گاؤکشی بھیانک جرم

نفرت، غرور اور شدت پسندی کا زہر بعض اوقات انسان کی رگوں میں اس قدر سرایت کر جاتا ہے


عینی نیازی August 17, 2016

CHAKWAL: نفرت، غرور اور شدت پسندی کا زہر بعض اوقات انسان کی رگوں میں اس قدر سرایت کر جاتا ہے کہ انسان اچھے برے کی تمیز کھو دیتا ہے یہی صورتحال بھارت کی ہے جہاں ہندو انتہا پسند کھلم کھلا آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں، گاؤ کشی کا بہانہ بنا کر مسلمانوں اور دلتوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ افسوس کسی ایک شرپسند کو بھی سزا نہیں دی گئی، اسی کا نتیجہ ہے کہ آئے دن گاؤکشی پر ظالمانہ واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں یہ ظلم کسی قیامت سے کم نہیں، ذرا تصور کیجیے کسی شخص کو سخت تشدد سے ہلاک کیا جائے اور وہ آخر وقت تک اپنے بے گناہ ہونے کی قسمیں کھا رہا ہو آس پاس کھڑے عزیز و اقارب آہ و زاریاں منت سماجت کر رہے ہوں مت مارو یہ بے قصور ہے مگر درندگی و نفرت کی پٹی آنکھوں پر چڑھائے جلاد کسی کی کہاں سنتے ہیں پھر اپنے جرائم پر کسی قسم کی ندامت محسوس کیے بناء یہ سمجھ لیا جانا جو کچھ کیا مذہب کے خاطر کیا جا رہا ہے ایسے لوگ کس سزا کے مستحق ہیں، اس کا جواب پڑھنے والوں پر چھوڑتی ہوں۔

انسانی تشدد سے ہلاک کرنے کا سلسلہ ہزاروں سال پرانا ہے اور برصغیر میں گائے کے حوالے سے ہندو مسلم فسادات کوئی نئی بات نہیں۔ مشہور مورخ ابن بطوطہ جب فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں ہندوستان آیا، لکھتا ہے کہ گائے کی قربانی کے خلاف ہندوؤں نے کئی مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ بابر نے اپنے بیٹے کو رموز حکمرانی سکھاتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ گاؤ کشی سے دور رہنا تا کہ عوام تمھارے لیے نرم گوشہ رکھیں احسان مند ہو کر تمھارے تابع رہیں جب اکبر برسر اقتدار آیا تو اس نے مذہبی رواداری کے پیش نظر گائے کی قربانی پر پابندی لگا دی جس پر علماء اس کے خلاف ہو گئے تھے۔

احمد سر ہندی کا کہنا تھا کہ ''گائے کی قربانی مسلمانوں کے شریعت کا اہم حصہ ہے اس سے انکار شریعت سے انکار ہے، اس لیے مسلمان گائے کی قربانی فرض کی ادائیگی سمجھ کر کریں، پھر تو بات مذہبی فریضہ سے نکل کر سیاسی ایوانوں میں پہنچ گئی یہ مسئلہ سیاسی طاقت بننے کی دیر تھی کہ شیوا جی جو اس وقت مغل حکومت کا سخت مخالف تھا، اس نے حکم نافذ کیا کہ ''ہم ہندو اس ریا ست کے والی وارث ہیں ہمارے لیے گائے کی قربانی برہمنوں پر ظلم کے مترادف ہے'' اقتدار حاصل کرنے کے لیے مذہب اور سیاست کے کھلاڑیوں کو ایک مہرہ ہاتھ آ گیا۔ 1845ء سکھ حکمرانوں کے دور میں سرینگر چھتہ بل کے پیر زادہ قادری اور ان کے 17 اہل خا نہ کو اسی جرم میں گا ئے کے گوبر اور بید کی سوکھی لکڑیوں کے الاؤ میں زندہ جلا دیا گیا۔ کشمیر کے ایک بڑے

