’’ایسے کپڑے کیوں پہنے۔۔۔‘‘
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی ایک تقریب کے دوران باقاعدہ ابتہاج محمد کو مخاطب کر کے داد دی
مسلمان خواتین کی مکمل ’کِٹ‘ نے نئی بحث چھیڑ دی ۔ فوٹو : فائل
مختلف اداروں کی طرح کھیلوں میں بھی یک رنگی اور کام کرنے والوں کی سہولت پیدا کرنے کے واسطے ایک جیسے لباس تجویز کیے جاتے ہیں، پھر ہر رکن اور حصے دار کے لیے اس کی پاس داری کرنا لازم قرار پاتی ہے۔ اس کا مقصود ایک طرف تمام اراکین کے لیے مساوات کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے، تو دوسری طرف فرائض کی انجام دہی کے لیے سہولت اور آسانی بھی خاص طور پر پیش نظر رکھی جاتی ہے۔
مختلف کھیلوں کے لیے ہر کھیل کی مناسبت سے مختلف تراش خراش کے حامل ملبوسات ترتیب دیے جاتے ہیں۔ البتہ ان پر رنگوں کی ترتیب ہر ملک کے حساب سے الگ رکھی جاتی ہے، جس سے ان کے ملک شناخت کیے جاتے ہیں، تاہم بعض اوقات دنیا کی رنگا رنگ ثقافتوں کے حامل لوگ بعض اوقات ایسے لباس کو زیب تن کرنے میں سہولت محسوس نہیں کرتے، بالخصوص جب خواتین کی بات ہو تو صورت حال اور بھی اہم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مشرقی ممالک کی خواتین کھلاڑیوں کو بہت سے ملبوسات نہایت گراں گزرے، اور بہت سی خواتین کھلاڑی صرف لباس کی بنا پر کھیل کے میدان سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہوگئیں، اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے 2012ء میں لندن میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں خواتین کھلاڑیوں کو شارٹس اور لمبی آستین والی شرٹ پہننے کی اجازت دے دی گئی۔
یہاں یہ امر نہایت دل چسپ ہے کہ اولمپکس منتظمین کی اس سہولت سے جہاں بہت سی مسلمان خواتین نے فائدہ اٹھایا، وہیں لندن کے سرد موسم کی وجہ سے برازیل کی خواتین ٹیم نے بھی جسم کو مکمل طور پر ڈھانپے والا لباس پہننے کو ترجیج دی۔
2012ء کے لندن اولمپکس میں جن مسلمان خواتین نے مکمل لباس اور سر ڈھانپ کر مقابلوں میں حصہ لیا، ان میں سعودی عرب، قطر، عُمان، یمن اور افغانستان وغیرہ شامل ہیں۔
سعودی عرب کی 16 سالہ جوڈوکا وجدان شہرخانی اور 20 سالہ سارہ العطار نے لندن اولمپکس 2012ء میں پہلی بار حجاب کے ساتھ 800 میٹر دوڑ کے مقابلے میں حصہ لیا۔ سارہ العطار سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکی شہریت بھی رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ 2012ء کے اولمپکس ہی میں قطر کی 17 سالہ نور الحسن ال مالکی اور افغانستان کی 23 سالہ تہمینہ کوہستانی اپنے اپنے ملک کی پہلی خاتون ایتھلیٹ بنیں، جو اولمپیکس میں سو میٹر کی دوڑ میں حصہ لینے کی اہل ہوئیں، بل کہ انہوں نے 2012ء کے اولمپکس میں سر ڈھانپ کر مقابلے میں حصہ لینے والوں میں بھی اپنا نام لکھوایا۔ عُمان کی 19 سالہ Shinoona Salah al-Habsi اور یمن کی ایتھلیٹ فاطمہ سلیمان دہمن نے بھی 2012ء میں سر ڈھانپ کر اِن مقابلوں میں حصہ لیا۔
مگر 2016ء کے اولمپکس میں جب خواتین کے 'بیچ والی بال' کے میچ میں جب مصر اور جرمنی مدمقابل ہوئے، تو اس موقع پر مصر کی ٹیم نے مکمل لباس کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لیا، جب کہ ان سے نبردآزما جرمنی کی خواتین ٹیم نے 'بیچ والی بال' کا رائج لباس زیب تن کیا۔ میچ تو ختم ہوگیا، لیکن اس میچ کے بعد دونوں ٹیموں کی کارکردگی کے بہ جائے ان کے لباس پر بحث شروع ہوگئی۔۔۔ اور یہ سلسلہ اس قدر شدومد سے جاری ہوا کہ ناقدین کی جانب سے اسے ایک بہت بڑا 'ثقافتی تنازعہ' قرار دے دیا گیا۔
مصر کی ٹیم نے چوں کہ مکمل لباس کے علاوہ حجاب بھی لیا، تو اسے اسلام بمقابلہ مغرب طرح کے کوئی ثقافتی اور تہذیبی مقابلے کا رنگ دیا جانے لگا، کیوں کہ دوسری طرف جرمنی کی خواتین ٹیم بکنی میں ملبوس تھی، لوگوں نے جب لباس کا اس قدر اختلاف دیکھا، تو کھیل اور کارکردگی بھول بھال کر اس جداگانیت کو موضوع بنا ڈالا۔
برطانوی اخبار 'ٹائمز' نے اسے ثقافتی تصادم، جب کہ خبری ویب سائٹ 'ڈیلی میل' نے ثقافتی تفریق قرار دیا، ایسا محسوس ہوا کہ لوگوں کی ساری توجہ کھیل اور کھلاڑیوں پر نہیں، بل کہ ان کے لباس پر مرکوز ہوگئی ہے۔ تبصرہ نگاروں نے اسے لباس کے مقابلے کا نام دیا اور سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر شائقین سے سوالات کیے گئے کہ کیا وہ اس عمل کو ثقافتی تصادم سمجھتے ہیں یا دنیا کے مختلف لوگوں کو کھیل کے قریب لانے کی طاقت قرار دیں گے؟
برازیل کے شہر کوپاچابانا (Copacabana) میں منعقد ہونے والے مصر اور جرمنی کے اس مقابلے کے دوران تو ایسے کسی تصادم یا نزاع کا ماحول اور فضا نہیں دیکھی گئی، البتہ میچ کے بعد ہونے والے تبصروں نے اس بحث کو ایک دم سے کافی بڑھاوا دیا۔ خاص طور پر سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر بہت تندوتیز تبصرے کیے گئے اور لوگ کھل کر اس کے حق اور مخالفت میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
2012ء تک، اولمپکس کے 'بیچ والی بال' کے مقابلوں کے لیے خواتین کھلاڑیوں کا بکنی پہننا لازم تھا۔ منتظمین کی اس پابندی کو بھی ناقدین کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا تھا، اور اس عمل کو کھیل کے بہ جائے خواتین کھلاڑیوں پر توجہ مرکوز کرانے کا عمل قرار دیتے تھے۔ آسٹریلیا کے اسپورٹس کمیشن نے 'بیچ والی بال' کے لیے خواتین کے کپڑوں کے حوالے سے شکایت درج کرائی تھی۔
مصر کی 'بیچ والی بال' ٹیم کی رکن دوعا الگوباشی کی ساتھی کھلاڑی ندا موید نے بغیر سر ڈھاپنے کھیلیں، جب کہ دوعا الگوباشی کہتی ہیں ''میں گذشتہ دس برسوں سے حجاب پہن رہی ہوں۔ حجاب مجھے کسی ایسے چیز سے نہیں روکتا، جسے میں پسند کرتی ہوں اور 'بیچ والی بال' ان میں سے ایک ہے۔''
2016ء کے اولمپکس میں دوڑ کے مقابلوں میں اگرچہ سعودی عرب اور افغانستان کی نمائندگی کرنے والی خواتین کھلاڑی کام یابی حاصل نہیں کر سکیں، تاہم، ان کے اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے کے فیصلے کو دنیا بھر کے کھیلوں کے شائقین کی طرف سے سراہنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مکمل لباس اور حجاب کے ساتھ دوڑ میں حصہ لینے والی سعودی خاتون کھلاڑی کرئماں ابو الجدائل اور افغانستان کی کھلاڑی کامیہ یوسفی شامل ہیں۔ خاص طور پر خواتین کی طرف سے عالمی مقابلوں میں حصہ لینے پر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، لیکن مصر اور جرمنی کے درمیان ہونے والے 'بیچ والی بال' کے مقابلے کے بعد مکمل لباس کے مخالفین نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
22 سالہ سعودی کھلاڑی کرئماں ابو الجدائل نے ریو اولمپکس میں 100 میٹر تیز دوڑ میں حصہ لیا۔ وہ فائنل مقابلے سے پہلے اپنی ابتدائی دوڑ میں ساتویں نمبر پر رہیں، یعنی وہ حتمی مراحل تک تو رسائی حاصل نہیں کر سکیں، لیکن وہ اولمپکس میں خواتین کے شعبے میں ایک نئی روایت کی امین ضرور بن گئی ہیں، جس کے صلے میں انہیں شائقین کی طرف سے بے شمار داد ملی ہے۔
کرئماں ابو الجدائل نے سو میٹر تیز دوڑ کو 14.61 سیکنڈ میں مکمل کیا، جب کہ وہ موجودہ عالمی ریکارڈ 10.49 سیکنڈ سے پیچھے رہیں۔ یہ ریکارڈ 1988ء میں امریکی ایتھلیٹ فلورنس گریففتھ نے قائم کیا تھا۔
اسی طرح افغانستان کی کھلاڑی کامیہ یوسفی نے بھی مکمل لباس اور حجاب کے ساتھ اپنی ابتدائی دوڑ 14.02 سیکنڈ میں مکمل کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس میں آخری نمبر پر رہیں، تاہم افغانستان کی اولمپکس کی تاریخ میں ان کا نام نمایاں رہے گا۔
اولمپکس میں مکمل لباس اور حجاب کے حوالے سے امریکا کی نمائندگی کرنے والی واحد مسلمان اور باحجاب خاتون ابتہاج محمد کا تذکرہ بھی لازم ہے، جنہوں نے ریو اولمپکس میں شمشیر زنی کے میدان میں امریکا کے لیے کانسی کا تمغہ حاصل کیا ہے۔
30سالہ امریکی ایتھلیٹ ابتہاج محمد پر مسلمان ہونے کی بنا پر دہشت گرد ہونے کے جملے بھی کسے گئے، لیکن اس کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ انہیں اپنے مسلمان اور امریکی ہونے پر فخر ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی ایک تقریب کے دوران باقاعدہ ابتہاج محمد کو مخاطب کر کے داد دی اور ابتہاج محمد سے کہا کہ وہ کوئی دباؤ محسوس نہ کریں اور پورے جذبے اور سکون کے ساتھ کھیل میں حصہ لیں اور امریکا کے لیے تمغہ جیت کر لائیں۔
ابتہاج محمد کا شمار دنیا کی نمایاں ترین تلوار بازوں میں کیا جاتا ہے۔ انہیں ٹینس کی دنیا کی نام وَر ستارہ ثانیہ مرزا کے ساتھ دنیا کی 100 بااثر خواتین میں بھی شامل کیا گیا۔ ابتہاج محمد خواتین کی ایک ملبوسات ساز کمپنی کی مالک بھی ہیں، جو کہ خواتین کے کپڑے تیا ر کرتی ہے۔
یوں خواتین کی شرکت کا سفر اولمپکس مقابلوں میں ان کی مانگ کے مطابق ترتیب دیے گئے لباس کی صورت میں کام یابی سے ہم کنار ہوگیا ہے۔ حالیہ اولمپکس میں ایک ہی میچ میں دو یک سر مختلف لباس کی حامل کھلاڑیوں کو لے کر اس پر گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس بحث کو مکمل لباس کی حامل خواتین کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کے نتیجے ہی میں ختم کرایا جا سکے گا، بہ صورت دیگر منتظمین پر خواتین کے لباس کی اس سہولت کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