہلا انجکشن تو زمینوں کی الاٹمنٹوں کی صورت میں لگایا گیا۔ دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم اس علاقے سے تقسیم سے قبل منتخب ہوئے تھے جو ہندوستان میں رہ گیا، پہلی قانون ساز اسمبلی کی پوزیشن بھی ایسی ہی تھی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تقسیم کے فوراً بعد ایک نگران عبوری سیٹ اپ قائم کیا جاتا جس میں پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین میں سے ان کی آبادی کے تناسب سے ٹیکنو کریٹس اور دیگر غیر سیاسی شخصیات کو نمایندگی دی جاتی۔ یہ نگران سیٹ اپ ملک میں آئین ساز اسمبلی کے لیے عام انتخابات کراتا، یہ منتخب اسمبلی نئے ملک کے لیے آئین تیار کرتی لیکن یہاں الٹ ہوا۔ قرارداد مقاصد تیار کرانے والے کون تھے اور ان کے مقاصد کیا تھے، کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ تقسیم کے وقت سارے برصغیر کا نظام سیکولر بنیادوں پر اٹھایا گیا لہٰذا سب سے پہلے اس نظام کو توڑنے کے عمل کا آغاز کیا گیا، متروکہ املاک کی بندر بانٹ کے لیے قواعد و ضوابط سے روگردانی کا آغاز ہوا، پھر بتدریج سسٹم زوال پذیر ہونا شروع ہوا، قانونی شکنی تعزیر اور عدالت کی گرفت سے آزاد ہو گئی تو معاشرہ انتشار کا شکار ہو گیا، دیدہ دلیری سے سرکاری زمینوں پر قبضے ہونے لگے، زمینوں پر قبضے کے لیے مساجد کا استعمال کیا جانے لگا، کہیں قبریں اور مزار بنا کر زمینوں پر قبضے کر لیے گئے، انتظامیہ کرپٹ ہو گئی، آج ہم اس کی بھیانک شکل دیکھ رہے ہیں۔
میں نے آغاز میں جس لاہور کا ذکر کیا، وہ دراصل انگریز کے قائم کردہ سیکولر نظام کی باقیات کا نظارہ تھا، اس وقت یہ نظام ٹوٹ رہا تھا لیکن عام آدمی کو احساس نہیں تھا، میرے جیسے بچے کو بھلا کیسے ہو سکتا تھا، اس لیے مجھے اپنے بچپن کا لاہور جنت نظر آتا ہے کیونکہ ورثے میں ملا سیکولر نظام گرتا پڑتا چل رہا تھا لیکن دیدہ وروں کو اس وقت بھی نظر آ رہا تھا کہ اس جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کے مشن کا آغاز ہو چکا تھا۔ہم نے اپنی جنت کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا، کسی سے کیا گلہ شکوہ۔ آج ہم اس گم شدہ جنت کی تلاش میں ہیں۔چند روز پہلے یوم آزادی پر ایکسپریس میڈیا گروپ کے سیمینار سے خطاب کے دوران بزرگ قانون دان ایس ایم ظفر نے میاں شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی دلسوزی سے التجا کی کہ مجھے میرا لاہورواپس دلادیں، وہ لاہور جہاں ساون کی مست گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی تھیں۔میں نے جب یہ سنا تو میری آنکھوں میں پانی کی لہر تیرنے لگی اور میں چند ساعتوں میں اس لاہور میں پہنچ گیا جہاں ساون جھوم جھوم کر برس رہا تھا ، پتہ نہیں جناب شہباز شریف جو خود بھی لاہوریے ہیں ، اس برسات میں نہائے یا نہیں۔