تاجر معین الدین کھو سہ اور ان کے داماد مرزا کلو کو گھر سے گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سرعام پھانسی دی گئی ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا کہ نشان عبرت ہو۔

انیسویں صدی کے آواخر میں ہندوؤں نے اصلاحی تحریکوں میں گائے کشی کو شناختی علامت کے طور پر پیش کیا، اس کی حفاظت کے لیے با قاعدہ انجمنیں بنائی گئی یوں اب یہ سیاسی طاقت کا حوالہ بن گئی۔ 1920ء میں سرینگر جیل میں قید 117 میں سے 97 گاؤکشی کی سزا بھگت رہے تھے۔ ڈوگرہ حکومت نے پھانسی کی سزا کم کر کے دس سال قید رکھی جو آج بھی نافذ ہے برطانوی راج میں گائے کی قربانی پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی کیونکہ انگریز خود گائے کا گوشت رغبت سے کھا تے تھے۔ بھارت کے تمام صوبوں میں گاؤکشی پر پابندی ہے اس کے خلاف جانے والوں کو چھ ماہ سے ایک سال کی سزا ہے۔ کشمیر میں اب تک اس جرم میں 119 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔

ڈا کٹر مبارک اپنی کتاب میں ڈی این مبھا جو دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر کا حوالہ دیتے ہیں۔ ڈی این مبھا کے مطابق ہندوستان میں آریا اپنی مذہبی تہواروں اور رسومات میں گائے کی قربانی کرتے تھے اس کا گوشت کھاتے تھے مگر جب گائے کو مذہبی علامت بنا کر تقدس کا درجہ دیا گیا تو وہ گؤ ماتا بن گئی ہر ہندو کا مذہبی فریضہ بن گیا کہ وہ اس کا تحفظ کرے، ڈی این مھبا کی کتا ب کے اشاعت کے بعد ہندو انتہا پسند ان کے سخت مخالف ہو گئے سخت احتجاج اور مظاہرے ہوئے آخر حکومت کو ان کے تحفظ کے لیے گارڈ فراہم کرنا پڑا۔

گزشتہ سال دادری میں اخلاق نامی مسلمان کو بہیمانہ تشدد کر کے قتل کر دیا گیا ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے یہ قتل جائز قرار دیا گاؤکشی ایک بھیانک جرم کے طور پر سیکڑوں سال سے ہندو مسلم فسادات کی وجہ بنا ہوا ہے ابھی کچھ ہفتے قبل دلتوں کے چند نوجوانوں کو محض شک کی بنیاد پر ہندو انتہا پسندوں نے ہلاک کر ڈالا ان گناہ یہ تھا کہ وہ مردہ گائے کی کھال اتار رہے تھے ان سب باتوں میں انتظامیہ کا کس قدر عمل دخل ہے کیا یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے اگر ایسا نہیں تو مجرموں کو اب تک کیفرکردار تک کیوں نہیں پہنچایا گیا۔

انتہاپسند قوتوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے۔ اونچ نیچ کی یہ دیواریں، یہ بر تری کا گھمنڈ، بالادستی کی ہوس اور مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ اس سلسلے کو اب ختم ہونا چا ہیے۔ تاریخ میں گاؤ کشی جیسے مذہبی عقیدے کی کیا اہمیت ہے؟ تاریخ داں، دانشور اور سیاسی رہنما مل کر فیصلہ کریں صدیوں سے ساتھ رہتی دو قوموں کے درمیان معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنا ضروری ہے جب ہی نفرت پھیلانے والے کمزور ہوں گے۔ ان سے عوامی سطح پر بات چیت کرنا ہو گی انسانی زندگی اس قدر ارزاں تو نہیں کہ اسے جانور پر قربان کر دیا جائے، اس خونی تماشے کو اب بند ہونا چاہیے، ورنہ نفرت کی یہ آگ نجانے کتنے خاندانوں کو خاکستر کر دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں