معیشت کا پہیا چلانے کے لیے مزدوروں کو اُن کے حقوق دینا ہوں گے

آج کا مزدور بونس اور تنخواہ کیلئے نہیں بلکہ صنعت کو بچانے کیلئے باہر نکلتا ہے، لیبر میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔


Shehzad Amjad December 05, 2012
ایکسپریس فورم کے شرکا کا کہنا ہے کہ بہت سے اداروں کے مزدور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں، انہیں رجسٹر ہونا چاہیے۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان میں مزدور کے اوقات روز اول سے ہی تلخ رہے ہیں۔

اس کی ساری زندگی دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے سرگرداں رہنے میں ہی بسر ہو جاتی ہے۔ یوں زندگی کی دیگر سرگرمیوں میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر دور کی حکومت نے مزدور کی فلاح و بہبود کیلئے بلند و بانگ دعوے کئے لیکن عملاً کچھ نہیں ہوسکا، مزدور کے روز شب وہی رہے اور سرمایہ دار کی بنائی ہوئی پالیسیاں اس پر مسلط رہیں۔

حکومت نے انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)کے چارٹر پر بھی دستخط کررکھے ہیں اور مزدور کی اجرت میں اضافہ، اس کے اوقات کار کا تعین ، اسے بہتر ماحول کی فراہمی اور اس کے خاندان کو تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرنے سمیت بہت سی مراعات کا اعلان بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود مزدور بدحالی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حکومت اور آجر مزدور کی کارکردگی اور ان کے رویئے کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیںچنانچہ حکومت، آجر اور اجیر کے درمیان کئی بار سہ فریقی مذاکرات شروع ہوئے لیکن ابھی تک مزدوروں اور مالکان کے درمیان مثالی تعلقات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔

وہ کونسی رکاوٹیں ہیں جو مزدوروں اور صنعتکاروں کے درمیان اچھے تعلقات کی راہ میں حائل ہیں؟ اور حکومت اس ضمن میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس حوالے سے روزنامہ ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا۔ اس فورم میں حکومت پنجاب کی طرف سے سیکرٹری محنت حسن اقبال، صنعتکاروں کی طرف سے شیخوپورہ چیمبر آف کامرس کے چیئرمین منظورالحق اور مزدورں کے نمائندوں کے طور پر سیکرٹری جنرل آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، روبینہ جمیل سیکرٹری اطلاعات نیشنل لیبر فیڈریشن عبدالرشید ڈوگر نے شرکت کی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

حسن اقبال (سیکرٹری لیبر )

محکمہ لیبر اور قوانین کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں اور زمینی حقائق کے دائرہ کار میں فرق ہے ۔ 18ویں ترمیم سے پہلے شعبہ لیبر وفاق کے پاس تھا جو کہ اب صوبوں کے پاس آیا ہے مگر صوبوں کو پوری طرح اختیارات نہیں دیئے گئے اور لیبر ویلفیئر کا شعبہ وفاقی حکومت نے ابھی تک اپنے پاس رکھا ہے۔ لیبر قوانین کے حوالے سے صرف 50فیصد اختیارات ہمیں منتقل کئے گئے ہیں تاہم فنڈز ابھی تک ہمیں نہیں دئیے گئے۔ اس کے باوجود جب سے لیبر ڈیپارٹمنٹ ہمارے پاس آیا ہے ہم نے پنجاب لیبر ویلفیئر بورڈ بنا کر اس پر بہت کام کیا ہے ۔

مزدوروں کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہم نے 26لیبر کالونیاں بنائی ہیں اوررہائشگاہوں کے مزید کچھ منصوبے بنا کر وفاقی حکومت کو بھجوائے ہوئے ہیں، جن میں مزدور عورتوں کو وظائف، بچیوں کی شادی کیلئے میرج گرانٹ دینے کے منصوبے شامل ہیں، مگر ابھی تک وفاقی حکومت نے ان کی منظوری دے کر فنڈز جاری نہیں کئے ہیں۔ جب میں نے سیکرٹری لیبر کے عہدے کا چارج سنبھالا تو اس وقت لیبر ویلفیئر گرانٹ کے لئے 3,3سال پہلے کے کیسز لٹکے ہوئے تھے مگر میں نے آتے ہی ان کیسز پر کام شروع کیا اور شروع کے پانچ ماہ میں دن رات کام کرکے ان کیسز کو نمٹایا اور اب کوئی کیس التوا کا شکار نہیں ہے۔ جو بھی گرانٹس ہمارے پاس ہیں وہ ہم مزدوروں میں تقسیم کررہے ہیں ۔

ورکرز ویلفیئر گرانٹس کی مد میں اب تک پونے دو ارب روپے تقسیم کرچکے ہیں۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ لیبر ویلفیئر فنڈ سے پیسے نہیں ملتے مگر اب میں کہتا ہوں کہ کسی کے علم میں کوئی کیس ہے تو اس کا نام بتاؤ میں اس کو حل کروں گا، پھر بھی میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے سو فیصد یہ مسئلہ حل کرلیا ہے ، مگر پہلے سے بہت بہتری آئی ہے۔ جہاں تک مزدوروں کے حقوق کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کا اپنا نکتہ نظر ہے، لیبر ڈیپارٹمنٹ کو معاملات کو چلانا ہوتا ہے ، ڈیپارٹمنٹ کو آجر کے مسائل اور تحفظات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے اور مزدور کے تحفظات بھی دور کرنا ہوتے ہیں۔

یہاں بہت سے اداروں کے مزدور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں، انہیں رجسٹر ہونا چاہیے ، ہم اس کیلئے کام کررہے ہیں،محکمہ لیبر بہت حد تک اس میںکامیاب ہوا ہے، کم از کم مزدوری جو حکومت نے طے کی ہے وہ بھی ہر مزدور کو ملنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ مزدور زیادہ ہیں اور کام کم ہے ۔ یہ تو ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول بھی ہے کہ ڈیمانڈ کم اور سپلائی زیادہ ہو تو قیمت گر جاتی ہے اسی طرح مزدوروں کے معاملے میںہوتا ہے، جب کسی بھی ادارے یا صنعت کو مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک کی جگہ کئی مزدور وہاں پہنچ جاتے ہیں اور وہ کم مزدوری پر کام کیلئے تیار ہوجاتے ہیںتو اس وقت محکمہ بھی مجبور ہوجاتا ہے۔

دوسری طرف فیکٹری مالکان کے بھی تحفظات ہوتے ہیں کہ ان کی آمدن اتنی نہیں ہوتی کہ وہ کم از کم اجرت 9ہزارروپے ماہوار دے سکیں۔ ہمارے ہاںٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کی بہت کمی ہے اور ہمیں اس طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ جو آدمی محنتی ہو اور اس کے پاس ہنر بھی ہو تو اس کی ہر جگہ مانگ ہوتی ہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے ٹیوٹا کا محکمہ بنایا تھا جس کا چیئرمین بھی پرائیویٹ سیکٹر سے منتخب کیا جاتا ہے تاکہ وہ پرائیویٹ سیکٹر اپنی ضرورت کے تحت ماہریا کاریگر پیدا کرسکے مگر وہاں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔

01

میں نے پنجاب حکومت کو تجویز دی تھی ٹیوٹا کو محکمہ لیبر کے تحت کردیا جائے تاکہ ہم اسے بہترانداز میں چلاسکیں مگر میری تجویز کو رد کردیا گیا، اب بھی ہم ٹیوٹا کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہیں اس کو جس طرح کی سہولت اور جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہم دینے کو تیار ہیں۔ 2002ء میں جب فیکٹریوں کی انسپکشن بند کی گئی تو اس وقت صرف لیبر ڈیپارٹمنٹ نے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ محکمہ ماحولیات، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ اس میں شامل تھے اور سب کی مشاورت سے انسپکشن بند کی گئی تھی۔ مارچ 2012ء میں اسے پھر سے بحال کر دیا گیا ہے۔ کراچی اور لاہورکی فیکٹریوں میں آگ لگنے سے جو حادثات ہوئے ہیں ان میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کا قصور نہیں ہے اور نہ ہی لیبر ڈیپارٹمنٹ اس کا ذمہ دار ہے کیونکہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس انسپکشن کی ذمہ داری تب آتی ہے جب فیکٹری بن کر تیار ہو جاتی ہے اور اس میں کام شروع ہوجاتا ہے۔

شہری علاقوں میں فیکٹریاں بننے میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ کسی بھی فیکٹری کے معاملات میں ہم اس وقت دخل دیتے ہیں جب وہاں لیبر یونین اس پر ایکشن لیتی ہے۔ ہمارے ہاں مسائل ایک بندے کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتے اس میں بہت سے عوامل ہوتے ہیں ان مسائل کے حل میں بھی وقت لگتا ہے، 2012ء میں جب انسپکشن بحال ہوئی تو مجھ سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ فوری طور پر فیکٹریوں کے خلاف ایکشن لینا شروع کردیا جائے مگر ہم نے مزدور تنظیموں کو سمجھایا کہ فوری طور پر ایکشن لینا مناسب نہیں بلکہ مرحلہ وار کام کرتے ہوئے ایک طریقہ کار بنایاگیا جس کے تحت پہلے مرحلے میں فیکٹری مالکان کے ساتھ ڈائیلاگ کیا گیا جس میں مزدور نمائندے بھی شامل تھے اور فیکٹری مالکان کو بتایا گیا کہ اگر وہ قوانین پر عمل شروع کردیں تو مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

فوری طور پر فیکٹری مالکان کو چار احکامات پر عملدرآمد کیلئے کہا گیا جس میں صحت، حفاظتی اقدامات، بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ شامل تھے۔ ہم نے تمام صنعتکاروں کو کہا کہ ہر کسی کو موقع دیں گے پہلی انسپکشن میں انہیں قوانین پر عملدرآمد کیلئے کہا جائے گا اور مناسب وقت بھی دیا جائے گا جبکہ دوسری انسپکشن میں چیک کریں گے کہ دی گئی ہدایات پر عملدرآمد ہوا یا نہیں اس کے بعد دو دفعہ درخواست کی جائے گی کہ قوانین پر عمل کرے، اگر تب بھی عمل نہ ہوا تو اس کے خلاف کوئی لیبر انسپکٹر کارروائی نہیں کرسکے گا بلکہ ڈی جی خود کارروائی کرے گا اور ہم چیمبرز کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے۔

سوشل سکیورٹی لاز اجتماعی دانش کے تحت بنائے جاتے ہیںجو قانون جتنا پرانا ہوگا، اتنا ہی مؤثر ہوگا ۔ قانون میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا مگر اس پر عملدرآمد ہونا چاہیئے اگر قانون بنادیا جائے اور اس پر عمل نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں، کہا جاتا ہے کہ محکمے میں کرپٹ لوگ قانون پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتے، کرپٹ لوگوں کو میںخود ڈھونڈتا ہوں مگر کوئی ان کی نشاندہی کرتا ہے نہ شکایت کرتا ہے۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ میں مزدور اور آجر دونوں کی نمائندگی موجود ہے اور ہر ہفتے اس کی میٹنگ ہوتی ہے۔ آئی ایل او انٹر نیشنل کمیونٹی ہے مگر ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آئی ایل او ہمیں آکر بتائے کہ اپنے مزدوروں کیلئے ایسا کرو بلکہ ہمیں خود اپنے معاشی اور معاشرتی حالات کے مطابق کام کرنا چاہئے۔

