اولمپک مقابلوں میں تمغے حاصل کرنے والے پاکستانی کھلاڑی

دو تمغوں کے علاوہ سونے ، چاندی اور کانسی کے سب تمغے ہاکی کے کھلاڑیوں نے جیتے


عبید اللہ عابد August 21, 2016
دو تمغوں کے علاوہ سونے ، چاندی اور کانسی کے سب تمغے ہاکی کے کھلاڑیوں نے جیتے ۔ فوٹو : فائل

CHITRAL/ MUZAFFARABAD/ PESHAWAR: قیام پاکستان کے بعد پہلی بار ہاکی ٹیم نے 1948ء میں اولمپکس میں شرکت کی جہاں پاکستانی نے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔1952ء کے اولمپک مقابلوں میں بھی قومی ہاکی ٹیم نے چوتھی پوزیشن حاصل کی،1956ء میں پہلی بار اولمپکس میں پاکستانی ٹیم وکٹری سٹینڈ پر آئی۔ میلبورن، آسٹریلیا میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں عبدالحمید حمیدی کی کپتانی میں ہاکی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔

یادرہے کہ فائنل میں بھارت کے خلاف ایک گول کی شکست ہوئی ، یوں پاکستان پہلی بار اولمپک چیمپئن بننے سے محروم ہوا۔ تاہم 1960ء کے روم اولمپکس میں عبدالحمید حمیدی ہی کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے فائنل میں بھارت کو ایک گول سے ہرا کر پہلی بار اولمپک چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔۔ پاکستان کی جانب سے یہ تاریخی گول نصیر بندہ نے کیا۔1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان اپنے اعزاز کا دفاع نہ کر سکا اور فائنل میں بھارت سے ایک صفر سے ہار کر اولمپکس میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔1968ء کے اولمپکس( میکسیکو) میں طارق عزیز کی قیادت میں کھیلنے والی پاکستانی ٹیم نے سیمی فائنل میں مغربی جرمنی کو شکست دے کر فائنل میں رسائی حاصل کی جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا سے ہوا جس میں پاکستان نے ایک کے مقابلے میں دو گول سے کامیابی حاصل کر کے دوسری مرتبہ اولمپک گولڈ میڈل جیت لیا۔



سن 1972ء کے میونخ اولمپکس کے فائنل میں پاکستانی ہاکی ٹیم مغربی جرمنی کے خلاف ہار کر اپنے اولمپک اعزاز سے محروم ہوئی۔ فائنل کے دوران پاکستانی ٹیم امپائرز کے فیصلوں سے ناخوش تھی اور اس نے اس کا اظہار میڈلز تقسیم کیے جانے کے وقت کیا جب شہناز شیخ نے میڈل اپنے جوتے میں وصول کیا۔ اس شدید ردعمل کے نتیجہ میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پاکستانی ٹیم پر پابندی عائد کر دی۔1976ء کے مانٹریال اولمپکس میں پہلی بار ہاکی کے مقابلے گھاس کے بجائے منصوعی ٹرف پر کھیلے گئے۔ پاکستان نے ان مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ سیمی فائنل میں پاکستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی لیکن تیسری پوزیشن کے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر وکٹری اسٹینڈ پر جگہ حاصل کی۔1980ء میں پاکستان نے دیگرممالک کی طرح ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کیا، یہ احتجاج افغانستان پر روس کے قبضے کے نتیجے میں ہوا۔

سن1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں منظور جونیئر کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے تیسری مرتبہ اولمپک چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔سیمی فائنل میں پاکستان نے آسٹریلیا کو حسن سردار کے گول کی بدولت شکست دی اور فائنل میں جگہ بنائی۔ فائنل میں پاکستان نے جرمنی کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی۔ فیصلہ کن گول کلیم اللہ نے کیا۔ 1992ء کے بارسلونا اولمپکس میں پاکستانی ٹیم نے شہباز احمد کی قیادت میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ سیمی فائنل میں پاکستان کو جرمنی نے دو، ایک سے شکست دی لیکن تیسری پوزیشن کے میچ میں پاکستان نے ہالینڈ کو تین کے مقابلے میں چار گول سے ہرا دیا۔ اس کے بعد اب تک پاکستانی ہاکی ٹیم کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

