انسان تیزاب کیسے بنتے ہیں
اس لیے اس عذاب کو چھوڑ کر ہم باقی دوسرے عذابوں کی طرف آتے ہیں،
آئیں تھوڑی دیر کے لیے ملکی حالات اور ملکی سیاست کو ایک طرف رکھتے ہیں اور ایک عام پاکستانی جو تعداد کے لحاظ سے 20 کروڑ ہیں ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں (1) پہلا دور۔ جو پیدائش سے لے کر 10 سال کی عمر تک کا ہوتا ہے چونکہ ایک عام پاکستانی بچہ بن مانگے ہی دنیا میں آ دھمکتا ہے اس لیے اس کی دنیا میں آمد پر نہ تو خوشیاں منائی جاتی ہیں نہ ہی مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور نہ ہی قریبی عزیز و اقارب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے پھرتے ہیں وہ اتنی خاموشی کے ساتھ اور دبے پاؤں آتا ہے کہ کئی بار تو اس کی اطلاع مہینوں بعد لوگوں کو ہوتی ہے اور جب اطلاع ہوتی ہے تو نہ تو لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خوشی ۔ لہذا اس کی آمد کی تیاریاں تو بہت دور کی بات ہے وہ ایک عام خیراتی اسپتال میں گندگیوں کے ڈھیر کے درمیان اپنا پہلا سانس دنیا میں لیتا ہے اور ڈاکٹر سے لے کر نرسوں تک اور وارڈ بوائے سے لے کر ماسی تک کی جلی کڑی باتیں وہ پہلی باتیں ہوتی ہیں، جو اس کے کانوں میں پڑتی ہیں۔
باپ کے ماتھے پر شکنیں اور اس کی ماں کو پڑتی گالیاں، گندے، میلے، کچیلے بھوکے ترستے بلکتے ان گنت بھائی بہن اس کا مل کر استقبال کرتے ہیں۔ پیلے چہرے اور زرد آنکھوں والی ہڈیوں کا ڈھانچہ، جو گھڑی گھڑی پیار سے اسے چوم رہی ہوتی ہے اس کی بے لوث محبت اور اس کے جسم کے ہر حصے سے چھلکتی ممتا سے اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ یہ ہی میری ماں ہے پھرایک سال تک اس کا دودھ کے لیے تڑپنا، بلکنا اور اس کی ماں کی اس کے لیے سسکنے کی کیفیت کو کسی بھی صورت میں الفاظ میں نہیں ڈھالا جاسکتا ہے اس درد، دکھ اوراذیت کو وہ ہی محسوس کرسکتے ہیں جو اس عذاب سے گزرے ہوں یا گزر رہے ہوں۔
اس لیے اس عذاب کو چھوڑ کر ہم باقی دوسرے عذابوں کی طرف آتے ہیں، ایک سال سے لے کر پانچ سال تک یہ بچہ گرتا پڑتا ،گالیاں سنتا، سو کھی روٹیاں پانی میں ڈبو ڈبوکر کھاتا اپنے محلے کی گندی اور زہریلی گلیوں میں کھیلتا اور اپنے ہی جیسے عذابوں میں مبتلا دوسروں بچوں کے ساتھ لڑتا جھگڑتا پانچ سال کا ہوجاتا ہے۔ اب اس کا باپ اپنی اس مصیبت کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے کہ اس مصیبت کا کیا کیا جائے وہ اپنے جاننے والوں اور دوستوں سے مشورے شروع کر دیتا ہے پھر کئی مشوروں میں سے وہ اس مشورے کوکہ اس مصیبت کو گاڑیوں کے گیراج میں ٹھکانے لگا دیا جائے کو مان لیتا ہے یہ سو چ کر کہ ایک تو بیس تیس روپے آ جائیں گے اور دوسرا یہ کہ اس کے دوپہر کے کھانے کے عذاب سے نجات مل جائے گی اورآگے چل کر وہ کمانے کی کارآمد مشین بھی بن جائے گا لہذا اب وہ گاڑیوں کے گیراج کا ایک چھوٹا سا پانا بن جاتا ہے اور اسے اس کا نیا نام چھوٹو مفت میں ہی مل جاتا ہے ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 80 فیصد بچے اس عمر میں سب کے سب چھوٹو بن جاتے ہیں اور باقی رہے 20 فیصد تو ان میں کی اکثریت برائے نام ایسے سر کاری اسکولوں میں جیسے تیسے داخل کروا دی جاتی ہے جس میں نہ تو پڑھانے والے کچھ پڑھانا جانتے ہیں اور نہ ہی پڑھنے والوں کو پڑھنے سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ سب کے سب 8 سے 1 بجے تک مل کر ٹائم پاس کرتے ہیں اور نجانے کب وہ بچہ دس سال کا ہوجاتا ہے (2)۔