دیہی اور شہری سندھ تفریق کیوں
مراد علی شاہ کراچی میں پیدا ہوئے اور انسان اپنے پیدائشی شہر کو کبھی نہیں بھولتا۔
KARACHI:
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دیہی علاقوں کو اندرون سندھ کہنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اندرون سندھ کوئی علاقہ نہیں ہے بلکہ سندھ کے شہری علاقوں کے بعد جو ہے وہ دیہی سندھ ہے اور دیہی اور شہری علاقے پر مشتمل علاقوں کا نام سندھ ہے۔ سندھ کو پہلی بار جو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ملے ہیں، ان کا تعلق بلاشبہ دیہی علاقے جامشورو ضلع سے ہے مگر ان کی پیدائش کراچی کی ہے جب کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے بچوں کی پیدائش بھی کراچی کی ہے۔ 8 سال قبل پی پی کی حکومت آنے پر محترمہ کی جائے پیدائش ضلع جنوبی کے علاقے ڈولی کھاتہ میں ڈاکٹر منٹو بلڈنگ کی ہے جو پہلے اسپتال تھا اور اب رہائشی عمارت ہے۔ اس عمارت کے صوبائی وزیروں نے دورے کرکے علاقے کی بہتری اور ترقی کے بڑے وعدے کیے تھے مگر آٹھ سالوں میں کچھ نہیں ہوا اور پی پی حکومت اپنی شہید قائد کی جائے پیدائش بھول گئی۔
مراد علی شاہ کراچی میں پیدا ہوئے اور انسان اپنے پیدائشی شہر کو کبھی نہیں بھولتا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی کے تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کی ہوگی اور انھوں نے حکومت میں اپنی شمولیت سے پہلے بھی کراچی میں طویل وقت گزارا ہے اس لیے وہ بھی کراچی کے شہری ہیں اور ان پر کراچی کا حق ضلع جامشورو اور تحصیل سیہون شریف سے بھی زیادہ ہے کیونکہ دیہی سندھ سے ان کا آبائی اور کراچی سے پیدائشی تعلق ہے اور جس طرح کوئی اپنے آبائی علاقے کو نہیں بھولتا اسی طرح پیدائشی تعلق کو بھی کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس طرح وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے دیہی سندھ اور شہری سندھ دونوں کے یکساں حقوق بنتے ہیں اور وہ دیہی سندھ سے زیادہ شہری سندھ کے شہر اور صوبائی دارالحکومت کے شہری ہیں۔کراچی صرف اردو بولنے والوں کا شہر نہیں، اردو بولنے والوں کی اکثریت گزشتہ 3 عشروں سے ایم کیو ایم کو اپنی نمایندگی کا حق دے رہی ہے تو دیہی سندھ سے پیپلز پارٹی کو متحدہ بننے سے پہلے سے ہی سندھی بولنے والوں کی اکثریت ووٹ دیتی آرہی ہے۔
2013 سے پہلے پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سے زیادہ تو نہیں مگر مناسب نشستیں جیت لیتی تھی کیونکہ کراچی کے دیہی علاقوں میں اور لیاری میں پی پی کا ووٹ بینک متحدہ سے زیادہ تھا اور کراچی کے شہری علاقے متحدہ اور دیہی علاقے پیپلز پارٹی کو اپنی نمایندگی کا حق ووٹ کے ذریعے چار عشروں سے دیتے آئے مگر 2013 کے بعد کراچی کے دیہی علاقوں میں پی پی کا ووٹ بینک متاثر ہوا۔ 2008 کے الیکشن میں کراچی کے کچھ دیہی علاقوں سے متحدہ کو کچھ کامیابی ملی تھی اور 2013 کے الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی دیہی کراچی سے بھی اپنی نشستوں کا تحفظ نہ کرسکی حالانکہ ان پانچ سالوں میں سندھ اور وفاق میں پی پی کی ہی حکومت تھی مگر پیپلز پارٹی دیہی سندھ میں تو کامیاب رہی مگر دیہی کراچی سے بھی اپنی آبائی نشستیں نہ بچا سکی جو پی پی کے لیے بڑا دھچکا تھا کیونکہ پی پی کی یہ نشستیں مسلم لیگ (ن) اور متحدہ نے جیت لی تھیں۔ تین سال گزرنے کے بعد بھی پی پی نے اپنے اس سیاسی نقصان پر توجہ نہیں دی جب کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی کراچی کے ان دیہی علاقوں کو نظرانداز کیا جہاں سے اسے غیر متوقع کامیابی ملی تھی۔
گزشتہ تین سالوں میں اقتدار مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے پاس اور متحدہ بلدیاتی اقتدار سے بھی باہر تھی اور کچھ کرنے جیسی نہیں تھی اور جو کچھ کرنے جیسے تھے انھوں نے بھی کچھ نہیں کیا اور کراچی کے دیہی علاقے (ن) لیگ اور پی پی سے مایوسی اور لاتعداد مسائل کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 1970 کی دہائی میں وفاق اور سندھ میں واضح کامیابی حاصل کی تھی مگر کراچی میں پی پی کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی اور کراچی کے شہری علاقوں میں جماعت اسلامی، جے یو پی کو نمایاں کامیابی ملی تھی اور اس وقت ایم کیو ایم کا وجود نہیں تھا۔
پہلی بار وفاق اور سندھ میں اقتدار میں آکر پیپلز پارٹی نے کراچی کو اہمیت نہیں دی اور کوٹہ سسٹم نافذ کرکے پہلی بار سندھ کو عملی طور پر تقسیم کرکے اربن سندھ اور رورل سندھ کی بنیاد رکھی اور مقررہ کوٹے پر بھی عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے کراچی، حیدرآباد اور ان علاقوں میں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی میں احساس محرومی بڑھا اور شہری علاقوں میں سندھ میں لسانی فسادات بھی ہوئے اور ناانصافیاں بھی بڑھتی گئیں جس کے باعث کراچی میں اردو بولنے والے پی پی سے دور ہوتے گئے اور پی پی میں شامل اردو بولنے والے تھوڑے بہت جو رہنما یا کارکن تھے۔ پی پی سے دور ہوتے گئے مگر دیہی سندھ کے حکمرانوں نے توجہ نہ دی اور کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر سندھ شہری سندھ اور دیہی سندھ میں تقسیم ہوتا گیا۔
بھٹو دور میں ممتاز بھٹو کی جگہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعلیٰ بناکر سندھ میں لسانی فسادات اور تعصب کو بڑھنے سے روکا گیا مگر اردو بولنے والے جتوئی مرحوم کی کوشش کے باوجود پی پی سے دور ہوتے گئے کیونکہ ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے چالیس فیصد کے حساب سے بھی نہ کھلے اور 1977 میں مارشل لا لگ گیا اور جو کوٹہ سسٹم دس سال کے لیے لگا تھا وہ چالیس سال گزرنے کے بعد بھی برقرار ہے۔ مارشل لا دور میں بھی اردو بولنے والوں سے ناانصافیاں جاری رہیں جس کا نتیجہ ایم کیو ایم کے وجود میں آنے کی شکل میں نکلا جو دن بہ دن اردو بولنے والوں میں اپنی مقبولیت بڑھاتی گئی۔ 1987 میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی اور 1988 میں پارلیمانی کامیابی حاصل کی جس کے بعد بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بن کر ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں بھی شامل کیا مگر کوٹہ سسٹم کی وجہ سے شہری سندھ اور اندرون سندھ کی تفریق میں کمی نہ آسکی۔
اب تک پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں الحاق اور علیحدگی ہوتی رہی۔ پی پی نے متحدہ کو وفاق میں بھی وزارت دی مگر متحدہ مطمئن نہ ہوکر پی پی حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔ مشرف دور میں پی پی اپوزیشن اور متحدہ حکومتوں میں رہی جس سے دونوں میں دوریاں بڑھیں۔ اس سے قبل 1988 میں جب ایم کیو ایم پی پی کے قریب آکر شریک اقتدار ہوئی تھی مگر دونوں نے اپنی لسانی سیاست ختم نہیں کی اور 1993 کے بعد جب مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ وزیراعلیٰ بنے تو کشیدگی میں انتہائی اضافہ ہوا تھا جسے 2008 میں آصف زرداری نے ختم کرایا اور متحدہ کو اپنے ساتھ شامل اقتدار رکھا مگر دونوں ساتھ نہ چل سکے اور اب تین سال سے پی پی سندھ میں برسر اقتدار اور متحدہ اقتدار سے مکمل محروم ہے۔
مراد علی شاہ پارٹی پالیسی کے تحت متحدہ کے تحفظات دورکرنے کی بھی کوشش کریں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر پیپلز پارٹی سندھ کو دو لسانی حصوں میں خود تقسیم کرچکی ہے۔ اندرون سندھ ہو یا دیہی سندھ اب پی پی اور متحدہ دونوں عوامی نمایندگی کی دعویدار ہیں۔ متحدہ کبھی کبھی سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کردیتی ہے تو پی پی مشتعل ہوکر سندھ کو ناقابل تقسیم قرار دیتی ہے اور متحدہ خاموش ہوکر دوبارہ اسی مطالبے کی تاک میں رہتی ہے۔ سندھ کی عملی تقسیم ناممکن ہے اور سندھ کی شہری اور دیہی تقسیم پی پی چاہیے تو کسی اصولی فیصلے پر آکر ختم کراسکتی ہے تاکہ مستقبل میں سندھ میں کسی نئے صوبے کے مطالبے کو روکا جاسکے گا اور جب سب لوگوں کو یکساں حقوق ملیں گے تو شہری دیہی سندھ کی تفریق بھی باقی نہیں رہے گی۔