اولمپکس گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے زیادہ تر میڈلز ہاکی ہی کے کھیل ہی میں جیتے، صرف دو کھلاڑی ایسے تھے جن کا تعلق دیگر کھیلوں سے تھا۔ سیدحسین شاہ (باکسنگ)اور محمد بشیر) ریسلنگ)، دونوں کھلاڑیوں نے کانسی کے تمغے جیتے۔ گولڈ اور سلور میڈلز جیتنے والے سب کے سب ہاکی سٹارز تھے۔ ذیل میں سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے جیتنے والے سب کھلاڑیوں کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔

گولڈمیڈلسٹس
٭مشتاق احمد ، ہاکی کے سٹرائیکر، نے1960ء کے گرمائی اولمپکس(روم، اٹلی) میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ وہ 28 اگست1928ء کو امرتسر(بھارت) میں پیدا ہوئے اور 82برس کی عمر میں 23 اپریل2011ء کو لندن میں انتقال کرگئے۔
٭ مشتاق احمد نے، (ہاکی فارورڈ سٹار) 1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
٭بشیراحمد (ہاکی سٹار) نے بھی1960ء کے گرمائی اولمپکس( روم، اٹلی) میں سونے کا تمغہ حاصل کیا، وہ 23دسمبر1934ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے1962ء کی جکارتہ میں ہونے والی ایشیائی کھیلوں میں بھی سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

٭ صوبہ پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں پیدا ہونے والے اشتیاق احمد(ہاکی سٹار) نے 1984ء کے لاس اینجلس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
٭ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے نعیم اختر( ہاکی سٹار) نے بھی 1984ء کے لاس اینجلس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
٭ نور عالم( ہاکی سٹار) نے 1960ء کے گرمائی اولمپکس( روم، اٹلی) میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ انھوں نے 1956ء کے گرمائی اولمپکس میں بھی چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ وہ 1958ء اور1962ء کے ایشیائی کھیلوں کی فاتح پاکستانی ٹیم کا حصہ بھی تھے۔

٭ ناصر علی( ہاکی سٹار) سن 1981ء سے 1988ء تک فل بیک کی پوزیشن پر کھیلتے تھے۔1988ء کے سیول اولمپکس میں انھوں نے پاکستانی ٹیم کی کپتانی بھی کی۔ وہ 1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ 1982ء میں دہلی(بھارت) میں ہونے والے ورلڈکپ کی کامیاب ٹیم کا بھی وہ حصہ تھے۔


٭ سعیدانور( ہاکی سٹار) نے 1968ء میں میکسیکو سٹی میں ہونے والے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ انھوں نے1964اور 1972ء کے گرمائی اولمپکس مقابلوں میں سلور کے تمغے حاصل کئے۔ سعید انور14اکتوبر1943ء کو شیخوپورہ میں پیدا ہوئے ، ان کا 15 جولائی2004ء میں انتقال ہوا۔

٭خورشیدعالم( ہاکی سٹار) نے 1960ء کے گرمائی اولمپکس( روم، اٹلی) میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
٭ منظور حسین عاطف( ہاکی سٹار) نے 1960ء کے گرمائی اولمپکس( روم، اٹلی) میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ سن 1928ء میں گجرات میں پیدا ہونے والے ایم ایچ عاطف پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری کے طورپر خدمات بھی سرانجام دیتے رہے ہیں، ان کا 2008ء میں انتقال ہوا۔
٭ ڈاکٹر طارق عزیز( ہاکی سٹار) نے 1968ء کے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ اس سے قبل 1964ء کے ٹوکیو گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ ڈاکٹرطارق عزیز پانچ فروری 1938ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔انھوں نے 1966ء میں فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ، بعدازاں وہ اسی یونیورسٹی میں تدریس کی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے، وہ سن 1997ء میں یہاں سے پروفیسر آف وٹرنری میڈیسن کے طورپر ریٹائر ہوئے۔

٭ نصیر بندا( ہاکی سٹار) نے 1956ء کے گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا اور پھر1960ء کے گرمائی اولمپکس میں گولڈمیڈل جیتا۔ اسی طرح 1962ء میں ایشیائی کھیلوں( منعقدہ جکارتہ، انڈونیشیا) میں بھی انھوں نے سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ پندرہ مئی 1932ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والے اس کھلاڑی کو حکومت پاکستان نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔
٭جہانگیربٹ ( ہاکی سٹار) نے 1968ء میں میکسیکو سٹی میں ہونے والے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتا جبکہ 1972ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ میونخ میں چاندی کا تمغہ جیتا۔
٭ منیر ڈار ( ہاکی سٹار) اس قومی ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1960ء میں روم میں ہونے والے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتاتھا۔ تب پاکستان نے پہلی بار اولمپکس کے عالمی مقابلوں میں فتح حاصل کی تھی۔ ڈار نے 1956ء اور1964ء کے گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیاتھا۔28مارچ1935ء کو پیدا ہونے والے منیر ڈار76برس کی عمر میں یکم جون2011ء کو انتقال کرگئے۔

٭تنویرڈار( ہاکی سٹار) نے 1968ء میں میکسیکو سٹی میں ہونے والے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتاتھا۔ چار جون 1947ء کو پیدا ہونے والے تنویرڈار12فروری 1998ء کو انتقال کرگئے۔
٭ توقیر ڈار( ہاکی سٹار) اس ہاکی ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1984ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ لاس اینجلس میں کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ اولمپئین منیراحمد ڈار کے صاحبزادے تنویرڈار کے بھتیجے تھے۔ وہ خواجہ ذکاؤالدین کے داماد بھی تھے جو 1984ء کے گرمائی اولمپکس میں ٹیم کے ہیڈکوچ بھی تھے۔
٭رونی گارڈنر (ہاکی سٹار) اس قومی ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1960ء کے گرمائی اولمپکس(منعقدہ روم، اٹلی) میں حصہ لیا اور بھارت کو شکست دیتے ہوئے سنہری تمغہ حاصل کیاتھا۔
٭ گلریزاختر(ہاکی سٹار) نے 1968ء میں میکسیکو میں منعقدہ گرمائی اولمپکس میں سنہری تمغہ حاصل کیاتھا۔ اس کے بعد وہ پاکستان کسٹمز میں ملازمت کرتے رہے۔

٭ عبدالحمید( ہاکی سٹار) پہلے کھلاڑی تھے جنھوں نے سنہری تمغہ حاصل کیاتھا۔ انھوں نے 1956ء کے گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جبکہ 1960ء کے اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
٭خالدحمید( ہاکی سٹار) نے 1984ء کے اولمپکس منعقدہ لاس اینجلس میں سونے کا تمغہ حاصل کیاتھا۔ وہ 1980ء میں قومی ٹیم کا حصہ بنے تھے۔ ان کی خدما ت کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ 1962ء میں پیدا ہونے والے خالد حمید پی آئی اے کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں، ان دنوں پی آئی اے کے دوحہ( قطر) آفس میں تعینات ہیں۔
٭ منظورحسین( ہاکی سٹار)1975ء سے 1984ء تک قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ انھوں نے 1976ء کے اولمپکس میں کانسی اور 1984ء کے اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیاتھا۔ وہ اس ٹیم کا حصہ رہے جو دو ورلڈکپ مقابلوں میں رنر اپ رہی جبکہ 1982ء کے ورلڈکپ میں انھوں نے ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ 28اکتوبر 1958ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے منظور حسین اور ان کے دوبھائیوں مقصود حسین اور محمود حسین نے1984ء کی چمپئینز ٹرافی منعقدہ کراچی میں پاکستان کی نمائندگی کی اور عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

٭ ذاکرحسین(ہاکی سٹار) نے 1968ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ میکسیکو سٹی میں سونے کا تمغہ حاصل کیا، وہ 1956ء کے اولمپکس منعقدہ ملبورن، آسٹریلیا میں چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔


٭ انواراحمد خان( ہاکی سٹار) نے1956ء اور1964ء کے اولمپک مقابلوں میں ایک سونے اور دو چاندی کے تمغے حاصل کیے۔ اسی طرح انھوں نے1958 اور1962ء کے ایشیائی مقابلوں میں بھی سنہری تمغے جیتے۔ انواراحمد خان پہلے بھارت میں کھیلا کرتے تھے لیکن 1950-51ء میں والدین کے ساتھ پاکستان آئے اور یہاں1954ء میں قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ وہ 1966ء میں ریٹائر ہوئے۔ انواراحمد خان 1993ء تک پاکستان کسٹمز میں رہے ، وہ یہاں 1955ء تک ملازمت کرتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں سینئر اور جونئیر ٹیموں کی سلیکشن کمیٹی کے مینیجر بھی رہے۔ سن 1974ء کے ایشیائی مقابلوں میں سونے کا تمغہ جبکہ 1975ء میں ورلڈکپ کے مقابلوں میں ٹیم کو چاندی کا تمغہ دلانے میں ان کا کردار اہم رہا۔ اسی طرح ان کی منتخب کی ہوئی ٹیم نے 1986ء کی ایشیائی گیمز میں چاندی کا تمغہ بھی حاصل کیا۔ ان کی تیار کردہ جونئیر ٹیم نے 1982ء کے ورلڈکپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 24ستمبر1933ء کو بھوپال(بھارت) میں پیدا ہونے والے انوخان 80سال کی عمر میں 2مئی2014کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
٭حنیف خان( ہاکی سٹار) نے 1984ء کے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ اسی طرح 1976ء کے مونٹریال اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 1959ء میں پیدا ہونے والے حنیف خان نے2014ء میں صدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کیا۔

٭ کلیم اللہ خان( ہاکی سٹار) 1958ء میں بہاولپور میں پیدا ہوئے، ان کے بھائی سمیع اللہ خان بھی ہاکی سٹار رہے ہیں۔ فارورڈ کے طورپر کھیلنے والے کلیم اللہ خان 1979ء سے 1986ء تک ٹیم کا حصہ رہے۔ انھوں نے 1984ء کے اولمپکس میں سنہری تمغہ جیتا۔ یہ کلیم اللہ خان ہی تھے جنھوں نے اولمپکس کے فائنل میں اضافی وقت میں کامیابی دلانے والا گول کیا۔
٭شاہدعلی خان( ہاکی سٹار) گول کیپر کے طورپر کھیلتے رہے۔ 1984ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ لاس اینجلس میں سونے کا تمغہ حاصل کیاتھا۔ بعدازاں وہ گول کیپنگ کے شعبہ میں کوچنگ بھی کرتے رہے۔ انھوں نے بارسلونا سپین میں کانسی کا تمغہ بھی حاصل کیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں ، 1982ء میں انھوں نے ورلڈکپ کے فائنل میچ میں پینلٹی سٹروک پر گول بچایا تھا۔ انھیں پاکستان کا بہترین گول کیپر مانا جاتا ہے۔
٭حبیب علی کڈی1950ء سے 1964ء تک پاکستان کی ہاکی ٹیم کا حصہ رہے۔ انھوں نے 1952ء ، 1956ء اور1960ء کے اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا۔1956ء میں چاندی اور 1960ء کے اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

٭ ایاز محمود نے1984ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ لاس اینجلس میں سونے کا تمغہ جیتا۔
٭ خالدمحمود( ہاکی سٹار) نے 1968ء میں میکسیکو سٹی میں ہونے والے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتا۔ وہ اس سے پہلے 1964ء میں ٹوکیو میں ہونے والے گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والی قومی ٹیم کا حصہ بھی تھے۔
٭ محمد اسد ملک( ہاکی سٹار) نے 1964ء کے گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ 1968ء میں ہونے والے گرمائی اولمپکس( میکسیکو سٹی) میں سونے کا تمغہ جیتا۔ اسی طرح 1972ء میں بھی انھوں نے میونخ گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
٭ سید غلام محی الدین( ہاکی سٹار) 1984ء کے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کرنے والی حصہ لینے والی قومی ٹیم کے رکن تھے۔
٭ بہاولپور کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مطیع اللہ (ہاکی سٹار) نے 1960ء کے گرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا، انھوں نے1956ء اور 1964ء کے اولمپکس مقابلوں میں چاندی کے تمغے جیتے۔ بہاولپور میں قائم بین الاقوامی ہاکی سٹیڈیم کو مطیع اللہ کے نام سے موسوم کردیاگیا۔

