شاعری اور تنقیدی زاویے
ارشد خالد نے بھی ایسا ہی کیا ہے کہ اپنے کمال سخن کو اپنی محبت کی بدولت تازگی اور پرکاری عطا کردی ہے
سہ ماہی عکاس انٹرنیشنل کے مدیر ارشد خالد میں جو بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں، عرصہ دراز سے عکاس انٹرنیشنل اپنے عزیز اور دیرینہ دوست حیدر قریشی کی مشاورت سے نکال رہے ہیں۔ مگر تخلیقی کاموں کے لیے مشوروں کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے، یہ تو اﷲ کا کام ہے کہ وہ خداداد صلاحیت عطا فرماتا ہے اور تخلیق کار اس کو سنوارتا اور نکھارتا ہے۔
ارشد خالد نے بھی ایسا ہی کیا ہے کہ اپنے کمال سخن کو اپنی محبت کی بدولت تازگی اور پرکاری عطا کردی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کام انھوں نے اس وقت انجام دیا جب انھیں وقت میسر آیا، اسی وجہ سے انھوں نے اپنے شعری مجموعے کا نام ''پارٹ ٹائم شاعری'' رکھا ہے۔ پڑھنے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ یہ تو شبینہ روز کی محنت کا نتیجہ اور اﷲ کی کرم نوازی ہے کہ اس قدر خوبصورت، بامعنی شاعری وجود میں آئی ہے، ورنہ تو پارٹ ٹائم میں کام کرنے والا تھکے ہوئے ذہن و جسم کے ساتھ فرائض منصبی انجام دیتا ہے کہ یہ اس کی مجبوری ہے، لیکن اس کے برعکس ارشد خالد کا شعری مجموعہ فل ٹائم شاعری کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
پارٹ ٹائم شاعری کی نظمیں دل سے لکھی گئی ہیں۔ اسی لیے دل میں اترتی ہیں اور قاری کو ہشاش بشاش کردیتی ہے، کسی بھی تحریر کو پڑھتے ہوئے روحانی خوشی نصیب ہوجائے تو سمجھ لیجیے کہ یہ لکھنے والے کی تخلیق کا کمال و جمال ہے، جس نے حسن و تاثیر کے ذائقے سے متعارف کرایا۔ ملاحظہ کیجیے۔
مجھے جینا نہیں آتا
تمہیں مرنے کی جلدی ہے
چلو ہم ساتھ چلتے ہیں
''پارٹ ٹائم شاعری'' میں شاعر نے جگ بیتی بھی لکھی اور آپ بیتی بھی۔ بچپن اور لڑکپن کی یادوں کو الفاظ کا حسین روپ عطا کیا ہے اور گزرے ماہ و سال کے جگنوؤں اور تتلیوں کو اپنی بند مٹھی سے آزاد کردیا ہے، اب یہ روشن اور مختلف رنگوں کے دیدہ زیب پرندے شاعری کے افق پر اپنا سونا اور رنگ بکھیر رہے ہیں۔
''ہم اپنے بچپنے میں ساحل دریا پہ جاکے/ پیروں کو بھرکے ریت سے/ کچھ خوشنما سے گھر بناتے تھے/ پھر اپنے پھول ہاتھوں سے/ انھیں مسمار کرتے تھے/ یہ لگتا ہے بڑے ہوکر بھی ہم اب تک/ ابھی تک بچپنے میں ہیں/ کہ اپنی خواہشوں کی جنتیں پانے کی خاطر/ نیکیوں کے نام پر/ جنت کے گھر تعمیر کرتے ہیں/ پھر ان جنت گھروں کو خود جہنم زار کرتے ہیں/ پر اپنی خوشنما تعمیر اپنے ہاتھ سے مسمار کرتے ہیں/ فقط نادانیوں سے پیار کرتے ہیں''۔
''انتظار'' اور ''جبر'' اذیت دونوں ہی تکلیف دہ ہیں، کسی کا انتظار عمر بھر سولی پر لٹکاکے رکھتا ہے لیکن انتظار کی گھڑیاں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ راہ تکتے تکتے عمریں بیت جاتی ہیں۔ سیاہ چڑیل جیسی رین کاٹے نہیں کٹتی ہے اور آسیب زدہ دن بے قراری اور دکھ کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ان کا انداز دھیما بھی ہے اور منفرد بھی۔ نظم ''انتظار''
''جبر کا موسم/ جب گزرے گا/ تب سوچیں گے/ شاخ تمنا کے اگنے میں/ کتنی صدیاں لگتی ہیں''۔
ارشد خالد کی شاعری محبت کے نازک جذبوں اور حقیقی رشتوں، ناتوں کے خمیر سے اٹھی ہے، ماں کی محبتوں کا دیا بھی روشن ہے اور دوستوں کے عہد و پیمان اور ہجر و وصال کا کرب بھی ان کی شاعری کو غمگین کرگیا ہے۔ نظم ''زاد سفر'' ماں کی عقیدت و محبت اور اس کے ایثار و قربانی کی داستان ہے۔ پوری کائنات میں ماں کا رشتہ، عظیم اٹوٹ اور کبھی نہ ساتھ چھوڑنے والا ہے۔ ماں کبھی نہیں بھولتی، اس کی سانسوں میں اور دل کی دھڑکنوں میں اس کی اولاد محبت ہے اور اولاد کا حال بھی جدا نہیں ہوتا، مہد سے لے کر لحد تک ماں کا نام لبوں پر آتا ہے۔ دل کے نہاں خانے میں ماں کی محبت کا سمندر موجزن رہتا ہے۔ ارشد خالد نے ''زاد راہ'' میں اسی احساس کو اگر کیا ہے۔
''ذرا ٹھہرو! میں اپنا زادِ سفر ساتھ لے لوں/ وہ کمرے میں خوشبو کی مانند پھیلا ہوا/ ماں کا بوسہ جسے میرے بچپن میں/ ماں نے/ میرے ماتھے پر ثبت اک دن کیا تھا/ اسے ساتھ لے لوں/ ماں کی دعاؤں کا پُر نور پالا/ جو میری حفاظت پہ مامور ہے/ اس کو بھی ساتھ لے لوں''۔
شبیر ناقد اپنی تحریروں کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ بیک وقت شاعر اور نقاد میں ان کے نام کے ساتھ بھی ناقد کا صیغہ چسپاں ہے۔ وہ شعر و ادب کی تقریباً ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی شاعری اگر متاثر کرتی ہے تو تنقید بھی بہت سی معلومات کے در وا کرتی اور ان کی تنقیدی بصیرت کو عیاں کرتی ہے۔ میں نے ان کی جتنی بھی تحریریں پڑھیں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ بے لوث خلوص کے ساتھ کسی بھی تحریر پر خامہ فرسائی کرتے ہیں ان کے اس عمل سے کسی کی دلکشی کا احتمال پیدا نہیں ہوتا ہے شبیر ناقد کی تنقید نگاری ان کی مثبت سوچ کی عکاس ہے۔
میرے مطالعہ میں جو کتاب رہی اس کا عنوان ہے ''ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا کیف غزل'' اس کتاب میں مصنف نے ظہور احمد فاتح کی مکمل زندگی اور زندگی میں آنے والے مسائل اور مصائب کا تذکرہ بے حد محبت کے ساتھ کیا ہے۔ ابوالبیان کا کلام آفاقی اور ہمہ گیر ہے۔
ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا تعلق تونسہ شریف سے ہے، یہ ہی ان کی جنم بھومی ہے، انھوں نے اپنی محنت اور شوق سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، قسمت نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اﷲ بھی ان کی مدد کرتا ہے، اپنی کاوش کی بدولت وہ چشم آشوب کے باوجود ترقی کی سیڑھیاں طے کرتے چلے گئے، انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی ہے۔ معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ وہ اب معذور افراد کے اداروں میں بقیہ تعلیم کے مدارج طے کریں، انھوں نے ہمت نہیں ہاری حکومت وقت نے بھی ان کی معاونت کی درخواست پر ان کی مدد کی۔
پرائمری جماعتوں کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ ان میں شعر کہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تیسری جماعت سے ہی انھوں نے شاعری کی ابتدا کردی اور جب ساتویں جماعت میں پہنچے تو باقاعدہ لکھنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ان کے اشعار کی تعداد ستر ہزار کے قریب ہوچکی ہے۔ ان کی شاعری اور تراجم کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ نظمیہ، غزلیہ شاعری میں انھوں نے کمال کے جوہر دکھائے ہیں۔
شبیر ناقد کے شعری مجموعے ''صبح کاوش'' اور ''جادہ فکر'' کی شاعری بھی قارئین کے دلوں کو طمانیت کا احساس دلاتی اور فکر کی پرواز بلند کرتی ہے۔کہیں کہیں نغمیت کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ شبیر ناقد کثیرالجہت قلمکار ہیں، خوب لکھتے ہیں۔ کئی سال سے باقاعدگی کے ساتھ ''شاعراتِ ارض پاک'' کے عنوان سے شعر و سخن پر تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں جو کتابی شکل میں ادارہ رنگ ادب سے شایع ہورہے ہیں، یہ کتابیں پڑھی جارہی ہیں اور پسند کی جارہی ہیں۔ اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ۔