دوسرا دور جو دس سال کی عمر سے لے کر بیس سال کی عمر تک کا ہوتا ہے اور یہیں سے اس کی اپنے آپ سے ناراضگی اور نفرت کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ اب اسے یہ معلوم ہو چکا ہوتا ہے کہ صرف وہ ہی اس دنیا میں غیرضروری ہے وہ ایک انسان نہیں بلکہ صرف ایک مصیبت ہے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی وہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے سب جان چھڑانا چاہتے ہیں، کوئی اسے اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہاں سے وہ سلگنا شروع ہو جاتا ہے اور یہیں سے اس کے تیزاب بننے کے عمل کی شروعات ہوتی ہے چونکہ اس کی آمدنی میں اضافہ ہوچکا ہوتا ہے اور وہ چھوٹے پرزے سے بڑا پرزہ بن چکا ہوتا ہے اس لیے اس کے گھر میں اس کی فکر اور آؤ بھگت شروع ہوجاتی ہے اب وہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے۔ سستی والی سگریٹ کبھی خالی تو کبھی بھری ہوئی پینا شروع کردیتا ہے اس کے دوستوں کا ایک چھوٹا سا جواس ہی کے جیسے ہوتے ہیں بن چکا ہوتا ہے جن کی ایک جیسی سوچ ایک جیسی فکریں ایک جیسے مذاق اور ایک جیسی باتیں ہوتی ہیں کیونکہ یہ سب کے سب غیرضروری جو ہوتے ہیں۔(3)تیسرا دور ! جو بیس سال سے لے کر تیس سال کا ہوتا ہے اس عرصے میں اس کی شادی ہوچکی ہوتی ہے اس کا با پ چا رپائی پر لیٹ چکا ہوتا ہے اور وہ اپنی ساری پریشانیاں ، مصیبتیں، تفکرات چارپائی پر لیٹنے سے پہلے اس کے حوالے کردیتا ہے اور اب اس کا کام صرف کھانسنا رہ جاتا ہے ۔ اس عرصے میں اس کی بیوی اس کے ساتھ آٹھ غیر ضروری بچے دنیا میں لاچکی ہوتی ہے اور اس کی ماں کا عکس بن چکی ہوتی ہے۔
سوکھی، لاچار، ہڈیوں کا ڈھانچہ، ہر وقت بچوں اور شوہر کو برا بھلا کہنا اور اپنے آپ کو کوستی ایک غیر ضروری عورت ۔ اب وہ انسان نہیں رہتا بلکہ پریشانیوں، دکھوں، غموں ، مصیبتوں اور تفکرات کا چلتا پھرتا اشتہار بن جاتا ہے اسی عرصے میں لاکھوں چھوٹوں میں چند اور چھوٹوں کا اضافہ ہوجاتاہے (4)چوتھا دور ۔ جوتیس سا ل سے لے کر چالیس سال تک ہوتا ہے۔اب اس کا کام ذرا سا مختلف ہوجاتا ہے وہ معاشرے کے طاقتور، بااختیار اور اہل ثروت کی پیٹ بھر کر گالیاں سنتا ہے اور اپنے سے چھوٹوں کو وہ ہی گالیاں حوالے کر دیتا ہے کیونکہ اب وہ استاد بن چکا ہوتا ہے اب اس کا من نہ تو کام میں لگتا ہے اور نہ ہی گھر میں ۔ اب و ہ سارا وقت راتوں رات امیر بننے کے منصوبے بناتا اور انھیں ختم کرتا رہتا ہے اور اسی طرح خواب دیکھتے دیکھتے اور منصوبے بناتے اور بگاڑتے وہ اپنے پانچویں دورمیں داخل ہوجاتا ہے (5) پانچواں دور، جو چالیس سال سے لے کر پچاس سال تک ہوتا ہے چونکہ اب تک وہ اپنی زندگی کے ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہو چکا ہوتا ہے اس لیے اب اس کی مایوسی کے اندھیروں میں داخلے کی شروعات کا آغاز ہو جاتا ہے اب اسے اپنے آپ سے نفرت بھی ہو چکی ہوتی ہے پھر ایک ایک کر کے وہ اپنے تما م رشتوں، جذبات، احساسات کا سفاک قاتل بن جاتا ہے۔
پھر انسان مر جاتا ہے اور قاتل زندہ رہتا ہے۔ لہذا پچاس سال سے لے کر اسی سال تک کے عرصے کی اس کی اذیتوں، تکلیفوں، گھٹن، دکھ درد کو بیان کرنے کے لیے نئے الفاظ آپ ہی بتا دیں کہاں سے لائے جائیں کہاں جا کر انھیں ڈھونڈیں جو اس کیفیت کی آواز بن سکیں ، پھر وہ ایک گو شت پوست کا انسان نہیں بلکہ تیزاب بن چکا ہوتا ہے اور تیزاب کا کیا کام ہے آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں جو سماج جیتے جاگتے انسانوں کو تیزاب میں تبدیل کر دے، ایسے سماج کو کیا آگ نہیں لگا دی جائے ۔