کراچی اولمپکس عظیم الشان اولمپیائی شہرکی تعمیر سے کھیل کے مقابلوں تک پاکستانیوں کی کارکردگی نے دنیا کو

اولمپکس کے ان شان دار انتظامات نے دنیا پر ثابت کردیا کہ ہم پاکستانی کتنے اچھے منتظم ہیں


Muhammad Usman Jami August 21, 2016
اولمپکس کے ان شان دار انتظامات نے دنیا پر ثابت کردیا کہ ہم پاکستانی کتنے اچھے منتظم ہیں : فوٹو : فائل

SUKKUR: کتنی عجیب بات ہے، مجھ جیسے عجلت پسند کی کار سڑک پر سرکتے پہیوں کی بھیڑ میں رینگ رہی ہے مگر میں بے زار ہوں نہ پریشان۔۔۔۔میں نہیں بدلا، میرے اردگرد کا سارا ماحول بدلا بدلا ہے۔

میرے ہر طرف رنگ ہیں، روشنیاں ہیں، خوشیاں ہیں، رات کا یہ پہر جو گھڑی کی سوئی تھامے دو کے ہندسے کو خاموشی سے چھو چکا، دن کی رونق بھرا ہے۔

میری نظر ایک جگہ ٹکتی ہی نہیں، کبھی دائیں دیکھتا ہوں، کبھی بائیں اور پھر ونڈ اسکرین سے دور تک پھیلے مسرت اور جوش کے بنتے مٹتے نظاروں میں ڈوب جاتا ہوں۔

شارع فیصل کے دونوں طرف، قدم قدم پر نیلے، سیاہ، سرخ، زرد اور سبز رنگ کے دیوقامت دائرے روشن ہیں، جن پر لکھے ''کراچی اولمپکس'' کے الفاظ سے پھوٹتی رنگ برنگی لہریں آسمان کو چھو رہی ہیں، زمیں پر رقصاں ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لگے بل بورڈز پر ''کراچی اولمپکس'' کے ساتھ ''پاکستان میں خوش آمدید'' کے لفظ بھی دنیا کی مختلف زبانوں کا پیرہن پہن کر طلوع غروب ہورہے ہیں۔ انگریزی، جرمن، فرانسیسی، چینی، جاپانی، عربی، اسپینش، سواحلی، ہندی۔۔۔۔ہر وہ زبان جس کے بولنے والے ملک کے باشندے میری سرزمین پر اولمپک گیمز کھیلنے یا دیکھنے آئے ہیں۔

میں پورے راستے مشرق ومغرب کے سارے خدوخال سارے رنگ دیکھ چکا ہوں، کاروں اور مختلف بڑی گاڑیوں میں بیٹھے یورپی اقوام کے افراد، افریقی ممالک کے باسی، چینی، جاپانی، بھارتی۔۔۔۔ہر چہرے پر مسکراہٹ، سکون اور ساری کی ساری آنکھوں میں گھلتے میرے شہر کے رنگ اور روشنیاں۔

یہ دور دیسوں سے آنے والے پاکستانیوں کو خوشیاں مناتا دیکھ رہے ہیں اور خود بھی مسرور ہیں۔ کسی کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ آج پاکستانی اتنے خوش کیوں ہیں، یہ جشن کیوں منایا جا رہا ہے، سڑکوں پر لوگ کیوں جھومتے، گاتے رقص کرتے گروہ در گروہ آر ہے ہیں، آئے جارہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی کتنے جذباتی اور جوشیلے ہیں، اور آج تو شادمانی کا سیلاب بھی اُمڈ آئے تو کم ہے۔ پاکستان میں اولمپکس کا انعقاد ہی کیا کم خوش کن تھا کہ پاکستانی کھلاڑی نے تمغوں کی لوٹ مچادی، ایک کے بعد ایک جیتتے ہی چلے گئے، اور آج شام تک پاکستان سب سے زیادہ تمغے جیت کر کھیلوں کے اس عالمی میلے کا فاتح بن گیا۔ ہے۔۔۔میلہ لوٹ لیا پاکستانیوں نے۔

ایتھلیٹکس میں لیاری کے نوجوانوں نے کام یابی کے جھنڈے ہی نہیں گاڑے نئے ریکارڈ بھی بنا ڈالے ہیں، جوڈو اور سوئمنگ میں باقی کراچی کے کھلاڑی بازی لے گئے، کشتی رانی اور ڈائیونگ میں ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلوں پر بسنے والے سونے کا تمغہ لے اُڑے، ریسلنگ، ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن میں پنجاب کے تنومند اور پھرتیلے لڑکوں نے مقابل کو چت کردیا، آئس ہاکی کے مقابلوں میں گلگت بلتستان کے کھلاڑیوں نے فتح کا پرچم لہرادیا، شوٹنگ اور سائیکلنگ کی بازی خیبرپختون خوا والے جیت گئے ، باکسنگ اور فٹ بال کے معرکے بلوچستان والوں نے سر کیے۔۔۔ہاکی، اسکائی جمپنگ، ہینڈبال، گولف۔۔۔اور نہ جانے کون کون سے کھیل جن کے نام بھی مجھے یاد نہیں، سب کے میدانوں میں میرے دیس کا سبزہلالی پرچم فاتحانہ شان سے لہرایا۔

اب اتنی بڑی کام یابی پر جشن تو منانا ہی چاہیے ناں۔ سو منایا جارہا ہے۔ کہیں بھنگڑا ڈالا جارہا ہے، تو کئی گروہ خٹک ڈانس کر رہا ہے، کہیں لہراتی اجرکوں کے ساتھ ہوجمالو کی صدائیں لہرا رہی ہیں، کہیں خون کی گردش کو بجلی کی رفتار دیتی ڈھول کی تھاپ پر شیدی ڈانس ہورہا ہے۔، جُگنی گائی جا رہی ہے۔

یہ نظارے آنکھوں سے اتر کر روح کو سرشار کر رہے ہیں۔ ویسے سرشاری کا یہ عالم تو تب سے طاری ہے جب کراچی کو اولمپکس کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ اعلان ہوتے ہی دل چاہتا تھا کہ کھیلوں کا یہ ہنگامہ بس جلدی سے شروع ہوجائے۔ آخر جوش کی بہار ہمارے آنگن میں اتر ہی آئی۔

یوں تو اس بسنت نے گاؤں گاؤں شہر شہر پورے ملک میں پھول کھلائے مگر ڈیرے اس نے کراچی کی آبادی سے پَرے سہراب گوٹھ سے ذرا آگے ڈالے۔ میں اپنے گھروالوں اور دوستوں کے ساتھ بار بار اس بستے شہر کو دیکھنے گیا۔ آخر بستے بستے بستی بس ہی گئی۔ کھیلوں کی اس نگری کو شہر سے ملانے کے لیے کشادہ پُل بنائے گئے ہیں، کراچی کے شہریوں کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرتے برقی ٹرینوں کے نظام کو وسعت دیتے ہوئے خصوصی ریل گاڑیاں چلائی گئی ہیں، جو مسافروں کو اولمپکس نگری کے زیرزمین ریلوے اسٹیشن تک لے جاتی ہیں۔

ایک نوتعمیر شدہ پُل پر گاڑی دوڑاتا جب میں اس کھیل نگری میں پہنچا تو اپنے وطن کے منتظمین، معماروں اور اہل ہنر کی مہارت اور چابک دستی نے نہال کردیا، بہت حیران بھی۔ آنکھوں کی حدوں کو شکست دیتا مرکزی اسٹیڈیم، نیلے ٹائلز والے سندھی اور مغلیہ فن تعمیر کا شاہ کار۔ دور سے دیکھنے پر لگتا ہے جیسے الف لیلہ کی طلمساتی دنیا سامنے آگئی ہو، اور ہم اس کہانیوں کی بھول بھلیوں کا حصہ بننے والے ہوں۔ اسٹیڈیم تک جانے والے راستوں کے دونوں طرف لہلہاتے پیڑوں کے سائے تلے گلاب اور موتیا اپنی سُرخی اور سفیدی سے ہر آنکھ کو لبھارہے اور فضا کو مہکا رہے ہیں۔

سنگ مرمر سے بنے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوں تو گویا طلسم کدے کا در وا ہوجاتا ہے۔ مختلف کھیلوں کے لیے بنائے گئے چالیس اولمپک وینیو، سب ایک سے بڑھ کر ایک، فن تعمیر کے شاہ کار، اور پھر دنیا بھر سے آئے ہوئے کھلاڑیوں اور منتظمین کے رہنے کے لیے بسائی گئی بستی، تھر کی روایتی جھونپڑی چونڑا کی عکاسی کرتی رہائش گاہیں، سبزے اور پھلواریوں سے گھری ہوئی۔

یہ سج دھج تو شروع کے دنوں کی تھی، جوں جوں کھیلوں کی بہار کے دن قریب آتے گئے رونقیں بڑھتی گئیں، جوش بڑھتا گیا اور سارے شہر، پورے ملک پر اولمپک جنون طاری ہوگیا۔ اب ہر سڑک پر، ہر بازار میں ہر چورنگی پر اولمپیائی نشانات جلوے دکھارہے ہیں۔ ان اولمپکس کا چکور، مارخور اور اندھی ڈولفن پر مشتمل میسکوٹ جسے ''بیلی'' کا نام دیا گیا ہے، جگہ جگہ طرح طرح کی جدتوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ کہیں یہ دیوقامت میسکوٹ کسی چوک پر سایہ فگن ہے، تو کہیں سڑک کے کنارے اپنا روپ دکھا رہا ہے۔ بازاروں میں اس روبوٹس ''بیلی'' کا سوانگ بھرے بچوں کو لبھار رہے ہیں، تو کہیں اس میسکوٹ کی شبیہ والے کیک بک رہے ہیں، ہر دوسرا نوجوان اور بچہ ''بیلی'' کی تصویر والی شرٹ پہنے نظر آتا ہے۔

لو بھئی، اس دھیمی رفتار سے بھی گئے، ٹریفک بالکل رک گیا۔ کیوں نہ رکتا، آتش بازی کا ایسا حسین منظر جو سامنے ہے، نور کی یہ برات نیشنل اسٹیڈیم سے آسمان کی طرف بھیجی جارہی ہے، جس نے اردگرد دور دور تک لوگوں کی توجہ کھینچ لی ہے۔ اس آتش بازی کے کیا کہنے، مگر آتش بازی تو اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں ہوئی تھی، روشنیوں سے آسمان پر کیا کیا نقش ونگار ابھرے تھے، اولمپکس میں حصہ لینے والے ہر ملک کے نقشے اور پرچم نے ایک کے بعد ایک فضا کو روشن کیا، پھر ہمارا جھنڈا اولمپیائی دائروں کے ساتھ گگن پر لہرایا، ہمارے اہل ہنر لیزرلائٹنگ کا کمال دکھارہے تھے۔

وہ کر رہے تھے جو کبھی نہ ہوا، دل کش ترین منظر وہ تھا جب ایک طرف پاکستان کا نقشہ ابھرا اور دوسری طرف دنیا کا، دیکھنے والے اس منظر کو حیرت سے دیکھ ہی رہے تھے کہ پاکستان کے سبز نقشے سے یکایک ہزاروں کی تعداد میں سرخ پھول ابھرے اور تیزی سے دنیا کے نقشے کی طرف جانے لگے، جیسے پاکستانی اقوام عالم پر گل پاشی کر رہے ہوں، انھیں پیار کا پیغام بھیج رہے ہوں۔ کیا نظارے تھے، جیسے دھرتی آسمان پر ایک ساتھ ہولی اور دیوالی منارہی ہو۔

ہر دیکھنے والی آنکھ کی پُتلی رنگ روشنی کی چھوٹی سی ست رنگی جھیل بن گئی تھی۔

تقریب کے شرکاء رنگ ونور کے سحر سے نکلے تو آواز کے جادو میں جکڑے گئے۔ پاکستانی اور غیرملکی گلوکاروں کی آوازیں سروں کی سنگت میں ایک ساتھ بہہ رہی تھیں، سماعتوں میں رس گھول رہی تھیں۔ سارے نغمے انگریزی میں تھے، کہیں کہیں اردو کے تڑکے کے ساتھ، ایک نغمہ بہت مشہور ہوا ''دیکھ لے دنیا، یہ ہیں ہم۔''

اس تقریب سے پہلے وہ منظر بھی دیدنی تھا جب غیرملکی مہمانوں کو سجی سجائی اونٹ گاڑیوں اور آراستہ پیراستہ تانگوں پر بٹھاکر ایئرپورٹ سے اولمپکس نگری لے جایا گیا۔ اونٹوں اور گھوڑوں کے پیروں میں بندھے گھنگرؤں کی چھن چھن اور ٹاپوں کی دل کش آواز، خیرمقدمی نعرے، راستوں کے دونوں طرف کھڑے لوگوں کی مہمانوں پر گُل پاشی۔۔۔یہ مناظر کبھی بھلائے نہ جاسکیں گے۔

اولمپکس کے ان شان دار انتظامات نے دنیا پر ثابت کردیا کہ ہم پاکستانی کتنے اچھے منتظم ہیں اور تعمیروترقی اور ٹیکنالوجی میں کس قدر آگے جاچکے ہیں۔ ویسے تو زرعی اجناس میں خودکفالت، چاند پر خلائی مشن بھیجنے، کاروں اور الیکٹرانک مصنوعات کا سب سے بڑا برآمدکنندہ بننے کے بعد ہمارا شمار ترقی یافتہ اقوام میں ہونے لگا تھا، لیکن اولمپک گیمز کی شان دار اور بے مثال تقریب اور ان کھیلوں میں ہماری نمایاں کارکردگی نے ہمیں دنیا کی ممتاز قوم بنادیا ہے۔

خیالوں سے مہکتا اور نظاروں سے دمکتا سفر جانے کب ختم ہوا پتا ہی نہیں چلا، کار کی سست رفتار مسافرت نے جسم کو تھکا ڈالا، مگر روح چاق چوبند ہے، عجیب سرشاری کا عالم ہے۔ میں گھر آکر ٹی وی کھولتا ہوں۔ سی این این، بی بی سی، فوکس نیوز، ٹین اسپورٹس۔۔۔۔ریموٹ کے ڈیجٹس پر میرا انگوٹھا تیزی سے رواں ہے، ہر چینل کی اسکرین پر میرا شہر کراچی جگمگا رہا ہے، رنگ بکھیر رہا ہے، نیوزکاسٹرز سے اسپورٹس کے مبصرین اور رپورٹرز تک ہر ایک کی زبان پر بس یہی تذکرہ ہے۔۔۔۔پاکستان۔۔۔۔کراچی اولمپکس۔۔۔وہ دن گئے جب میرے ملک اور اس کے شہروں کا نام دنیا کے ٹی وی چینلوں کی خبروں اور تبصروں میں بھڑکتے شعلوں، خون سے لتھڑی لاشوں، ہنگاموں اور فساد کے ہول ناک مناظر کے ساتھ ہی نشر ہوتا تھا۔۔۔اب تو نظارے ہی اور ہیں۔

ہر چینل پاکستانیوں کو جشن مناتے دکھا رہا ہے، کراچی کی شاہراہیں، اسلام آباد، لاہور، پشاور، کوئٹہ اسلام آباد کی سڑکیں ہنستے مسکراتے، خوشیاں مناتے، گیت گاتے لوگوں سے بھری ہیں۔ چینلوں پر اولمپکس کی اختتامی تقریب کی باتیں ہورہی ہیں، کہا جارہا ہے کہ افتتاح کی طرح اختتام بھی بے نظیر اور حیران کُن ہوگا۔ بس دو دون بعد ہونے کو ہے یہ تقریب، میں نے بھی ٹکٹ لیا ہے، جانے اس تقریب میں کیسے کیسے حسین نظارے منتظر میں ۔۔۔۔پلکیں آنکھوں پر آگری ہیں۔۔۔ خیالوں کی دنیا سے کوچ کرکے میں خوابوں کے جہاں میں پہنچ گیا ہوں۔۔۔

اچانک دھماکے کی زوردار آواز میری نیند کے پرخچے اُڑا دیتی ہے۔۔۔

کھلتی آنکھ میں ٹی وی اسکرین سماگئی۔۔۔

میں ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو گیا تھا!!

بریکنگ نیوز بتا رہی تھی کہ میرے گھر کے قریب واقع ایک اسپتال میں خودکش حملہ ہوا ہے۔

وہی سارے منظر تھے۔۔۔ شعلے، زخمی، آہیں، کراہیں، آنسو۔۔۔۔

اچانک ٹی وی اسکرین اندھیرے میں ڈوب گئی، بجلی چلی گئی تھی۔۔۔ خواب ٹوٹ چکا تھا، کہیں کوئی جشن تھا نہ خوشی۔۔۔۔

خواب کے سارے منظر کرچیوں کی صورت میری آنکھوں میں چبھ رہے تھے۔

کیا یہ سپنا کبھی ہماری دھرتی پر اُترے گا۔۔۔

ہمارے افق پر کام یابیوں کا سورج روشن ہوگا۔۔۔

خوشیوں کی رادھا ہمارے آنگن میں ناچے گی۔۔۔کب؟ سال بعد، پانچ سال بعد، ہزار سال بعد۔۔۔یا ہم صرف ''ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے'' کی لوریاں اور ''ہمارے ملک میں ہر نعمت ہے۔۔۔۔بس۔۔۔'' جیسے لارے ہی سنتے رہیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں