ہائے وہ مسیحا نہ رہا
جب 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا دنیا پاکستان کے نام سے بھی واقف نہیں تھی
کھیلوں میں پاکستان کی موجودہ ابتری پر بے حد افسوس ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم ہاکی اور اسکواش میں کس بلندی پر تھے اور اب کس پستی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس وقت برازیل میں اولمپک گیمز ہو رہے ہیں اور ہماری ہاکی کی ٹیم اس میں شریک نہیں ہے۔ کرکٹ میں بھی ہم دنیا کی تمام ٹیموں پر ہمیشہ بھاری رہے ہم نے ورلڈ کپ جیت کر عالمی اعزاز حاصل کرلیا تھا۔ انگلینڈ جو کرکٹ کا موجد کہلاتا ہے، اب تک ورلڈ کپ حاصل نہیں کر سکا۔ یہی حال نیوزی لینڈ کا بھی ہے۔ مگر ہم نے وہ کچھ حاصل کر لیا جس کی ضرورت تھی مگر اس کا سارا کریڈٹ ہمارے کھلاڑیوں کو جاتا ہے اسکواش میں بھی جہانگیر خان اور جان شیر خان نے ناقابل فراموش کارنامے انجام دے کر ہمارا سرفخر سے بلند کر دیا تھا۔
جب 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا دنیا پاکستان کے نام سے بھی واقف نہیں تھی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہماری پہچان کرنے میں ہمارے کھلاڑیوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کا نام روشن کرانے والے کھلاڑیوں میں عالمی شہرت یافتہ کرکٹر حنیف محمد کی خدمات کو کبھی بھی بھلایا نہیں جائے گا۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا جس پر پوری عالمی کرکٹ سوگوار ہے۔ جب تک کرکٹ کھیلتے رہے اسے قومی ذمے داری سمجھتے رہے اور کھیل سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی کرکٹ کی خدمت کرتے رہے ان کے مفید مشوروں نے قومی اور بین الاقوامی کرکٹ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، انھوں نے کئی کھلاڑیوں کی تربیت بھی کی۔ چنانچہ آج کا کالم ان کے ہی نام کرتا ہوں۔
حنیف محمد کا پورا خاندان کرکٹ کا شیدائی تھا۔ ان کے دادا، والد اور تین ماموں بھی کرکٹ کھیلتے رہے ان کے والد محمد اسماعیل جو فوج میں کیپٹن تھے جوناگڑھ میں ایک کلب کی طرف سے کرکٹ کھیلتے تھے، ان کی والدہ امیر بی بی بھی ایک نامور اسپورٹس وومن تھیں وہ بیڈمنٹن اور کیرم کی چیمپئن تھیں۔ حنیف محمد پانچ بھائی تھے۔
آپ کے چاروں بھائی اور بیٹا کرکٹ کے نامور کھلاڑی تھے۔ بھائیوں میں وزیر محمد اور مشتاق محمد کی قومی کرکٹ کے لیے خدمات کوکبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ حنیف محمد کی یہ خوش قسمتی تھی کہ انھیں مشہور زمانہ کرکٹ کوچ ماسٹر عبدالعزیز اور جے ناؤ مل جیسے کراچی کے پرانے عہد ساز کرکٹرز اور کوچ سے تربیت حاصل کرنے کا موقع میسر آیا ان کی تربیت سے آپ نے کرکٹ کے راز و رموز سے واقفیت حاصل کی۔ آپ نے برطانوی ٹیسٹ کرکٹر بیلفر ورچرڈ گاور کے ٹریننگ کیمپ میں بھی تربیت حاصل کی تھی۔
بیلفرڈ نے آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ''اس نوجوان کو تربیت دینے کی نہیں بلکہ اس سے تربیت لینے کی ضرورت ہے'' آپ نے دنیائے کرکٹ میں کئی اعزازات حاصل کیے تھے۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ آپ نے فرمٹ کلاس کرکٹ میں 499 رنز بنا کر سر ڈان بریڈمین کے ریکارڈ کو توڑ دیا تھا۔ آپ نے 1958ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کے ہی شہر برج ٹاؤن میں کھیلتے ہوئے 337 رنز بنائے تھے۔ یہ اسکور 970 منٹ میں کیا گیا تھا یعنی پورے تیرہ گھنٹے کریر پر قائم رہے جو ایک عالمی ریکارڈ ہے اور اب تک قائم ہے اور شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے۔
کیوں کہ 13 گھنٹے تک کریز پر ٹھہرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آپ کا ٹیسٹ کیریئر 1952ء سے 1969ء تک محیط ہے ان 17 برسوں میں مجموعی طور پر آپ نے 55 ٹیسٹ میچ کھیلے جن کی 97 اننگز میں بارہ سنچریاں اور پندرہ نصف سنچریاں شامل ہیں۔ اپنے کیریئرکی اولین سنچری پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے خلاف بنائی ان 142 رنز میں سترہ چوکے اور ایک چھکا شامل تھے یہ میچ 1952ء میں بھارت جانے والی پاکستانی ٹیم نے 16 اکتوبر کو فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم دہلی میں کھیلا تھا۔ بھارت کے اس دورے میں آپ کو ''لٹل ماسٹر'' کا خطاب ملا تھا۔ آپ کے بہترین کھیل نے بھارت میں ہلچل مچا دی تھی وہاں کے تمام اخبارات نے کھل کر آپ کی تعریف میں خبریں اور مضامین شایع کیے تھے۔
آپ کے کھیل نے بھارت پر پاکستان کی ایسی دہشت طاری کر دی تھی کہ اس کے بعد سے بھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو کبھی ہلکا نہیں لیا بلکہ وہ پاکستان سے جب بھی میچ کھیلا پوری تیاری کے ساتھ کھیلا۔ آپ کی کپتانی میں قومی ٹیم نے کل گیارہ ٹیسٹ میچ کھیلے ان میں سے دو میچ جیتے دو ہارے جب کہ باقی سات ڈرا ہو گئے، آپ کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے آپ کو 1967ء کے ''وزڈن کرکٹر آف دی ایئر'' کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شامل کیا گیا تھا۔ 2009ء میں انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس کی جانب سے دنیا کے نامور کھلاڑیوں کی جو اولین فہرست ''ہال آف فیم'' جاری کی گئی تھی اس میں آپ کے نام کو نمایاں جگہ دی گئی تھی، کرکٹ کو جہاں آپ نے اور بہت کچھ دیا وہاں ''ریورس سوئیپ'' کا تحفہ بھی دیا جس کے آپ موجد ہیں مگر آپ نے ہمیشہ کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اسے اپنے چھوٹے بھائی مشتاق محمد کے کھاتے میں ڈالا آپ کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد اپنی بہترین کارکردگی کے لحاظ سے عالمی کرکٹ میں اعلیٰ مقام کے مالک تھے وہ قومی ٹیم کے طویل عرصے تک کیپٹن رہے۔
آپ کی کپتانی میں ٹیم نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں ریٹائرمنٹ کے بعد آپ قومی ٹیم کے کوچ مقرر ہوئے آپ کے بھائی صادق محمد بھی کرکٹ میں بہترین ریکارڈ رکھتے ہیں ایک وقت تھا جب آپ اور آپ کے تین بھائی ایک ساتھ پاکستان کے لیے کھیل رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انھوں نے سازشوں کے ذریعے نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کے بھائیوں کو بھی کرکٹ سے دور کر دیا مگر قومی ٹیم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور کافی عرصے تک قومی ٹیم ناکامیوں کے بھنور میں پھنسی رہی اور پھر اسے اس مشکل سے نکالنے میں آپ کے ہی بھائی مشتاق محمد نے ایک مسیحا کا کردار ادا کیا تھا۔
بد قسمتی سے ہماری کرکٹ اور ہاکی کی ٹیموں کو اب بھی مفاد پرستوں نے گھیرا ہوا ہے، اہل پلیئرز کی بجائے اپنی پسند اور سفارشی پلیئرز کو جگہ دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہاکی کی ٹیم تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور اب کرکٹ کا بھی ایسا ہی حشر ہوتا نظر آ رہا ہے، وزیراعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ کرکٹ کو تباہ ہونے سے بچائیں اور ہاکی ٹیم کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے موجودہ نا اہل انتظامیہ کو ہٹاکر قومی جذبے سے سرشار لوگوں کو موقع دیں تو قوم ان کی بہت شکر گزار ہوگی ان سے یہ بھی التماس ہے کہ حنیف محمد کی عظیم خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کو ان کے نام سے منسوب کر دیا جائے۔