بھارتی میڈیا بددیانت ہے
سینئر اخبار نویسوں کی اس مجلس میں بحث کا نقطۂ اختتام یہ تھا کہ ممکن ہے
سینئر اخبار نویسوں کی اس مجلس میں بحث کا نقطۂ اختتام یہ تھا کہ ممکن ہے بھارتیوں کو اپنے ملک میں دیگر بہت سے آزادیاں میسر ہوں لیکن انھیں بہرحال دیانتدار اور آزاد میڈیا میسر نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی میڈیا اور پاکستانی صحافی بھارتی میڈیا سے کہیں زیادہ آزاد اور خود سر ہیں۔
حیرت سے یہ بھی ذکر کیا گیا کہ پاکستان کے کئی اخبارات و جرائد میں بھارت کے کئی صحافیوں کی ایسی تحریریں شایع ہوتی رہتی ہیں جن میں حکومتِ پاکستان کے فیصلوں اور اقدامات پر کبھی کھل کر اور کبھی بین السطور تنقید و تنقیص نظر آتی ہے۔ بھارتی اخبارات و جرائد میں بعض پاکستانی صحافیوں کے بھی مضامین اور تجزیے شایع ہوتے ہیں لیکن کسی بھی پاکستانی صحافی کو یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ بھارت سرکار کی کسی پالیسی، فیصلے اور اقدام کا تنقیدی اسلوب میں جائزہ لے سکے۔
بھارتی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں دانستہ طور پر جو تصویر کشی کی جاتی ہے، وہ تو اظہر من الشمس ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت اور آزادی کی اٹھی تازہ لہر اور بھارتی استبداد کے بارے میں تو بھارتی میڈیا نے مجرمانہ طور پر بلیک آؤٹ کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بھارتی میڈیا اور بھارتی صحافی اپنی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کے سامنے مکمل طور پر سرنڈر کر چکے ہیں۔
بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھارت کے مظلوم و درماندہ طبقات اور اقلیتوں سے جو کھلواڑ کر رہا ہے، دانستہ جس جانبداری اور بددیانتی کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس بارے میں بھارت ہی کے ایک ممتاز اخبار نویس جناب پرتاب بھانو مہتہ نے بھی گلہ کیا ہے۔ مہتہ صاحب بھارت کے ایک مشہور انگریزی اخبار کے مدیرِ معاون ہیں۔ انھوں نے بھارتی میڈیا کی بددیانتی کے بارے اپنے ایک حالیہ کالم میں یوں لکھا: ''بھارتی دلتوں (جن کا شمار نچلی ذات کے ہندوؤں میں کیا جاتا ہے) سے سماجی سطح پر جو زیادتیاں ہوتی ہیں، جس طرح ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اور جس (ظالمانہ) انداز میں دلتوں کی تذلیل کی جاتی ہے، افسوس یہ ہے کہ بھارتی میڈیا میں ان مظالم اور زیادتیوں کی خبریں اور مناظر سامنے لائے ہی نہیں جاتے۔
یوں انڈین میڈیا اعلیٰ جاتی ہندوؤں اور استحصالی قوتوں کی جانب جُھکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اور اگر کبھی بہت مجبوری کے عالم میں کوئی ایسی خبر دینی پڑ ہی جائے تو اس کی شدت، حدت اور حقیقت نہایت مدہم کر دی جاتی ہے۔ دلتوں کے ساتھ پیش آنے والے سانحات کا بعدازاں میڈیا میں فالواپ بھی نہیں دیا جاتا۔'' بھارتی میڈیا اس جانبداری اور بلیک آؤٹ کا مظاہرہ کر کے فی الحقیقت بھارتی اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو لوگوں کے ذہنوں سے واقعات و سانحات کو محو کرنے یا بھلانے کی بالواسطہ کوشش کرتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے، بدقسمتی سے، یہی رویہ دلتوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں اور بھارتی مسیحیوں سے بھی روا رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں دلتوں کی آبادی سولہ فیصد ہے اور مسلمان کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔
بھارت میں تقریباً تین کروڑ کی تعداد میں مسیحی بھی رہتے ہیں۔ انڈین میڈیا بھارت کی ان تینوں بڑی اقلیتوں سے متعصبانہ، جانبدارانہ اور ظالمانہ سلوک کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کشمیر میں حریت پسند لیڈروں اور آزادی کے خواہاں عوام کے خلاف حالیہ دنوں میں بھارتی میڈیا نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارۂ ابرو پر جس جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے، اسے کم از کم الفاظ میں شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس جانبدارانہ اور مسلم دشمن رویے کو بھارت میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر وجاہت حبیب اللہ کا تازہ ترین آرٹیکل۔ وجاہت صاحب بھارت کے معروف بیوروکریٹ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کمشنر کے فرائض بھی انجام دیے اور بھارت میں اقلیتوں کے ''نیشنل کمیشن'' کے سربراہ بھی رہے۔
انھوں نے روزنامہ ''دی ہندو'' میں اپنے مفصل مضمون (A Season of loss in Kashmir) میں جہاں مقبوضہ کشمیر کے تازہ حالات کے حوالے سے پاکستان کے خلاف ڈنڈی ماری ہے، وہاں یہ بھی لکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ (مقبوضہ) کشمیر میں درجنوں کی تعداد میں قتل کیے جانے والے مسلمان نوجوانوں کا ذکر بھارتی میڈیا میں جس طرح کیا جانا چاہیے تھا، نہیں کیا گیا۔ وجاہت حبیب اللہ نے لکھا: ''اگر قتل کیے جانے والے کشمیریوں کا ذکر بطور انڈین شہری ہی کر دیا جاتا تو بھی غنیمت تھا لیکن افسوس ایسا بھی نہ کیا جا سکا۔''
بھارتی میڈیا کا اگر مسلسل اور باقاعدہ جائزہ لیا جائے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ انڈین میڈیا نہ صر ف آزاد نہیں ہے بلکہ بھارتی حکومت کے اشارے پر بھی بروئے کار رہتا ہے۔ ایسے میں بھارتی میڈیا سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے گا؛ چنانچہ کشمیر سمیت بھارت بھر میں جہاں جہاں اقلیتوں پر ظلم اور زیادتیوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، بھارتی میڈیا ایک سدھائے گئے جانور کی طرح اپنی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی دی گئی ہدایات کے تحت ہی رپورٹنگ کرتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی میڈیا میں دیانت کا ترازو تھامنے والے صحافیوں کی تعداد نہایت محدود سی ہے۔
ایسی ہی نایاب اور محدود آوازوں میں سے ایک آواز پامیلا فلپوس کی ہے۔ پامیلا نے بڑے محتاط اسلوب میں بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' میں اپنے ایک آرٹیکل میں بھارتی میڈیا کی سرزنش کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بھارت کی مرکزی اور (مقبوضہ) کشمیر کی ریاستی حکومتوں کے حکم اور دباؤ پر کشمیر کے اخبارات کا، جولائی 2016ء کے وسط میں، تین روز کے لیے بند کیا جانا سراسر زیادتی اور ظلم تھا۔ (کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے تو بعدازاں نادم ہو کر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اس اقدام پر معذرت بھی کی) یہ اس لیے بھی ممکن ہو سکا کیونکہ اس سے قبل بھی بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں بار بار میڈیا پر دباؤ ڈال کر اپنے مفادات اور مقاصد حاصل کرتی رہی ہیں۔
مثلاً: بھارتی ریاست ناگالینڈ (جہاں علیحدگی پسند تحریک زوروں پر ہے) میں بھارتی سیکیورٹی ادارے (آسام رائفلز) نے مقامی اخبارات کے ایڈیٹروں کو حکم دیا کہ ''نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ'' (بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے مسلح گروہ) کے مطالبات کی خبریں شایع کرنے کی جس نے بھی جسارت کی، انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ تین بڑے مقامی اخبارات احتجاج میں یوں شایع ہوتے رہے کہ کئی روز ان کا ادارتی صفحہ سیاہ ہوتا تھا، جب کہ باقی اخبارات نے آسام رائفلز کے حکم کی پابندی کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی۔ اسی طرح بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں بھی بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومت کے احکامات کے تحت ہی میڈیا بروئے کار رہتا ہے۔ اگر کوئی صحافی، اخبار یا نجی ٹی وی ان احکامات سے انحراف کرتا ہے تو اسے ریاست کے ''اسپیشل پبلک سیکیورٹی ایکٹ مجریہ 2005'' کے تحت سنگین مسائل و مصائب سے گزرنا پڑتا ہے۔
تو اے خوانندگانِ کرام، یہ ہے ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' میں میڈیا کا اصل چہرہ اور یہ ہے بھارتی میڈیا کا حقیقی کردار۔ اس پس منظر میں بھارتی صحافی یہ جرأت کر ہی نہیں سکتے کہ وہ دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج اور دیگر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم کو دنیا کے سامنے لا سکیں؛ چنانچہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر بارہ بور کے مہلک چھروں والی بندوقیں بے دریغ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ ظالموں اور قاتلوں کو یقینِ کامل ہے کہ ان کی بہیمانہ وارداتوں کی اصل حقیقت میڈیا میں آ ہی نہیں سکے گی۔ بھارتی وزیرداخلہ، راجناتھ سنگھ، بھی اپنے جابر سیکیورٹی اداروں کے توسط سے بھارتی صحافیوں کی دیانت اور آزادی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