بیگم نصرت بھٹو
نصرت بھٹو مرحومہ ایک ایرانی نژاد صاحب ثروت کرد خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
برصغیر کی تاریخ میں ہمیں ایسی کئی خواتین نظر آئیں گی جنھوں نے نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ اس سلسلے میں سروجنی نائیڈو سے بیگم محمد علی جوہر اور بیگم شاہ نواز تک کئی حوصلہ مند خواتین کا نام آتا ہے۔
اندرا گاندھی، مسز بندرا نائیکے اور بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آ کر اپنی سیاسی بصیرت کا سکہ عالمی سطح پر منوایا، جب کہ پاکستان کی جن خواتین نے اپنے اپنے دور کی فوجی آمریتوں کو چیلنج کیا، ان میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، نصرت بھٹو اور کلثوم نواز کا نام سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے نصرت بھٹو مرحومہ کی زندگی صبر، حوصلہ، استقلال اور استقامت کا نادر نمونہ رہی ہے۔ ایک باوفا بیوی، مشفق ماں اور ایک مستقل مزاج رہنما کے طور پر انھوں نے پاکستان کی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انھوں نے جس انداز میں آمریت کو للکارا، اس نے تاریخ میں جرأت، ہمت اور اصول پرستی کا ایک نیا باب رقم کیا۔
نصرت بھٹو مرحومہ ایک ایرانی نژاد صاحب ثروت کرد خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد کا ممبئی اور کراچی میں کاروبار تھا۔ نصرت بھٹو آبائی شہر اصفہان سے گریجویشن کرنے کے بعد اپنے والد سے ملنے 1950ء میں کراچی تشریف لائیں، جہاں ان کی ملاقات ایک خوبرو نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ محبت میں بدل گئی۔ 1951ء میں دونوں نے شادی کر لی۔ ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ کی ایک اہم سیاسی شخصیت سر شاہنواز بھٹو کے فرزند تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو وکالت کے ساتھ سیاست میں بھی اپنا مقام بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ نصرت مرحومہ ان کی دوسری بیگم تھیں۔ ان کی پہلی بیوی امیر بیگم بھٹو خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور بھٹو مرحوم سے عمر میں بڑی تھیں۔ ان کے چار بچے یعنی دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہوئیں۔
نصرت مرحومہ نے بھٹو جیسی سیمابی صفت شخصیت کی زندگی میںداخل ہو کر ان کی ازدواجی زندگی کو ہی سہل نہیں بنایا، بلکہ ان کے سیاسی اور سماجی معاملات میں بھی بھرپور معاونت کی۔ کہا جاتا ہے کہ 1955ء میں مسٹر بھٹو کے نائب وزیر بننے میں محترمہ نصرت کی کوششوں کا دخل تھا۔ کیونکہ ان کا ناہید اسکندر مرزا سے قریبی تعلق تھا۔ اسی طرح جب بھٹو مرحوم ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہوئے تو خاصے شکستہ دل تھے۔
انھیں نئی پارٹی کی تشکیل کے سلسلے میں جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن وغیرہ سے ملاقات پر انھوں نے آمادہ کیا۔ پارٹی کی تشکیل کے بعد انھوں نے اس کے معاملات میں دلچسپی ضرور لی، مگر مداخلت نہیں کی۔ یہ ان کی ذہانت اور دور اندیشی تھی کہ انھوں نے اپنی ذات کو پارٹی معاملات سے اس وقت تک الگ تھلگ رکھا، جب تک کہ انھیں حالات نے مجبور نہیں کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں وہ بحیثیت خاتون اول، اپنے شوہر کے ساتھ مختلف ممالک کے دوروں پر گئیں اور ان ممالک کی قیادتوں اور ان کی بیگمات سے روابط پیدا کیے۔ ملکی امور میں بھی وہ بالواسطہ طور پر شریک رہیں۔ انھیں جو مشورہ دینا ہوتا، وہ اپنے شوہر کو دیتی تھیں۔
بیگم نصرت بھٹو مرحومہ کی صلاحیتوں، عزم واستقلال اور ہمت وجرأت کے مظاہر اس وقت کھل کر سامنے آئے جب جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ کر ان کے شوہر نامدار کو جیل میں دھکیل دیا۔ یہ وہ نازک لمحہ تھا، جب ایک طرف شوہر کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی اور دوسری طرف پارٹی آمر کی چیرہ دستیوں کے نتیجے میں بکھرنے کو تھی۔ وہ قائدین جنھیں بھٹو نے اپنا جانشین مقرر کیا تھا، یکے بعد دیگرے مختلف وجوہات کی وجہ سے پارٹی سے الگ ہو چکے تھے اور پارٹی میں ایسی کوئی نابغہ روزگار شخصیت نہیں تھی، جو اس دور ابتلا میں پارٹی کو سنبھال سکتی۔ ایسے میں محترمہ نصرت بھٹو میدان عمل میں اتریں اور انھوں نے ایک طرف گھر اور بچوں کو سنبھالا اور دوسری طرف عزم و حوصلہ کے ساتھ پارٹی کی قیادت سنبھال کر اسے بکھرنے سے بچایا۔
5 جولائی 1977ء سے 4 اپریل 1979ء تک پونے دو برس کا عرصہ محترمہ نصرت بھٹو کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ ایک طرف شوہر کی زندگی بچانے کے لیے وکلا کے ساتھ مشاورت اور سفارتی سطح پر روابط کر رہی تھیں، دوسری طرف پارٹی کے معاملات چلاتے ہوئے اسے طاغوتی قوتوں کی چیرہ دستیوں سے بچانے کی کوششوں میں مصروف تھیں، ساتھ ہی گھر کا انتظام اور بچوں کی دیکھ بھال کررہی تھیں۔ اس دوران وہ کئی بار گرفتار ہوئیں اور مختلف جیلوں میں رہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے، جو کسی بھی شخص کے حوصلے کو شکستہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ مگر محترمہ نصرت بھٹو مرحومہ نے اس دور ابتلا کو اپنی بصیرت، ہمت اور استقلال سے گزارا اور ان کے حوصلہ اور ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ گو وہ اپنے شوہر کو بچا نہیں سکیں، لیکن انھوں نے بھٹو کی نشانیوں (اولاد اور پارٹی) کو آمر کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔
بیگم بھٹو کی زندگی میں جدوجہد کا دوسرا دور شوہر کے عدالتی قتل کے بعد شروع ہوا۔ اس دور میں ان کے پیش نظر پارٹی کی تنظیم سازی کے ساتھ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنا تھی۔ 1980ء میں جب مفتی محمود مرحوم نے نوابزادہ نصراللہ خان کے ذریعے ان سے رابطہ کیا اور بحالی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے ان دونوں قائدین کے PNA کے پلیٹ فارم سے بھٹو مخالف تحریک میں سرگرم کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے جمہوریت پر شب خون مارنے والے خوفناک آمر کے خلاف جدوجہد کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہر کر دی۔
یوں تحریک بحالی جمہوریت (MRD) شروع ہوئی۔ جس نے ضیاالحق کی آمریت کی چولیں ہلا دیں۔ اور مجبوراً انتخابات کرائے گئے، گو غیر جماعتی ہی سہی۔ اس دوران نصرت مرحومہ کو دوہرا صدمہ برداشت کرنا پڑا جو شوہر کے صدمے سے زیادہ جانکاہ تھا۔ ان کا سب سے چھوٹا اور چہیتا بیٹا شاہنواز فرانس میں قتل کر دیا گیا۔ اس صدمے سے نڈھال نصرت بھٹو نے پھر بھی عزم وحوصلہ کا دامن نہیں چھوڑا اور آمریت کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ مگر اس دوران انھیں کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو گیا۔
شوہر کے بعد بیٹے کے صدمے اور اس پر کینسر جیسے موذی مرض نے انھیں ہلکان کر دیا۔ لہٰذ1984ء کے اوائل میں انھوں نے پارٹی کی قیادت اپنی سب سے بڑی صاحبزادی اور بھٹو کی چہیتی بیٹی بینظیر کے سپرد کر دی۔ مگر پارٹی معاملات سے مکمل دست بردار نہیں ہوئیں۔ وہ مسلسل اس کے معاملات کی نگرانی کرتی رہیں اور مشورے دیتی رہیں، بلکہ MRD کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرتی رہیں۔ ان کا یہ دور بھی گھر اور جیل کے درمیان سفر کرتا رہا۔ حدود آرڈیننس کے خلاف جب خواتین نے لاہور میں جلوس نکالا تو اس واقعے میں جہاں عوامی شاعر حبیب جالب اور عاصمہ جہانگیر سمیت کئی خواتین پولیس تشدد کا نشانہ بنیں، وہیں نصرت بھٹو مرحومہ بھی پولیس کی لاٹھی چارج کا شکار ہوئیں اور ان کا سر پھٹ گیا۔
بعض لوگ آج یہ الزام لگاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں موروثیت نے جگہ بنا لی ہے۔ ان کا الزام درست ہے۔ لیکن جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تھی، اس میں ایسا کوئی تصور نہیں تھا۔ معراج محمد خان مرحوم اور غلام مصطفیٰ کھر کو بھٹو مرحوم نے اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ پارٹی معاملات میں بیگم بھٹو کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔ یہ تو حالات کی ستم ظریفی تھی کہ جب ایک آمر نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا، تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ بیگم بھٹو آگے بڑھ کر پارٹی کو تباہ ہونے سے بچاتیں۔
اسی طرح جب اپنی بیماری کے سبب وہ پارٹی قیادت سے علیحدہ ہونا چاہتی تھیں، پارٹی میں کوئی ایسی نابغہ روزگار شخصیت نہیں تھی، جو پارٹی کو آمر کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھتے ہونے بکھرنے سے بچا سکتی۔ لہٰذا اس وقت کے معروضی حالات میں انھوں نے پارٹی قیادت اپنی بیٹی بینظیر مرحومہ کو سونپنے کا فیصلہ کیا۔ محترمہ بینظیر نے پارٹی کو جس دانشمندی اور دوراندیشی کے ساتھ چلایا، اس نے ثابت کر دیا کہ بیگم بھٹو کا فیصلہ درست اور بروقت تھا۔
اب جہاں تک بلاول کو قیادت سونپے جانے کا معاملہ ہے، تو حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ بھی انتہائی نامساعد حالات میں کیا گیا۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی پر دوسرا الزام یہ لگتا ہے کہ پارٹی پر وڈیروں اور فیوڈلزکا قبضہ ہوگیا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا فیصلہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کرنا ہو گا کہ وہ اپنی جماعت کو واپس ان نہج پر لانا چاہتے ہیں، جہاں بھٹو مرحوم چھوڑ کر گئے تھے یا موجودہ سیٹ اپ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، جس نے پارٹی کو سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود کر دیا ہے۔ بہرحال اس اظہاریے کا مقصد اپنی نئی نسل کو اس جدوجہد سے آگاہ کرنا ہے، جو ہمارے ماضی قریب کے اکابرین نے جمہوریت، آزادی اظہار اور حقوق انسانی کے لیے کی۔ ہمارا دامن خالی نہیں، بیگم بھٹو جیسے درخشاں ستاروں سے بھرا ہوا ہے۔