ہمارے رویے‘ ایک منفی رُخ پر

اس کے ڈرامے نے میری آنکھوں کھول دیں کہ میری قوم میں اب بھی۔۔۔۔۔۔!بس اب رہنے دیں کیا لکھوں۔


Shehla Aijaz December 04, 2012
[email protected]

کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو ساری عمر یاد رہتے ہیں، لوگوں کے برتاؤ، انداز گفتگو اور رویّے۔ ایسے ہی حادثات میں کھل کر سامنے آتے ہیں اور اس وقت پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ کس جانب چل رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی برطانیہ میں فسادات اچانک پھوٹ پڑے تھے جن میں تین پاکستانی نوجوان بھی اپنی جان سے گئے، گورے نوجوانوں نے دکانوں پر ہلہ بول دیا تھا، لیکن کیمروں کی مدد سے تمام اشیاء بازیاب کروا لی گئی تھیں اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں، شاہی خاندان نے پاکستانی خاندانوں سے تعزیت کی تھی ان کے غم کو ایک بڑا سانحہ قرار دیا تھا۔

بیروزگاری سے تنگ آئے نوجوانوں نے جو کچھ کیا سو کیا، لیکن برطانوی وزیر اعظم نے اپنی قوم کے نوجوانوں کے اس رویے پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت پر صحیح توجہ نہیں دے پا رہے جس کا ثبوت ان ہنگاموں میں کھل کر سامنے آیا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت پر سخت توجہ کی ضرورت ہے، ہم مغربی بے راہ روی کا راگ الاپتے ہیں، لیکن پھر بھی برطانوی وزیر اعظم کی یہ تشویش ظاہر کرتی ہے کہ انگریز اچھی طرح یہ سمجھتا ہے کہ ایک بچے کی تربیت میں اس کے والدین کا بڑا عمل دغل ہوتا ہے جو قوموں کے مثبت اور منفی رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔اسٹیٹ لائف کی بلڈنگ میں آتشزدگی کی خبر تو سب نے سنی، لیکن اویس بیگ کی بے چارگی کی موت نے اس آتشزدگی کی خبر کو اس کے پیچھے کہیں چھپا دیا، نوجوان ہینڈسم، تعلیم یافتہ، آنکھوں میں ہزاروں خواب سجائے اویس بیگ جب صبح اپنے گھر سے نکلا ہو گا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ آج کا یہ دن اسے پاکستانی قوم کی بے بسی کی علامت بنا دے گا، آتشزدگی میں بلدیہ کی گارمنٹس فیکٹری میں سو سے زائد جانیں گئیں۔

کئی منزلہ عمارت سے کئی لوگوں نے چھلانگیں لگا کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی تھی، لیکن ان چھلانگوں نے بھی کئی جانوں کو نگل لیا، شاید اویس کے ذہن میں بلدیہ کی گارمنٹس فیکٹری کی آگ نے ایک دہشت چھپا کر رکھی تھی جو آگ کی خبر سنتے ہی اسے آسان طریقہ یہی نظر آیا۔ لیکن اس معصوم لڑکے کو شاید علم نہ تھا کہ اس کھڑکی کے باہر موت اس کی منتظر ہے۔ یہ درست ہے کہ اویس کا اوپر والے کی جانب سے وقت پورا ہو چکا تھا، لیکن جس بے بسی سے اس نوجوان نے اپنی موت کو اپنی آنکھوں سے قہقہے لگاتے دیکھا وہ تماشہ بہت اذیت ناک تھا، بلند و بالا عمارت کے نیچے کئی آنکھیں اس خوفناک ''لائیو شو'' کو دیکھ رہی تھیں، ایسے جیسے گنتی گن رہی ہوں کہ اب اور کب؟ نوجوان میں ہمت اور عزم تھا جو پندرہ منٹ تک وہ ان تمام لوگوں کو گنتی گنواتا رہا، شاید ابھی کوئی آئے اور اس کی مدد کرے، شاید اب کوئی ہاتھ اس کی جانب بڑھے جو کھڑکی سے لپک کر اسے کھینچ لے، اتنے سارے دفاتر تھے، اتنے سارے کمرے جن کی دیواریں اور زمین سجے رہتے ہیں کیا ان سجاوٹوں میں کسی ایک دیوار پر بھی کوئی پردہ نہ تھا جو کھڑکی سے اویس کی طرف پھینک دیا جاتا؟ آگ معمولی تھی جو خود ہی بجھ گئی۔

کیا اس سے نچلے فلور والے اتنے ہی لاعلم تھے یا نیچے کھڑے تماشائیوں میں سے بھی کسی نے ہمت نہ کی جو وہ چیخ کر ایک انسان کے ہوا میں جھولنے کی خبر دیتا، کیا کسی کمرے میں کوئی قالین نہ تھا جو اس کو پکے فرش پر گر کر ناریل کی طرح چٹخٹنے سے بچا لیتا، کیا اتنے تماشائیوں میں سے سب کے دماغ خالی ہو چکے تھے، ہاں شاید اس لیے بھی کہ اس وقت وہاں کوئی اویس کا اپنا نہ تھا، جس کے وجود میں اویس کی محبت کا خون جوش مارتا، ہم اکثر نیوز چینلز پر ہی دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے ملک میں ایک گائے کو کنوئیں سے کیسے نکالا گیا، ایک گھوڑے کا سر کیسے ستون سے آزاد کرایا گیا، ایک بلّی کو اونچی بلڈنگ سے کیسے اُتارا گیا، لیکن نہیں ہم سرد ہو چکے ہیں، بڑھ کر مدد کرنے کا جذبہ شاید کہیں کھو چکا ہے، ہم بنیادی طور پر مدد کرنے سے اعتراز برتتے ہیں، سڑک پر پڑا کسی حادثے سے زخمی کراہتا رہتا ہے، گاڑیاں اس کے اردگرد سے زن کر کے گزر جاتی ہیں، ہم خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں اس زخمی کی وجہ سے ہمیں ہی نہ دھر لیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے، سب بولتے رہے، چینلز پر اویس کی بے بس موت کو سب نے دیکھا، میں نے بھی دیکھا، لیکن میرے لبوں سے بے اختیار نکلا اگر میں وہاں ہوتی تو ضرور اسے بچانے کے لیے کچھ کرتی، کاش۔۔۔۔! ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے کہ میں کہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی اپنے گھر والوں کا انتظار کر رہی تھی، تھوڑی ہی دیر میں وہ آئے اور میں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔

مجھے لیفٹ پر گاڑی ٹرن کر کے نکلنا تھا، ویسے بھی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ احتیاط سے گاڑی ڈرائیو کرتی ہیں، میں نے بھی آرام سے ارد گرد دیکھ کر گاڑی ذرا بڑھائی اور بائیں جانب مڑی تا کہ اس سڑک سے اپنی منزل کی جانب بڑھوں، دور سے ایک چنگ چی رکشہ انتہائی تیز رفتاری سے چلا آ رہا تھا، ڈرائیونگ کا اصول ہے کہ موڑ کاٹتے رفتار دھیمی کرتے ہیں، لیکن شاید بناء ڈرائیونگ لائسنس اور ضروری کاغذات سے بے بہرہ دوسرے رکشوں کی طرح وہ ڈرائیور بھی ایسا ہی تھا جو اپنے ساتھ رکشے میں کئی مسافر لے کر رکشے کو تیز رفتار اسکوٹر کی مانند چلا رہا تھا، شاید اس میں یہ غرور بھی تھا کہ وہ مرد ہے، اس کی راہ میں جو آئے تہس نہس کر دے گا، میری چیونٹی سے ذرا تیز رفتار اس چیتے کا مقابلہ نہ کر سکی اور رکشہ میری گاڑی سے ٹکرا گیا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا، کیونکہ بہت دور بہت نزدیک ہو چکا تھا، بہرحال شہد کی مکھیوں کی طرح نجانے کدھر سے نکل کر لوگ جمع ہو گئے، سنسان سڑک بھر گئی، ایک شور مچ گیا، مجھے پہلے فکر تھی کہ کوئی شدید چوٹ مجھے یا میرے گھر والوں کو تو نہیں آئی۔

پھر دوسری فوری فکر اس رکشے میں سوار لوگوں اور رکشے والے کی ہوئی، لوگوں کو خوب اندازہ تھا کہ غلطی کس کی ہے وہ آرام سے پڑا تھا، میں نے اپنی آنکھوں سے اسے ڈرامائی انداز میں اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کرتے دیکھا تھا، بس پھر کیا تھا غریب رکشے والے کے حق میں ایک صاحب بہت بڑھ بڑھ کر بولنے لگے، ان کے منہ سے ایسے کف نکل رہا تھا کہ جیسے میں نے انسانیت کا خون کر دیا ہو، نہ کوئی زخمی نہ ہی رکشے کا شیشہ ٹوٹا ، ڈنٹ پڑا ، لوگ خاموش کھڑے تھے کیونکہ میری کوئی غلطی ہی نہیں تھی۔ لیکن توبہ ہماری ایک فلاحی تنظیم جو برسوں سے اپنے نام سے پہچانی جاتی ہے اس کا ڈرائیور اس وقت جگا بدمعاش بن کر میری گاڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا، تب مجھے احساس ہوا کہ انسانی خدمت کا راگ الاپنے والے بھی لاشیں اٹھا اٹھا کر بے حس ہو جاتے ہیں۔

ان سب کا خیال تھا کہ میں گاڑی لے کر بھاگ جاؤں گی، میری گاڑی کی حالت بُری ہو چکی تھی، بمپر زمین پر گِر چکا تھا، کسی بزرگ نے اٹھا کر دیا بہت سے لوگوں کی ہمدردی میرے ساتھ تھی، لیکن وہ چند غنڈے ٹائپ لوگوں کے بڑھ بڑھ کر بولنے کی وجہ سے خاموش کھڑے تھے۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہم کتنے ظالم اور بے حس ہو چکے ہیں، انصاف نہیں طاقت کی زبان سمجھتے ہیں، سیالکوٹ اور سندھ کے وہ واقعات آنکھوں میں گھوم گئے جس میں تماشائی بن کر انسانیت کا تماشہ دیکھتے رہے، تھانہ تھوڑے ہی فاصلے پر تھا ایک پولیس والا ایسے میں فرشتہ بن کر آیا وہ سمجھدار پہلے ہی رکشے والے کی خیر خیریت دریافت کر چکا تھا اس نے نہایت شائستگی سے کہا کہ آپ لوگوں کی فکر نہ کریں بولنے دیں انھیں۔ بہرحال میں قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی چور بنا دی گئی، رکشے کے مسافر بھی میری گاڑی کی خراب حالت پر افسوس کر رہے تھے۔

بہت سی باتیں ہم سب جانتے ہیں انھیں قلم بند کرنے کی ضرورت نہیں، میرے اپنے مہربان عزیزوں نے میری اس مشکل صورتحال میں میری مدد کی، لیکن میں جو خود انسانیت، محبت اور انصاف کا سبق دیتی رہتی ہوں، یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ہم دوسروں کی مدد کرنے میں تعامل برتتے ہیں حجت کرتے ہیں، ورنہ اویس یوں بے چارگی کی موت نہ مرتا، لیکن دوسروں سے الجھنے اور لڑائی جھگڑا کرنے میں ہمیں لطف آتا ہے، ہم دوسروں کی بے چارگی کو انجوائے کرتے ہیں، دوسروں کو زک دینا ہمیں اچھا لگتا ہے، میرے مکینک کا خیال تھا کہ اگر میری جگہ کوئی مرد ہوتا تو رکشے والے سے ضرور ہرجانہ لیتا، ہرجانہ تو اس نے کیا دینا تھا البتہ اس کے ڈرامے نے میری آنکھوں کھول دیں کہ میری قوم میں اب بھی۔۔۔۔۔۔!بس اب رہنے دیں کیا لکھوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