تیسرا گاؤں
لاہور ایک خوش قسمت شہر ہے جس میں شہزادوں اور شہزادیوں نے اپنے خوبصورت ٹھکانے بنائے
پہلا گاؤں تو وہ تھا جس میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا، دوسرا گاؤں تعلیمی اداروں کا تھا جن میں میری اچھی بری تعمیر ہوئی اور تیسرا گاؤں یہ ہے جس میں ان دنوں میں شب و روز کر رہا ہوں۔
میں نے ان تینوں کو گاؤں کہا ہے کہ زندگی کی جدید سہولتیں تینوں میں نہیں تھیں اور تھیں تو نامکمل چنانچہ میرے مطابق یہ شہر نہیں تھے۔جدید دور کی پہلی سوغات بجلی ہے جو زندگی کو جدید بناتی ہے یا یوں کہیں کہ شہری بناتی ہے اور دیہات کی سادہ زندگی سے باہر لے آتی ہے لیکن میری قسمت میں جدید دور کی سوغات یعنی بجلی اگر تھی بھی تو نامکمل اپنے شہریوں کو ترساتے رہنے والی۔ میری پیدائش کے وقت تو ہمارے ہاں بجلی تھی ہی نہیں۔ بجلی کے روشن تصور سے نا آشنا ایک سادہ سا گاؤں جس میں مکان بڑے بڑے تھے لیکن اندھیرے۔ ان میں بجلی نہیں تھی، لاہور جیسے بڑے شہروں میں تو بجلی موجود تھی غالباً 1930ء کی دہائی کے آخر میں شہروں میں بجلی کوند گئی تھی لیکن کسی حد تک محدود وقت کے لیے۔ رات کے ابتدائی حصے میں روشنی کی جا سکتی تھی لیکن کچھ وقت کے لیے بجلی کی آمد کے یہ قصے کہانیاں ہمیں اپنے پرانے لاہوری دوست سنایا کرتے تھے جو اس حیرت اور تعجب کی کیفیت کو بیان کرنے کی کوشش کرتے تھے جو بجلی کی آمد پر ہوتی تھی اور بعض گھروں میں لوگ بجلی دیکھنے اور اس کا بٹن دبا کر حیرت زدہ ہونے سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی چلے جاتے تھے۔
یہ میں لاہور جیسے مرکزی شہر کی بات کر رہا ہوں جو پنجاب کا دارالحکومت تھا اور جہاں کتنے ہی تاریخی مقامات تھے اور تعلیمی ادارے، لاہور کو کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا۔ اسلامیہ کالج سے لے کر مشہور گورنمنٹ کالج تک جہاں بڑی تعداد تعلیم پاتی تھی۔ ویسے تو لاہور کو باغوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا اور یہاں کے باغات بہت مشہور تھے لیکن معلوم ہوتا ہے اس شہر کو باغوں سے کچھ زیادہ رغبت نہیں تھی کہ آج یہ شہر سرسبز ضرور ہے مگر یہاں کے باغات بہت محدود ہو چکے ہیں۔ انگریز حکمرانوں نے اس شہر کو باغوں کا سرسبز شہر بنانے کی بہت کوشش کی یہانتک کہ گورنر سر ریواز ایک لاہوری ماہر تعمیر سرگنگارام سے مل کر اس شہر کی گرم دوپہروں میں مال روڈ کے دونوں طرف درخت لگاتے تھے اور ان میں سے کئی درخت آج بھی زندہ ہیں لیکن وہ پورے لاہور کو ایک باغ بنا دینا چاہتے تھے چنانچہ انھوں نے ریواز گارڈن کے نام سے ایک قطعہ زمین مخصوص کیا جو باغوں میں سے ایک معروف باغ بن کر زندہ رہا۔ زندہ تو وہ اب بھی ہے مگر مکانوں کے ایک ہجوم کے ساتھ، باغ کم اور آبادی زیادہ۔
لاہور ایک خوش قسمت شہر ہے جس میں شہزادوں اور شہزادیوں نے اپنے خوبصورت ٹھکانے بنائے اور خود اس شہر کے لاہوری بھی سرسبز خطوں کے خالق رہے۔ لاہور کی پرانی فصیل کے ساتھ یہ باغات ایک دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں اور پورے لاہور کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ لاہور کا ہر دروازہ اپنے باغ سے پہچانا جاتا ہے جیسے باغ بیرون موچی دروازہ وغیرہ۔ یہ جگہ کبھی سیاسی جلسوں کے لیے مشہور تھی اب یہ جلسے لاہور کی جدید عمارتوں میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں جلسے بھی ہوتے ہیں اور محفلیں بھی برپا ہوتی ہیں لیکن لاہور کی روائتی جلسہ گاہیں اب ختم ہو گئی ہیں ایک مشہور جلسہ گاہ موچی دروازے کو گورنر کھر نے زندہ کیا اور اس میں جلسہ گاہ کی اسٹیج تعمیر کرائی لیکن تب تک سیاسی جلسے یہاں سے پڑاؤ باندھ چکے تھے اور مال روڈ کے علاقے میں منتقل ہو چکے تھے۔
اب اسی علاقے میں ایک گول باغ ہے جہاں شاذونادر ہی کوئی جلسہ ہوتا ہے جب کہ موچی دروازے میں جلسے روز روز ہوا کرتے تھے۔ اب ان جلسوں کی یاد ہی باقی رہ گئی ہے۔ سیاسی دنیا بھی بدل گئی ہے اور وائی ایم سی اے ہال بھی اب جلسوں کی میزبانی کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے لیکن بہت کم کیونکہ اب ایسے جلسے ہی بہت کم ہوتے ہیں۔ یوں لاہور کی سیاسی سرگرمیوں کے مرکز بھی اپنے ٹھکانے بدل چکے ہیں بلکہ اب تو کوئی سیاسی جلسہ شاذونادر ہی ہوتا ہے ان جلسوں کی جگہ اخبارات نے لے لی ہے جن کے صفحات جلسہ گاہیں بن گئی ہیں۔
اب یہ اخباری جلسے بھی رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں اگر سیاسی جلسے باقی رہتے ہیں تو ان کی کیا شکل و صورت بنتی ہے یہ بھی دیکھ لیں گے ویسے سیاسی جلسے اب بہت ہی کم ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنی بات عوام تک پہنچانے میں پریس کانفرنسوں کا سہارا لیتے ہیں جو ایک آسان اور سستا ذریعہ ہے۔ صوبہ سرحد کے خان غلام محمد لوند خوڑ پریس کانفرنس کرتے تھے اور مہمانوں کے لیے میز پر رکھی پیسٹریاں بھی گنا کرتے تھے کہ کتنی کھائی گئیں کتنی واپس ہوٹل والے لے گئے اور کتنا بل بنایا گیا ہے۔ مرحوم خان صاحب نے سیاست میں اپنی قیمتی جائداد بیچ دی اور اب ان پر غربت طاری تھی جب وہ لاہور منتقل ہو گئے اور یہاں اپنی سیاست زندہ رکھنے کے لیے پریس کانفرنسیں شروع کر دیں لاہور کے مہنگے ہوٹلوں میں۔