اگلاسال بہت اہم ہے

یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ وہ لوگ جن کی سیاسی پیدائش ضیا دور میں ہوئی


Zamrad Naqvi August 22, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

CHICAGO, IL, US: وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ 1980ء کی دہائی میں اگر نام نہاد جہاد نہ کرتے تو آج پاکستان ایک پرامن خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ پاکستان میں چار مارشل لا آئے' کسی نے اسلام کے نام پر پاکستان پر قبضہ کیا تو کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکا دیا اور کسی نے عوام کے مسیحا کا روپ دھار کر ملک کا چہرہ بگاڑا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رویوں سے پاک کرنا ہو گا۔

کمیونزم کے خلاف نام نہاد جہاد سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھی۔ ہم اس جنگ سے دور رہتے تو پاکستان بھی پرامن بردبار اور متحمل معاشرہ ہوتا اور ملک ترقی اور خوش حالی کے منازل تیزی سے طے کر رہا ہوتا لیکن بدقسمتی سے بدامنی کی آگ نے ملک کی ترقی کے سفر کو روک رکھا ہے۔ وہ قوتیں جو ہم سے پیچھے تھیں آگے نکل گئیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام ایکپریس میڈیا گروپ نے کیا تھا۔

یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ وہ لوگ جن کی سیاسی پیدائش ضیا دور میں ہوئی، وقت کے جبر نے انھیں آج جہادی پالیسی پر تنقید کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ضیاء الحق کا بویا ہوا آج جو قوم کاٹ رہی ہے اور نجانے کتنی نسلوں تک کاٹتی رہے گی اس دور کی جہادی پالیسی سے فائدہ اٹھانے والے کسی نہ کسی شکل میں شامل رہے ہیں۔ یہ ضیا الحق دور اور ان کے بعد بھی بنائی گئی پالیسیاں ہی تھیں جس نے کروڑوں کی تعداد میں منشیات کا عادی کر کے بے شمار پاکستانی گھرانوں کو تباہ برباد کر دیا۔ اس کے بعد فرقہ واریت جس نے پاکستانی قوم کی یکجہتی کو پارہ پار کر کے رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ناجائز اسلحہ کی بھرمار جس نے دہشتگرد گروہوں کو جنم دیا جنہوں نے ریاست کی جڑوں پر وار کر کے اس کا خاتمہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

ضیا الحق کا ظہور اس وقت ہوا جب پاکستانی ریاست پر بھٹو چھایا ہوا تھا۔ ضیا الحق نے برسراقتدار آ کر وہ پالیسی اختیار کی جو آ گے چل کر افعانستان میں امریکا کیا اہم اتحادی کے روپ میں ظاہر ہوئی' بھٹو کا سحر پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں توڑنے کے لیے ضیا الحق نے بہت سے چہرے آگے کیے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو صاحب نے نہ صرف پاکستان برصغیر بلکہ پورے خطے میں اپنے اقدامات سے اودھم مچا رکھا تھا۔ جو بات آج بھی سمجھ میں نہ آنے والی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیاسی جینئیں سے وہ مرحلہ کیسے ان کی نگاہ بصیرت سے اوجھل ہو گیا جب سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ گرم جنگ میں تبدیل ہو کر فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی تھی۔

انھوں نے اس نازک مرحلے میں جب امریکی سامراج کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا اور سوویت یونین کے خاتمے کے لیے کئی دہائیوں کی سامراجی کوششیں اپنے فیصلہ کن مرحلے میں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس اور تیل کا ہتھیار استعمال کر کے امریکا کو غیض و غضب سے دوچار کر دیا۔ بھٹو صاحب کے یہ اقدامات خطے کے توازن کو تباہ کرنے کے مترادف تھے اور شاید یہ اقدامات امریکی سامراج کی نظر میں پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے کم نہ تھے۔جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کا علاقہ ایک بڑے بحران سے دوچار تھا۔

پورے مشرق وسطیٰ میں سوشلسٹ کمیونسٹ تحریکیں بہت طاقتور تھیں مصر شام عراق میں' جنھیں سوویت یونین کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس صورت حال میں اسرائیل پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا جس نے اس کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اور تو اور کمیونسٹ تودہ پارٹی ایران میں بہت طاقتور تھی۔ یہی حال ترکی میں تھا۔ امریکی سامراج کے لیے یہ انتہائی سنگین صورت حال تھی۔ اس صورت حال کے توڑ کے لیے افغانستان میں سوویت یونین کو گھیرا گیا تا کہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ اس کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر جنرل ضیا کی فوجی حکومت قائم کی گئی۔

سوویت یونین کے خاتمے کے علاوہ امریکا نے جو دوسرا کام کیا کہ اس نے مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک عوام دوست تحریکوں کے مقابلے میں ایسے مذہبی اعتدال پسند عناصر کی سرپرستی شروع کی جو بظاہر امریکا مخالف ہوں لیکن اندر سے سامراجی مفادات کی حفاظت کریں۔ مسلم دنیا کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا یہ امریکی فارمولہ بہت کامیاب رہا۔ صرف ایران میں بات نہیں بنی۔

نجم الدین اربکان ہوں یا طیب اردگان یا فتح اللہ گولن یہ سب وہ اعتدال پسند مذہبی عناصر ہیں جنھیں ترکی میں عوام دوست سامراج دشمن انقلابی تحریکوں کو کچل کر آگے لایا گیا۔ انھوں نے مذہبی نقاب اوڑھ کر پہلے بھی سامراجی مفادات اور سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کی، آج بھی کر رہے ہیں۔ امریکا سے ان کے تضادات عارضی ہیں کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ورنہ دونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ترکی کی تمام خوش حالی اور ترقی کا دارومدار امریکا اور یورپی یونین پر ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے کئی اقدامات سے لاشعوری طور پر بنیاد پرستی کو نہ صرف مزید طاقتور بنایا بلکہ اسے بڑھاوا دیا... انھوں نے مذہب کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بنیاد پرستی کی پچ پر کھیلنے کی کوشش کی اور کلین بولڈ ہو گئے... وہ یہ بھول گئے کہ یہ پچ بنیاد پرستوں کی ہے ان کی نہیں... یہاں تک کہ بنیاد پرستوں نے ایٹمی طاقت بنانے والے کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

2017ء اور2018ء ہمارے پورے خطے کے لیے ''انقلابی'' بن سکتا ہے۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں