کارکردگی گزشتہ سے پیوستہ
’’قومی ایکشن پلان پر سنجیدگی اختیار نہ کی گئی تو امن کا قیام خواب ہی رہ جائے گا‘‘
گزشتہ ہفتے بات یہاں ختم کی تھی کہ ہماری حکومت (ساری حکومتی مشینری) مہمانوں کی میزبانی میں اس قدر مصروف تھی کہ کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ مہمانوں کے اعداد و شمار کا کوئی ریکارڈ ہی رکھ لیں۔ ایک عام گھر میں بھی کچھ دن کے لیے مہمان آتے ہیں تو یہ معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کتنی تعداد میں اور کتنے دن کے لیے آرہے ہیں تاکہ ان کی مہمان داری میں اپنی کچھ ضروریات کو ملتوی کردیا جائے اور کچھ میں کمی کی جائے تاکہ مہمان داری میں کوئی فرق نہ آئے اور اپنی عزت کا بھرم بھی قائم رہے۔ مہمانوں کی رہائش کا خاطر خواہ بندوبست کیا جاتا ہے۔
مگر اتنی بڑی تعداد میں ان مہمانوں کے لیے یہ سب کچھ بھی نہ ہوسکا، شاید مہمانوں کی خاطر تواضع میں کچھ اونچ نیچ ہوگئی اس لیے مہمانوں نے بھی اپنے میزبانوں پر بوجھ بننا پسند نہ کیا اور وہ عارضی مہمان خانوں سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئے پورے ملک میں تو خیر کیا کیونکہ وہاں تو بڑے صاحب عقل و فہم اور منصوبہ ساز رہتے ہیں البتہ ان کی زیادہ تعداد کراچی جیسے مہمان نواز شہر جہاں ان کے بھائی بندے پہلے ہی خاصی تعداد میں رہائش پذیر تھے کے ساتھ گھل مل کر آباد ہوگئے، انھوں نے میزبانوں کو تکلیف دینے ان پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے ذرایع آمدنی خود پیدا کر لیے، حیرت یہ ہے کہ جس شہر میں پڑھے لکھے باہنر جوان بے روزگار پھر رہے ہوں وہاں میزبانوں میں ان لوگوں کی مدارات میں پیش پیش افراد بھی خاصی تعداد میں ہر شعبے میں موجود تھے جو فراہمی روزگار میں ان کے لیے بے حد فعال تھے۔
ہر مارکیٹ کے آگے پتھاروں کی کثرت حتیٰ کہ چلنے کی راہداریوں میں بھی ٹھیلے لگ گئے کوئی مارکیٹ کوئی بازار ایسا نہ بچا جہاں سکون سے خریداری ممکن ہو پھر کئی ایسے پیشے وجود میں آگئے جن کا اس شہر قائد میں کوئی تصور نہ تھا (اگر ان پیشوں کا ذکر کیا جائے تو کالم بہت طویل ہوجائے گا) کسی بھی ملازمت یا روزگار اختیار کرنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہوتا ہے لہٰذا اس کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا گیا صرف کراچی ہی میں سب کارڈز بنتے تو ہوسکتا تھا کہ کسی کو اعتراض ہوتا اور پھر اس جعل سازی کا پردہ بھی جلد ہی چاک ہوجاتا چنانچہ نادرا کے مخلصین نے یہ بندوبست دیگر کئی شہروں میں بھی کیا۔ یوں بے شمار افراد کے شناختی کارڈ بن گئے۔ جب قومی شناختی کارڈ موجود ہو تو پھر آپ تو اسی ملک کے باشندے ہوئے تو پاسپورٹ بننا کیا مشکل، لیجیے وہ بھی بننا شروع ہوگئے کیونکہ پاسپورٹ دفاتر میں بھی ہمدردوں اور خیر خواہوں کی کمی نہ تھی۔
پاکستان میں ان پڑوسی پاکستانیوں کو اگر حسب خواہش یا حسب مشن کام نہ ملا تو وہ اپنا کام دیگر ممالک میں کرنے کے لیے پاکستانی پاسپورٹ پر جاکر باآسانی گھوم پھر کر آگئے۔ کراچی کی بگڑی صورتحال پر جو زیر لب مسکراتے اور جس کو چاہتے ذمے دار ٹھہراتے مگر حکومت وقت کا سر نہ اقرار میں نہ انکار میں جنبش کرتا۔ ان بڑے ممالک میں بھی بطور تجربہ ایسے ہی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے تو وہ بلبلا اٹھے (شاید ہماری تکلیف کا انھیں اب کچھ احساس ہوا ہو) کچھ عرصہ قبل ایک اطلاع ذرایع ابلاغ کے ذریعے یہ بھی آئی تھی کہ وفاقی دارالحکومت کے ایئرپورٹ سے تقریباً 9 افغانی پاکستانی پاسپورٹ پر برطانیہ بھی پہنچ گئے۔ خیر یہ تو ہماری وفاقی حکومت کی ادنیٰ سی مثال ہے۔
مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے کچھ دانشوروں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ جو ملک کے طول و عرض خاص کر کراچی، پنجاب کے کئی شہروں میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے وہ ان معزز مہمانوں کی آمد سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور رکھتا ہے جو رفتہ رفتہ اتنا پھیلا کہ ہماری افواج کو سنجیدگی سے اس پر سوچنا پڑا۔ وہ کمر کس کے اس دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ بڑی کامیابی کے باوجود مکمل کامیابی کا حصول اب تک ممکن نہ ہوسکا (اس کی بڑی وجہ ہر شعبہ زندگی میں دہشت گردوں کے ہمدردوں، سہولت کاروں کی موجودگی ہے) کیونکہ مسلح افواج قربانیاں دیتی رہی اور حکومت محض اقتدار کے مزے لوٹنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کھیل میں مصروف رہی۔ اس صورتحال پر ہمارے دانشوروں نے شور مچانا شروع کیا کہ ہمارے 60 فیصد عوام فاقوں سے مر رہے ہیں لہٰذا اب ہم مزید مہمان نوازی نہیں کرسکتے لہٰذا مہمانوں کو بھی کچھ خیال ہونا چاہیے وہ از خود اپنے وطن واپس چلے جائیں۔
مگر جذبہ مہمان نوازی سے سرشار کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ ''کون مہمان، کیسا مہمان یہ تو ہمارے اپنے بھائی ہیں پورے ملک پر ان کا حق ہے اور اگر کہیں سے ان کو بے دخل کیا گیا تو یہ کے پی کے میں آرام سے رہ سکتے ہیں کہ یہ ان کا اپنا علاقہ ہے۔'' ایک صاحب نے تو یہ تک لکھا ہے کہ ان کی وجہ سے ہمیں (پاکستان کو) سستا لیبر ملا انھوں نے ہماری ملکی معیشت کو سہارا دیا ( ملکی معیشت کا بیڑا غرق نہیں کیا) یہ بوجھ کیسے ہوگئے؟''
اس کے برعکس ایسے لکھنے والے بھی ہیں جنھوں نے لکھا کہ میں نے محب وطن چند ہزار (یا لاکھ) پاکستانیوں کے لیے کراچی کی دیواروں پر ''بہاری نہ کھپے'' تو لکھا دیکھا مگر ''افغانی نہ کھپے'' کہیں لکھا نہ دیکھا بھلا یہ لکھا کیسے دیکھتے جب ''وہ اپنے ہیں، ملک پر ان کا پورا حق ہے'' غرض جتنے منہ اتنی باتیں، بلوچستان کے وزیر داخلہ اکبر بگٹی نے فرمایا کہ ''بہتر ہوگا افغانی شرافت سے خود واپس چلے جائیں ورنہ ہم انھیں دھکے دے کر نکال دیں گے'' اس مسئلے پر خاک ڈال ہی دی گئی تھی کہ بلوچستان کی سرزمین پر ڈرون حملہ ہوا، اس حملے پر اظہار ناراضگی، تحفظات وغیرہ پر بات آگے بڑھی بھی نہ تھی کہ کچھ وقفے بعد ہی کوئٹہ میں وکلا اور اسپتال کے شعبہ حادثات میں خودکش دھماکے نے تقریباً 60 وکلا کی جان لے لی اور 70 سے اوپر افراد زخمی ہوگئے۔
اس کے بعد ضرب عضب کو جلد ازجلد کامیابی سے ہمکنار کرنے کا عزم رکھنے والے فوجی جوانوں اور جرنیلوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا انھوں نے واضح بیان دیا کہ ''قومی ایکشن پلان پر سنجیدگی اختیار نہ کی گئی تو امن کا قیام خواب ہی رہ جائے گا'' مگر لگتا ہے کہ حکومت کے کان پر جوں ہی نہیں رینگ رہی بلکہ حالت یہ ہے کہ ''وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے'' قومی ایکشن پلان پر ایک مزید نگراں کمیٹی بنادی گئی جو وہی کام کرے گی جو ہمیشہ سے اور سب کمیٹیاں کرتی رہی ہیں۔ حکومت کے سر پر ایک نہیں کئی تلواریں بیک وقت لٹکی ہوئی ہیں اور وزرائے حکومت کے بیانات تک میں یکسانیت نہیں، رہے حکمران تو انھوں نے بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے چپ کا روزہ رکھ لیا ہے، ''واں ایک خموشی تیری سب کے جواب میں'' ۔
جب میں نے اس موضوع پر لکھنا شروع کیا تھا تو وفاقی، صوبائی حکومتوں، قومی و نجی اداروں اور اہم شخصیات کی کارکردگی پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا مگر دو کالم محض حکومت کے گن گانے میں صرف ہوگئے۔ لگتا ہے کہ اس موضوع پر پوری کتاب لکھنی پڑے گی۔ کالم سے کام نہیں چلے گا۔