میں مزدور کو کم سے کم 9ہزار روپے اجرت دلانے کو تیار ہوں، اگر آجر دے سکتا ہو، اگر آجر اتنی اجرت دے کر اپنا کاروبار ہی نہیں چلا سکتا تو اس کو مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سنا تاہوں جب میں سرگودھا میں ڈی سی او تعینات تھا اوراس وقت کم سے کم اجرت 7ہزار روپے طے تھی، وہاں میں نے احکامات جاری کردیئے کہ اس سے کم اجرت دینے والی فیکٹریاں اور کارخانے بند کردیئے جائیں گے، ایک فیکٹری کے بارے میں پتہ چلا کہ وہاں سو کے قریب لوگ کام کرتے ہیں اور وہ اجرت ساڑھے پانچ ہزار فی کس دے رہا ہے تو میں نے فیکٹری مالک کو بلاکر کہا کہ یا تو کم از کم اجرت کے قانون پر عمل کرو ورنہ میں فیکٹری سیل کردوں گا۔

فیکٹری مالک نے مجھے بتایا کہ اگر میں 7ہزار اجرت دیتا ہوں تو مجھے اپنے پاس سے دینے پڑیں گے اور فیکٹری نقصان میں چلی جائے گی، اس لئے یا تو میں اسی اجرت پر کام چلاؤں یا فیکٹری بند کردوں، مگر میں نے اسے 7ہزار ہی اجرت دینے کا کہا جس پر اس نے اگلے مہینے فیکٹری بند کردی۔ فیکٹری بند ہونے کے بعد مزدور اکٹھے ہوکر میرے پاس آگئے اور کہا کہ آپ نے ہمارا بھلا کرنے کی بجائے ہمارے ساڑھے پانچ ہزار بھی بند کرا دیئے ہمیں جو مل رہا ہے ہم اسی میں خوش ہیں جس پر مجبوراً مجھے وہ فیکٹری ساڑھے پانچ ہزار اجرت کے ساتھ ہی چلانے کی اجازت دینا پڑی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایم بی اے کئے ہوئے نوجوان 8ہزار روپے ماہانہ پر کام کررہے ہیں، صرف پنجاب میں سرکاری طور پر کم از کم اجرت 9ہزار ہے باقی تمام صوبوں میں یہ 8ہزار ہے۔ ہمیں اپنی معاشی پالیسیز، صحت، ایجوکیشن سمیت تمام پالیسیز کو بدلنے اور بہتر کرنے کیلئے غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ملک کی تمام لیبر باہر نہ چلی جائے۔

منظور الحق ملک (چیئرمین چیمبر آف کامرس شیخوپورہ )

مزدور کے کام کرنے کی ایفی شینسی اور مہارت بڑھانے کیلئے ورکرز کو ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے ایسے اداروں میں مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ایسے کورسز کرائے جائیں جو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ورکرز کے کام کی اہلیت بڑھاسکیں ، ان اداروں میں ایسے کورسز کرائے جائیں جو ملکی صنعت کی ضروریات پوری کرسکیں۔ صنعتکاروں کے ساتھ بہت سے مسائل ہیںکیونکہ ایک دن بجلی نہیں ہوتی تو دوسرے دن گیس غائب ہوتی ہے اس صورتحال میں جب کہ صنعت ایک دن چلے اور دوسرے دن بند ہوتو 9ہزار اجرت کیسے دی جاسکتی ہے انڈسٹری چلے گی تو مزدور کو اجرت ملے گی اگر انڈسٹری ہی نہیں چلے گی تو کم از کم 9ہزار اجرت اپنی جیب سے تو دے نہیں سکتے۔

ہمیںماضی کو بھلا کر مستقبل کو دیکھنا ہے اورآگے چلنا ہے اس لئے اب مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ماضی میں مزدور یونین اور صنعتکاروں نے ایک دوسرے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس سے قطع نظر کریں اور مستقبل میں چیمبر میں صنعتکاروں کے ساتھ مزدوروں کو بھی نمائندگی دی جائے تو دونوں مل بیٹھ کر مسائل کا بہتر حل نکال سکتے ہیں۔ دنیامیں آج جدید ترین نظام آگئے ہیں۔ مہارت کا معیار بھی بڑھ گیا ہے ہمیں بھی اپنی مہارتوں کوبڑھانا چاہیے۔

02

پوری دنیا میں فی گھنٹہ مزدوری کا نظام رائج ہے جس میں آجر اور مزدور دونوں کیلئے فائدہ ہے مزدور کو جب بھی فرصت ہو گھنٹے کے حساب سے مزدوری کرسکتا ہے اور صنعتکار کو جتنی ضرورت ہو اتنی مزدوری کراسکتا ہے مگر وہ نظام ہمارے ہاں لاگو نہیں ہے اس پر کام کرنے کی ضروت ہے۔اس وقت مزدوروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صنعتوں کے ساتھ لیبر کالونیاں نہیں ہیں مزدور فیکٹری سے چھٹی کرنے کے بعد سوچتا ہے کہ گھر کیسے جائے کیونکہ فیکٹری سے گھر تک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی کم ہے اور اگر ہو بھی تو خرچ اتنا ہوجاتا ہے کہ مزدور کیلئے مشکل ہوتا ہے۔ مزدور یونین بنانے کیلئے کسی جگہ کم از کم دس مزدور ہونے کی شرط بھی ختم ہونی چاہیے۔

کہیں ایک بھی مزدور کام کرتا ہو اس کی بھی انشورنس ہونی چاہیے۔ یہ بھی قانون ہے کہ اگر کسی فیکٹری میں سو مزدور کام کرتے ہیں تو وہاں ہسپتال بنانا ضروری ہے یہ قانون ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جس فیکٹری میں سو مزدور کام کرتے ہیں اس کے پاس ہسپتال بنانے کے وسائل نہیں ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر کہیں پرچون کی دکان بھی چل رہی ہے تو اس پر بھی اس کا لائسنس نمبر لکھا ہوتا تھا مگر اب ہم اس کو بھی چھوڑ چکے ہیں۔ ہم نے کبھی دل سے سٹیٹ کو سٹیٹ نہیں سمجھا۔ تمام چیمبرز برابر ہیں، ہمیں مہذب معاشروں کی طرح ڈائیلاگ میں جانا چاہیے۔

روبینہ جمیل (سیکرٹری جنرل آل پاکستان ٹریڈ یونین)

آج کا مزدور بونس اور تنخواہ کیلئے نہیں نکلتا بلکہ اب وہ صنعت کو بچانے کیلئے باہر نکلتا ہے، لیبر میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ لیبر قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے اس کی ذمہ اری ریاست پر ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور اس سے ملحقہ اداروں سمیت ٹریڈ یونینز اورلیبر یونین ورکر کے حقوق کی نمائندگی کیلئے چار فیصد کام کررہے ہیں۔ملک میں موجود حالات ایسے ہیں جیسے آمرانہ دور میں ہوتے ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں ،آئی ایل او اور انڈسٹری حقوق پر فیکٹری سے عملدرآمد کروایا جائے جبکہ ملک میں بجلی گیس اور کئی ایسی مشکلات کی وجہ سے مزدوروں کو مسائل کا سامنا ہے۔

جہاں مزدور اکھٹے ہوتے ہیں وہاں پر مزدوروں کو ان کے حقوق دینے کے حوالے سے نتائج خاطرخواہ سامنے آتے ہیں۔ اب قانون بنا ہے کہ کسی بھی فیکٹری میں کام کرنے والے کم ازکم پندرہ مزدوروں پر مشتمل یونین ہونی چاہیے اور اگر کسی فیکٹری میں دس مزدور کام کررہے ہوں گے وہ آپس میں یونین نہیں بنا سکتے ہیں اور ان مزدوروں کو سوشل سکیورٹی اور دیگر لیبر ایکٹ کے مطابق مراعات نہیں مل سکیں گی۔

03

اگر کسی فیکٹری میں مزدوروں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کیلئے کوئی تنظیم نہیں وہاں کام کرنے والے مزدوروں کو لیبر ایکٹ کے مطابق سہولتیں فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ ابھی بھی لیبر انسپکٹر فیکٹریوں میں انسپکشن کے لیے داخل نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے فیکٹری مالکان مزدوروں سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ صرف کام لیتے ہیں بلکہ مزدوروں کو زیادہ کام کرنے کے عوض اوورٹائم بھی نہیں دیا جاتا ہے۔

جن اداروں میں خواتین کام کررہی ہیں ان خواتین کو ترقی کے لیٹرز بھی نہیں ملے ہیں جو کہ ان خواتین کے ساتھ سراسرزیادتی ہے ان خواتین کو میڈیکل کی چھٹیاں بھی نہیں ملتی ہیں جبکہ یہ خواتین مجبور ہوکر نوکری کرتی ہیں ۔ آئی ایل او کے قوانین کے مطابق کام ہونا چاہیے اور اس کے مطابق ہی مزدوروں کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔ اس مقصد کیلئے ٹریڈریونین کے عہدیداروں کو بٹھا کر اس پر کام ہونا چاہئے جبکہ جنجوعہ کے دورمیں بھی حالات برے تھے لیکن اس پر بھی کام کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات نہ کی جائے کہ یونین والے غنڈے ہیں بلکہ ہم مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے ہیں جبکہ یونین بنانا ہی ہمارا جرم ہے اور لیبر یونین کو فعال بنانے کیلئے کمیٹی بنائی جائے اور اس کمیٹی میں یونین کے عہدے داروں کو بھی شامل کیا جائے۔ لیبر انسپکشن کو شروع کیا جائے اور مزدروں کی تنخواہیں مقرر کی جائیں اور ان کو اوورٹائم بھی دیا جائے۔

عبدالرشید ڈوگر (انفارمیشن سیکرٹری نیشنل لیبر فیڈریشن )

مزدوروں کے حقوق کیلئے چیمبر اور لیبر کے مزدوروں کو اکٹھا بٹھادیں۔ آج دنیا بات چیت کے ذریعے ہی ترقی کررہی ہے، حکومتی سطح پر چیمبر کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن حکومتی سطح پر لیبر تنظیموں کو شامل نہیں کیا جاتا ہے پنجاب گورنمنٹ اس جانب توجہ دے جبکہ ہمیں اپنے حقوق کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے دینے پڑتے ہیں۔ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے جو قوانین بنائے جاتے ہیں وہ لیبر کو پروموٹ کرنے کیلئے نہیں بنائے جاتے بلکہ ملز مالکان کو پروموٹ کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزدور معیشت کو چلانے میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اسے اہمیت نہیں دی جاتی اور کریڈٹ دوسرے شعبوں کو دیا جاتا ہے۔

جب کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو تب لیبر کی بات ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل سطح پر لیبر کو نقصان پہنچایا جارہا ہے لیبر قوانین میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہر دور میں حکومت میں مزدوروں کو ان کے حقوق دینے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے مزدوروں کو ان کے حقوق نہیں دلوائے برعکس اس کے ہر حکومت نے مزدوروں کو استعمال کیا۔ لیبر انسپکشن ٹیمیں فیکٹری مالکان کے ساتھ سازباز کرکے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور کسی بھی لیبر انسپکشن ٹیم نے فیکٹری مالکان کے خلاف اس حوالے سے ایکشن نہیں لیا کہ مزدوروں کو فیکٹریوں میں لیبر ایکٹ کے مطابق بنیادی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں یا کہ نہیں۔

04

فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں سے بارہ بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے لیکن ان کو پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے جس وجہ سے آج مزدور بڑی مشکل سے اپنے بال بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلارہا ہے ۔حکومت صنعتکاروں کے ساتھ مذاکرات تو کر لیتی ہے لیکن مزدوروں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتی جبکہ کسی بھی ملک کی ترقی میں مزدوروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینا شروع کر دیں تو مزدوروں کو ان کے حقوق مل جائیں گے۔

لیبر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جس وجہ سے مزدوروں کو ان کے حقوق نہیں ملتے ہیں۔ فیکٹریوں میں لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں سے کام لیا جاتا ہے اور اکثر اوقات فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سسٹم کو بہتر کرنے کیلئے ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں