ویل ڈن

آل راؤنڈر عبدالرزاق اور اظہر محمود کی ٹائپ کا ہو تو زیادہ بہتر رہے گا


Amjad Islam Amjad August 21, 2016
[email protected]

MINGORA: ایدھی صاحب نے اپنی زندگی اور خدمت انسانی کی اننگز جس خوش اسلوبی اور جذبے سے کھیلی اس کے لیے صرف ویل ڈن کے الفاظ کافی نہیں ہیں سو ان کو میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ پرفارمنس کے لیے محفوظ رکھتا ہوں اور ایدھی صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اس نظم کا سہارا لیتا ہوں جس کی ابتدائی چند لائنیں میں نے ان کے تعزیتی کالم میں بھی درج کی تھیں۔ اب وہ نظم تو مکمل ہو گئی ہے لیکن باوجود کوشش کے میں اس میں ایدھی صاحب کی پوری شخصیت اور کارناموں کا احاطہ نہیں کر پایا اور شاید ایسا ممکن بھی نہیں تھا کہ بقول شاعر

نغمگی کے قد بالا پر قبائے ساز تنگ

لیکن اس نظم کو درج کرنے سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسے داد بھی دی جائے کہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود انھوں نے انگلینڈ میں انگلینڈ کے ساتھ برابر کا مقابلہ کیا اور اگر تیسرے ٹیسٹ میں وہ صرف دو سیشن ڈھنگ سے کھیل جاتے تو رزلٹ اگر ایک نہیں تو دو ایک ضرور ہو سکتا تھا۔ میری ذاتی رائے میں اس ٹیم میں احمد شہزاد، عمر اکمل، بابر اعظم، جنید خان اور محمد اصغر کی جگہ بنتی تھی۔

یہ اور بات ہے کہ ان کے متبادل کھلاڑیوں میں سے عمران خان، ذوالفقار بابر اور محمد رضوان کو کھیلنے کا موقع ہی نہیں ملا جب کہ افتخار احمد کو صرف ایک اور شان مسعود اور سمیع اسلم کو دو دو میچ مل سکے۔ سمیع اسلم، اظہر علی، محمد یونس، مصباح الحق، اسد شفیق، یاسر شاہ، محمد عامر اور سہیل خان میں سے صرف سمیع اسلم اور سہیل خان ہی کی عمدہ کارکردگی کسی حد تک غیرمتوقع تھی۔

کم و بیش یہی معاملہ محمد حفیظ، شان مسعود، وہاب ریاض اور راحت علی کی نسبتاً کمزور کارکردگی کے ساتھ رہا یعنی بحیثیت مجموعی ٹیم کی عمومی کارکردگی بہتر اور توقعات کے مطابق ہی مستقبل قریب میں ہمیں ایک جینوئن آل راؤنڈر ایک اچھے آف اسپنر یا ایک انتہائی باصلاحیت لیفٹ آرم اسپنر کی ضرورت ہو گی کہ ان کے بغیر ٹیم اور بینچ کا توازن گوناگوں مسائل کاشکار رہے گا یعنی دورۂ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے لیے ہمیں آٹھ باقاعدہ بیٹسمین، ایک آل راؤنڈر، ایک مستقل وکٹ کیپر، دو اسپنرز اور چار فاسٹ باؤلرز درکار ہوں گے۔

آل راؤنڈر عبدالرزاق اور اظہر محمود کی ٹائپ کا ہو تو زیادہ بہتر رہے گا کہ اس طرح آپ کے پاس بوقت ضرورت پانچ فاسٹ باؤلر دستیاب ہوں گے۔ مصباح الحق کو یہ کریڈٹ یقینا جاتا ہے کہ اس نے ایک نسبتاً غیرمتوازن اور ناتجربہ کار ٹیم کے ساتھ بطور کپتان غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ چاہے ذہنی طو رپر کتنا ہی فٹ کیوں نہ ہو، یہ طے ہے کہ اب اس کی ریٹائرمنٹ کا وقت بہت قریب ہے۔

سو اگر اسے ایک مضبوط اور متوازن ٹیم دی جائے تو وہ یقینا آیندہ چند مہینوں میں پاکستان کو مزید کامیابیوں سے ہمکنار کر کے اپنے نقش کو مزید گہرا اور روشن کر سکتا ہے۔ دوسری طرف یونس خان جیسے کھلاڑی سے ہر ممکن فائدہ اٹھانا چاہیے کہ ایسے کھلاڑی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ اس میں ابھی تین سے چار سال تک کی کرکٹ باقی ہے۔ اسے بہتر فضا میں سانس لینے دیجیے۔ وہ کبھی ٹیم کو اور اپنے آپ کو Let Down نہیں کرے گا۔

اور اب آیئے اس نظم کی طرف جو میں نے ایدھی صاحب کے لیے لکھی ہے۔ وہ اب جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن خدمت خلق کے حوالے سے جو کمالات انھوں نے دکھائے ہیں اور سادگی، تنظیم، شفافیت اور اعتماد کے جو معیارات قائم کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے کام کو ایدھی فاؤنڈیشن سمیت اس نوع کے دیگر رفاعی اداروں میں قائم، مستحکم اور متحرک کیا جائے کہ دعائے خیر کے بعد ان کی روح کی آسودگی کے لیے یہی سب سے بڑا تحفہ ہو سکتا ہے۔

وہ اِک منارہ تھا روشنی کا

سیاہ راتوں کی تیرگی کے حصارِ غم میں
سمندروں کی بپھرتی لہروں کے پیچ و خم میں

ہر ایک کشتی کا ہم سفر تھا
سلامتی کا پیام بر تھا

وہ اک ستارا تھا آگہی کا
کہ جس کی جھل مل تھی کہکشاؤں کے

سارے چاندوں کی چاندگی سے کہیں زیادہ
کہ اس کا رشتہ تھا ان چھتوں سے

کہ جن کے نیچے سوائے ذلت کے کچھ نہیں تھا
کسی بھی آنگن سے روشنی کا گزر نہیں تھا

جہاں پہ بستے تھے قریہ قریہ وہ بے سہارے
ازل کے مارے

کہ جن کی قسمت میں بے کسی تھی
وہ خاک برسر خدا کے بندے
کہ جن کی اوقات بے بسی تھی

کہ جن کے اپنے بھی ان کو اپنا نہ مانتے تھے
جو عافیت اور خوشی کے معنی نہ جانتے تھے

وہ ان کے غم کا شریک بھی تھا
شفیق بھی تھا، رفیق بھی تھا

وہ ایک دھارا تھا سرخوشی کا
جدھر جدھر سے گزر کے جاتا

گلاب کھلتے تھے ہر نظر میں
چراغ جلتے تھے رہگزر میں

بجھے دلوں اور سلگتی آنکھوں کو
جگمگانے کے خواب دے کر

ستم رسیدوں کو اپنی محنت سے
آب دوانے کے خواب دے کر

وہ خود تو منظر سے ہٹ گیا ہے

(کہ یہ مشیت کا فیصلہ ہے)

ہر ایک شے کو، ہر اک نفس کو
پھر اس کی جانب ہی لوٹنا ہے

کہ جس کے ''کن'' کے اثر سے جاری
زماں مکاں کا یہ سلسلہ ہے!

وہ استعارا تھا زندگی کا
ہزار خطبوں پہ جو ہو بھاری

وہ ایسا لمحہ تھا خامشی کا
تمام شانیں، نثار جس پر

وہ ایسا پیکر تھا سادگی کا
جو بادشاہوں کے سر جھکا دے

وہ ایسا مظہر تھا عاجزی کا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں