قاہرہ سے کوئٹہ تک
سرمایہ دار اور مزدور کی تقسیم ایک خونخوار جبر ہے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جب کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
DERA GHAZI KHAN:
دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا مصری شہر اور دارالحکومت قاہرہ ایک ہفتے سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ التحریر اسکوائر پر آزادی کی خاطر کل بھی عوام نبرد آزما تھے اور آج بھی ہیں۔ ایسے تجزیے بھی سامنے آرہے ہیں کہ اسماعیل کے ذریعے محمد مرسی کو سند صدارت پر امریکا نے ہی براجمان کیا۔ اب سوشلسٹ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تحریک کو دیکھ کر وہ البرادعی یا عمرو بن موسیٰ کو لیڈر شپ میں لانے کے لیے محمد مرسی کی مخالفت کر رہا ہے۔
مگر بائیں بازو کے سوشلسٹ نوجوان اور ناصری گروپ البرادعی اور عمرو بن موسیٰ کی قیادت قبول کرنے پر تیار نہیں۔ مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے قاہرہ میں ملکی عدلیہ کے اعلیٰ ترین نمایندوں سے ملاقات کے بعد اپنے اختیارات میں اضافے کا باعث بننے والا صدارتی حکم نامہ واپس لینے سے انکار کر دیا۔ صدارتی حکم کے خلاف پورے ملک میں گزشتہ دنوں مظاہرے ہوئے۔ دارالحکومت قاہرہ میں سب سے بڑے مظاہرے ہوئے جبکہ دارالحکومت میں ہی ہونے والا مظاہرہ دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ ذرایع ابلاغ کے مطابق صدر مرسی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے ملاقات کی اور مصر میں ہونے والے احتجاج اور بحران کے تناظر میں گفتگو کی۔
صدر مرسی نے ججوں سے ملاقات میں اپنے اختیارات میں اضافے کے حوالے سے ان کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی۔ متنازعہ حکم نامے کے تحت صدارتی فیصلوں کو محدود عرصے تک کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ مرسی کے ترجمان یاسر علی کے بقول صدارتی حکم نامے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ لیکن انھوں نے ججوں کو یقین دلایا ہے کہ یہ حکم عارضی ہے اور اس کا دائرہ اختیار خود مختاری کے معاملات تک محدود ہے جو کئی اداروں کی حفاظت کے لیے ہے۔ صدر مرسی کے حکم نامے کے خلاف مظاہروں میں اب تک دو افراد شہید اور 450 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق صدر مرسی کے حکم نامے کے خلاف منگل کو پورے ملک میں مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرے میں ہزاروں وکلاء نے بھی شرکت کی، قاہرہ کے التحریر چوک میں ساتویں روز بھی مرسی کے خلاف ہزاروں افراد نے شدید مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکم نامے کی منسوخی تک وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج حضرات بھی احتجاج میں شامل ہیں اور سخت برہم ہیں۔ قاہرہ میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جبکہ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اسکندریہ شہر میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہرے میں شرکت کی۔
مصر کے تحریر اسکوائر میں ہونے والے ان مظاہروں کی کال بائیں بازو کے لبرل اور سوشلسٹ گروپوں نے دی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے مصر کے وزیر خارجہ محمد کامل سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور مرسی کی طرف سے اپنے لیے وسیع تر اختیارات تفویض کرنے کے معاملے پر گفتگو کی۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساری دنیا میں ایک ہی جیسا برتاؤ اور استحصال ہوتا ہے۔ اگر مصر میں انقلاب کو امریکی سامراج اور محمد مرسی نے مل کر اغوا کیا تو بنگلہ دیش میں اور پاکستان میں شیخ مجیب اور زیڈ اے بھٹو نے کیا۔ ہر چند کہ دونوں حکمرانوں نے اپنے اپنے ملکوں میں راست اقدام بھی کیے۔ اگر پاکستان میں گارمنٹ فیکٹری میں کراچی اور لاہور میں 200 مزدوروں کو جلایا جاتا ہے تو ڈھاکا کی گارمنٹ فیکٹری میں 110 مزدوروں کو جلایا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کے قریب گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگنے سے 110 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔ آگ نشچت پور کے علاقے آشولیہ میں واقع گارمنٹس فیکٹری میں لگی۔ حادثے کے وقت فیکٹری کی 9 منزلہ عمارت میں ایک ہزار مزدور موجود تھے۔ فائربریگیڈ کے اعلیٰ اہلکار محمد محبوب نے امریکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ فیکٹری میں ہنگامی صورتحال میں باہر نکلنے کا راستہ نہیں تھا، فیکٹری میں حفاظتی انتظام نہیں تھا۔ حادثے کے خلاف گارمنٹس فیکٹری کے مزدوروں نے زبردست احتجاج کیا، حکومت اور فیکٹری مالکان پر الزام لگایا کہ انھوں نے جان بوجھ کر آگ لگائی۔ آیندہ ہر فیکٹری میں حفاظتی اقدام کرنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان کے حکمرانوں کی طرح وہاں بھی حکومت نے ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا۔
ادھر بلوچستان میں 48 روز قبل اغوا ہونے والے ماہر امراض چشم ڈاکٹر معید خان کی عدم بازیابی پر ڈاکٹروں کی ہڑتال جاری تھی، بجائے ڈاکٹر معید خان کو بازیاب کرنے کے وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے کہا کہ ڈاکٹر ہڑتال ختم کردیں ورنہ ان کی اپنی طبیعت خراب ہو جائے گی اور ہمیں علاج کرنا پڑے گا۔ انھوں نے ڈاکٹروں سے سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کا فیصلہ کیا۔ سرکاری رہائش گاہیں ڈاکٹروں سے ایسے ہی خالی کرائی جا رہی ہیں جیسا کہ پرویز مشرف کے دور میں ججوں سے خالی کرائی گئی تھیں۔
پاکستانی معیشت کی حالت کا بدترین نمونہ تھرپارکر میں نظر آ رہا ہے، جہاں 12 لاکھ افراد اور لاکھوں جانور قحط کے شکار ہونے والے ہیں۔ اس پر حکمرانوں کی کوئی نگاہ نہیں، سوائے انتخابات کے۔ پارٹیوں کے اندر فالٹ لائن بڑھتی چلی جا رہی ہے، تحریک انصاف کی حکومت پر ریاستی پالیسی سازوں میں اتفاق رائے ہونے کے بجائے اختلافات اور بھی شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ وہی میڈیا جو عمران خان کو ابن مریم بنا کر پیش کر رہا تھا اب اس کی ریاستی آشیر باد کا واویلا کرتے نہیں تھکتا۔ عمران خان کو خود نہیں پتہ کہ کون پی ٹی آئی میں ہے اور کون نہیں۔ کون آئے گا اور کون واپس چلا جائے گا، بنیاد پرست فضل الرحمن کی قیادت میں ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ انتخابات میں خاطر خواہ نشستیں حاصل کر کے اقتدار میں حصہ بقدر جثہ وصول کیا جا سکے اور ریاستی آقاؤں کے اشارے پر اپنی حمایت نواز شریف یا کسی بھی دوسرے حکومتی اتحاد کے پلڑے میں ڈال دی جائے۔ مگر دوسری طرف بنیاد پرستوں میں پھوٹ بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
جماعت اسلامی شدید سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکی ہے اس لیے وہ اب ریاست اور عالمی مالیاتی سرمائے کے دوسرے دھڑوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ منور حسن نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکا کے خلاف روس سے امداد لینا شرعی طور پر درست اور وقت کی ضرورت ہے۔ تاریخ کا اس سے بڑا مضحکہ اور تمسخر اور کیا ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے عوامی سیاست کو کب کا خیرباد کہہ دیا ہے۔ وہ مظلوم بننے کی کوشش بھی کرے گی۔ امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے کراچی میں طالبان کو داخل کرنے سے ایم کیو ایم زبردست دباؤ کا شکار ہوئی ہے۔ شہر میں مار دھاڑ بڑھ گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کراچی سے کچھ نشستیں حاصل کر لے۔ ادھر ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے انتخابی اتحاد کی پینگیں بڑھانے کی کوشش میں ہے تا کہ اقتدار میں حصہ برقرار ہے۔ اس لوٹ مار، طبقاتی تقسیم، اختیار اقتدار اور خونخواری کے نظام میں انسانی لاچارگی اور بے بسی کا یہ تماشا دیکھا نہیں جا سکتا۔
اب شاید وقت آ گیا ہے کہ انسانوں کو ان کی انسانیت ایک پُروقار طریقے سے لوٹا دیں تا کہ وہ زمین میں کیڑے کی طرح رینگنے کے بجائے آسمانوں کی تسخیر کا مزہ چکھ سکیں۔ اس دنیا میں اتنے وسائل اور ذرایع موجود ہیں کہ ہر انسان کو 24 گھنٹوں میں ایک گھنٹہ کام کرنا کافی ہے لیکن باقی اوقات سرمایہ داروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ جب دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہے تو پھر سرمایہ دار اور مزدور کی تقسیم ایک خونخوار جبر ہے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جب کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