٭ طارق نیازی 1961ء سے 1969ء تک قومی ہاکی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے کھیلتے رہے۔ انھیں1964ء کی ٹوکیو گیمز میں بھی کھیلنے کا موقع ملا اور چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔1968ء میں میکسیکو سٹی میں منعقدہ اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتا۔ اسی طرح انھوں نے ایشیائی کھیلوں میں بھی حصہ لیا۔ میانوالی سٹیڈیم کو طارق نیازی کے نام سے موسوم کیاگیا۔ پندرہ مارچ1940ء کو پیدا ہونے والے طارق نیازی 20 اپریل2008ء کو انتقال کرگئے۔
٭ لالہ عبدالرشید ( ہاکی سٹار) اس قومی ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1960ء میں ہونے والے اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتا۔ وہ اس پورے ٹورنامنٹ میں گول کیپر کے طورپر کھیلتے رہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس پورے ٹورنامنٹ میں صرف ایک ہی گول پاکستان کے خلاف ہوا۔ یادرہے کہ یہ پہلا ٹورنامنٹ تھا جس میں پاکستان نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔70ء کی دہائی کے اواخر میں انھوں نے ٹیم کوچ کے طورپر ذمہ داریاں اداکیں۔ وہ ایشیائی ہاکی فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ دنیائے ہاکی میں انھیں نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یکم جون 1922ء کو پیدا ہونے والے لالہ عبدالرشید دو مارچ 1989ء کو ستر برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

٭چودھری غلام رسول(ہاکی سٹار)بنیادی طورپر ایجوکیشنسٹ تھے، انھوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی کی، وہ ایچی سن کالج لاہور میں لیکچرر رہے تاہم جلد ہی ری ہیبلیٹیشن ڈیپارٹمنٹ میں' ڈپٹی سیٹلمنٹ کمشنر' کے طورپر خدمات سرانجام دینے لگے، پھر وہ کنساس یونیورسٹی ،امریکہ میں داخل ہوگئے اور وہاں سے پی ایچ ڈی کی۔ واپس آئے تو ایچی سن کالج کے پرنسپل بنے، بعد ازاں وہ تین سال تک فیصل آباد کے وائس چانسلر بھی رہے۔ وہ مختلف سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے اور مختلف بین الاقوامی کانفرنسز میں پاکستان کے نمائندہ کے طورپر شریک ہوئے۔
ضلع فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے چودھری غلام رسول 1956ء سے1963ء تک وہ قومی ہاکی ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ ملبورن اولمپکس(1956ء) میں چاندی اور 1960ء کے روم اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتا۔ 1962ء میں جکارتہ ، انڈونیشیا میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں انھوں نے قومی ٹیم کی قیادت کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے پہلے سیکرٹری اور پھر صدر رہے۔ وہ سلیکشن کمیٹی کے چئیر مین بھی رہے۔ یکم مئی1931ء کو پیدا ہونے والے چودھری غلام رسول 1991ء میں انتقال ہوگئے۔
٭ قاضی صلاح الدین(ہاکی سٹار) 1967ء سے1969ء تک قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ اس مختصر کیرئیر کے دوران میں وہ 1968ء کے گرمائی اولمپکس میں شریک ہوئے جس میں پاکستان نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ یادرہے کہ میکسیکو سٹی میں ہونے والے اولمپکس کے فائنل میں پاکستان نے آسٹریلیا کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے شکست دی۔ صلاح الدین خیرپختونخوا خواتین ہاکی ٹیم کے کوچ بھی رہے ہیں۔



٭ حسن سردار پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑی اور کپتان رہے ہیں۔انھوں نے1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ان جیسا سنٹرفارورڈ پاکستان میں کم ہی پیدا ہوا۔ ان دنوں وہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے چیف سلیکٹر کے طورپر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
٭ وہاڑی ( صوبہ پنجاب ) سے تعلق رکھنے والے سلیم شیروانی( ہاکی سٹار) نے 1984ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ لاس اینجلس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
٭ عبدالوحیدخان(ہاکی سٹار) اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1960ء کے اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ وہ سنٹرفارورڈ کے طورپر کھیلتے رہے، فائنل میچ میں واحد گول انھوں نے ہی کیاتھا۔
٭ خواجہ ذکاؤالدین(ہاکی سٹار)1958سے1966ء تک ٹیم میں فارورڈ کے طورپر کھیلتے رہے۔ روم اولمپکس منعقدہ 1960ء میں گولڈمیڈل حاصل کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کوچ، چیف سلیکٹر، اور مینجر کے طورپر کام کرتے رہے۔ وہ سابق اولمپئین توقیر ڈار( گولڈمیڈلسٹ) کے سسر ہیں۔
٭ قاسم ضیاء( ہاکی سٹار) نے1980 ء سے 1987ء تک قومی ہاکی ٹیم میں بطور فل بیک کھیلتے رہے ۔ اس عرصہ میں انھوں نے پاکستان کی ٹیم نے1981 ء کی چمپئنز ٹرافی، 1982 ء کا عالمی کپ اور 1984 ء کے اولمپکس گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیے۔ اس کے علاوہ قاسم ضیاء کے پاس ایشین گیمز کا بھی گولڈ میڈل موجود ہے۔
٭٭٭
چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والے
٭ محمد عبدالرشید( ہاکی سٹار) قومی ٹیم میں ہاف بیک کے طورپر کھیلتے رہے۔ راولپنڈی میں 14اپریل 1941کو پیدا ہونے والے محمد عبدالرشید نے 1964ء کے گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ انھوں نے ٹیم میں حبیب کیڈی کی جگہ پُر کی تھی۔ 1962ء میں جب کینیا کے خلاف ہوم سیریز میں انھیں ٹیم میں شامل کیا گیا تو ہرکوئی حیران ہوا تاہم انھوں نے سیریز میں اپنے بہترین کھیل کے سبب اس فیصلے کو درست ثابت کیا۔ انھوں نے لیفٹ ہاف کے طورپر شاندار کھیل پیش کیا حالانکہ ان کی اصل پوزیشن رائٹ ہاف تھی۔
٭ اختر رسول(ہاکی سٹار) نے 1978ء اور پھر 1982ء میں ہاکی ورلڈکپ میں گولڈمیڈل حاصل کیا۔ وہ سنٹرہاف کے طورپر کھیلتے تھے، ان جیسا سنٹرہاف پاکستانی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملا۔13جنوری 1954ء کو فیصل آباد میں پیدا ہونے والے اختر رسول 1972ء کے میونخ اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ 1976ء میں مونٹریال اولمپکس میں کانسی کا۔انھوں نے 1974ء میں تہران میں ہونے والی ایشیائی گیمز میں سنہری تمغہ جیتا۔ اختررسول نے چار ورلڈکپ ٹورنامنٹس میں شرکت کی، 1971ء (بارسلونا)، 1978ء (بیونس آئرس)اور1982ء(بمبئی) میں گولڈمیڈل جیتے جبکہ 1975ء (کوالالمپور)کے ورلڈکپ میں سلورمیڈل حاصل کیا۔

٭ عبدالحمید دوم(ہاکی سٹار) نے 1964ء کے گرمائی اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
٭ اختر حسین(ہاکی سٹار) نے 1948ء کے گرمائی اولمپکس(لندن) میں بھارت کی طرف سے شرکت کی اور سونے کا تمغہ حاصل کیا جبکہ 1956ء کے گرمائی اولمپکس(ملبورن) میں پاکستان کی طرف سے چاندی کا تمغہ جیتا۔ وہ دنیا کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے دو مختلف ممالک کی طرف سے اولمپکس مقابلوں میں شرکت کی اور تمغے حاصل کی۔23اگست 1926ء کو پیدا ہونے والے اخترحسین 9نومبر1987ء کو انتقال کرگئے۔
٭ لطیف الرحمن(ہاکی سٹار) نے 1948ء کے گرمائی اولمپکس میں بھارت کے لئے سونے کا جبکہ 1956ء کے گرمائی اولمپکس میں پاکستان کے لئے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ وہ دنیا کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے دو مختلف ممالک کی طرف سے اولمپکس مقابلوں میں شرکت کی اور تمغے حاصل کی۔
٭ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے شہناز شیخ(ہاکی سٹار) 1969ء سے 1978ء تک قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ انھوں نے دو اولمپکس میں شرکت کی۔ میونخ اولمپکس(1972ء) میں چاندی جبکہ مونٹریال اولمپکس(1976ء) میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ انھوں نے تین ورلڈکپ ٹورنامنٹس، تین ایشیائی گیمز اور ایک بار ایشیا کپ چیمپئنز ٹرافی میں بھی شرکت کی۔ پاکستان نے 1971ء اور1978ء کے ورلڈکپ جیتے جبکہ 1975ء کے ورلڈکپ میں دوسرے نمبر پر رہا۔ تینوں ایشیائی گیمز میں پاکستان ہاکی ٹیم فاتح رہی جبکہ ایشیا کپ میں بھی فتح حاصل کی۔
٭محمد زاہد شیخ (ہاکی سٹار) 1969ء سے 1976ء تک قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ انھوں نے میونخ اولمپکس میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ دوبار ایشیائی کھیلوں(1970میں بنکاک اور 1974ء میں تہران) میں شرکت کی اور دونوں بار سونے کا تمغہ جیتا۔ زاہدشیخ شہنازشیخ اورطارق شیخ کے چچا ہیں۔

٭ سلیم شیروانی(ہاکی سٹار) نے 1972ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ میونخ(جرمنی) میں چاندی اور 1976ء کے گرمائی اولمپکس منعقدہ( مونٹریال، کینیڈا) میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ انھوں نے 1970 اور1974ء کی ایشیائی گیمز میں بھی حصہ لیا جن میں پاکستان فاتح رہا۔
٭ اصلاح الدین صدیقی(ہاکی سٹار) 1967ء سے 1978ء تک قومی ٹیم کا حصہ رہے، انھوں نے میونخ اولمپکس(1972ء) میں چاندی جبکہ 1976ء کے اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ وہ 1971ء کا ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے جبکہ ان کی قیادت میں پاکستان 1975ء اور 1978ء کے ورلڈکپ ٹورنامنٹس میں دوسری پوزیشن پر رہا جبکہ چیمپئینز ٹرافی اور ایشیائی گیمز میں فاتح رہا۔
٭ منورالزماں(ہاکی سٹار) نے دو اولمپکس گیمز میں حصہ لیا، 1972ء کے میونخ اولمپکس میں چاندی جبکہ 1976ء کے مونٹریال اولمپکس میںکا نسی کا تمغہ حاصل کیا۔ انھوں نے 1974ء میں تہران میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا اور سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ وہ ایک اعلیٰ سطحی بنک افسر بھی رہے۔ دوجنوری1950ء کو پیدا ہونے والے منور الزماں 1994ء میں ویٹرنزورلڈکپ کے لئے پریکٹس کررہے تھے کہ دل کا دورہ پڑا اور خالق حقیقی سے جاملے۔ 1997ء میں حکومت نے انھیں بعدازمرگ پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔
٭٭٭
کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے
٭ منصور احمد ( ہاکی سٹار) نے1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ وہ 1986ء سے 2000ء تک ٹیم میں گول کیپر کے طورپر کھیلتے رہے۔ مجموعی طورپرانھوں نے تین اولمپک گیمز میں حصہ لیا، اسی طرح مسلسل تین ورلڈکپ مقابلوں میں بھی شریک ہوئے، وہ 1994ء کے ورلڈکپ میں فاتح ٹیم کا حصہ بھی تھے۔ انھوں نے دس چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹس میں حصہ لیا، 1994ء میں سونے کا تمغہ ملا۔ تین ایشیائی گیمز میں حصہ لیا اور 1990ء (بیجنگ، چین)میں سونے کا تمغہ جیتا۔ مجموعی طورپر انھوں نے ہاکی کے بین الاقوامی مقابلوں میں 12سونے،12چاندی اور 8کانسی کے تمغے جیتے۔1994ء میں انھیں دنیا کا بہترین گول کیپر تسلیم کیاگیا۔ انھیں حکومت کی طرف صدارتی ایوارڈ اور پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیاگیا۔
٭ محمد اخلاق احمد ( ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔

٭ شہبازاحمد ( ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ انھیں 'ہاکی کا میرا ڈونا' کہاجاتاتھا۔ شہباز احمد کو ہاکی کی تاریخ کے بہترین فارورڈ کے طورپر تسلیم کیاجاتاہے۔1994ء کا ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے اور اس فتح میں شہباز کا کردار کلیدی تھا۔ وہ 1990 ء اور 1994ء ، دونوں ورلڈکپ ٹورنامنٹس میں بہترین کھلاڑی قرارپائے۔ مسلسل دو عالمی ٹورنامنٹس میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے واحد کھلاڑی شہباز احمد ہی ہیں۔
٭ آصف باجوہ ( ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ وہ 1994ء (سڈنی) میں ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔1994ء کی ایشیائی گیمز(ہیروشیما) میں بھی کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔1994ء میں ہونے والی چیمپئینز ٹرافی منعقدہ لاہور بھی کھیلے، پاکستانی ٹیم نے یہ ٹرافی جیتی۔ اگلے سال برلن میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان میں تیسری پوزیشن حاصل کی، یوں کانسی کا تمغہ ملا۔
٭ خالدبشیر( ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
٭ محمد بشیر(ریسلر) نے 1960ء کے روم اولمپکس میں، فری سٹائل ریسلنگ مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ اس طرح اولمپکس کی تاریخ میں محمد بشیر واحد ریسلر ہیں جنھوں نے پاکستان کے لئے کوئی بھی تمغہ جیتا۔ انھوں نے کامن ویلتھ گیمز میں سونے کے تین تمغے جبکہ ایشیائی گیمز میں چار تمغے حاصل کیے۔ ایک سونے ، دو چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ۔ حکومت نے انھیں 1962ء میں تمغہ امتیاز جبکہ 1968ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔
٭ ارشد علی چودھری(ہاکی سٹار) 1971ء سے 1976ء تک پاکستان کی طرف سے ہاکی کھیلتے رہے۔ سن 1974ء میں ہونے والی ایشیائی گیمز منعقدہ تہران میں سونے کا تمغہ جیتا،1975ء میں کوالالمپور، ملائشیامیں ہونے والے تیسرے ورلڈ ہاکی کپ میں چاندی کا تمغہ جیتا، پھر 1976ء کے مونٹریال اولمپکس میں شرکت کی اور کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔

٭ وسیم فیروز( ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
٭مصدق حسین( ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
٭ محمد قمر ابراہیم( ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
٭ خواجہ جنید(ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
٭ محمد خالد(ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
٭فرحت حسن خان(ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ آج کل وہ پاکستان کسٹمز میں ملازمت کررہے ہیں جبکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی سلیکشن کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔

٭ سمیع اللہ خان( ہاکی سٹار) نے 1976ء کے مونٹریال اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ ان کے چچا مطیع اللہ نے1960ء کے روم اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتاتھا جبکہ ان کے بھائی کلیم اللہ خان بھی پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے۔ سمیع اللہ خان 1970ء ،1974ء اور1978ء میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں شریک تھے، ان تینوں مقابلوں میں پاکستان نے سونے کا تمغہ جیتا۔ سمیع اللہ خان اپنی تیز رفتاری میں بہت مشہورتھے۔ انھیں 'فلائنگ ہارس' کہاجاتاتھا۔
٭ مجاہد علی رانا(ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
٭ انجم سعید(ہاکی سٹار) نے 1992ء کے گرمائی اولمپکس( بارسلونا) میں کانسی کا تمغہ جیتا۔

٭ کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے سید حسین شاہ باکسر تھے، انھوں نے1988ء کے گرمائی اولمپکس میں کانسی کا میڈل جیتا۔ اولمپکس کی تاریخ میں حسین شاہ دوسرے کھلاڑی ہیں جنھوں نے پاکستانی کی طرف سے ہاکی کے علاوہ کسی بھی دوسرے کھیل میں تمغہ جیتا۔ ان سے پہلے محمد بشیر(ریسلر) نے 1960ء کے روم اولمپکس میں، فری سٹائل ریسلنگ مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔
٭طاہر زمان 1992ء میں ہونے والے اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم کا حصہ تھے، اس میں انھوں نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ بعد میں 2002 اولمپکس میں حصہ لینے والی پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان بھی تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں