چائنا پاکستان گرین کوریڈور بھی ضروری
آیئے ذرا پاکستان کی موحولیاتی صورتحال کا جائزہ لیں۔
ہم تقریباً ہرکام ہی وقت گزرنے کے بعد کرتے ہیں مثلاً دہشتگردی کی جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ پہلے کرینگے اور ملک میں دہشتگردی سے نمٹنے کی پالیسی 10 سال بعد بنائینگے اور اس پہ عمل مزید 5 سال بعد بھی نہیں کرینگے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ یہ سلوک ہم CPEC کے ساتھ نہیں کریں اور اس کے تمام ہی پہلوؤں پر ابھی سے ہی کام شروع کر دیں۔
مثلاً اس کا ماحولیاتی پہلو،CPEC امید ہے کہ اپنے ساتھ وسیع پیمانے پہ نئی صنعتی شہروں کا قیام اور صنعتی تجارتی اور مواصلاتی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ لے کر آئے گا اور یہی سب کچھ پاکستانی معیشت کو چاہیے۔ مگر جب ہم اپنے پہلے سے موجود صنعتی شہروں کا حال دیکھتے ہیں تو لازماً ہمیں کئی طرز کی پریشانیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ مثلاً آپ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہرکراچی کو لے لیں جو غالباً دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئرکچراکنڈی کا اعزاز رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور چین دونوں ہی انتہائی خطرناک ماحولیاتی مسائل سے دوچارہیں۔
آیئے ذرا پاکستان کی موحولیاتی صورتحال کا جائزہ لیں۔ ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی جولائی 2015ء کی رپورٹ کے مطابق کراچی دنیا کے پانچ سب سے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہے۔ راولپنڈی اور پشاور بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہیں۔ سال 2016ء کے فروری کے PETE GUEST کے DATA GRAPHIC اور WHO کی گائیڈ لائنز کے مطابق کراچی نے دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ ترین شہروں میں اپنی نمایاں حیثیت برقرار رکھی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کی بنا پر سالانہ 29000 اموات ہوتی ہیں۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹمز، شہری اور صنعتی ہوا، پانی و حیوانی فضلے سے چلنے والے پلانٹس کی غیر موجودگی گاڑیوں کی فٹنس اور اعلیٰ معیار کے فیول کے فقدان، پلاسٹک شاپنگ بیگز کی جاہلانہ بھرمار اور فصلوں میں خطرناک کیمیکل زہریلے مادوں کے اسپرے نے پاکستان کے ماحول کو تباہی سے دوچارکر دیا ہے۔ رہی سہی کسر کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹس پوری کرنے کو ہیں۔
ادھر چین میں بھی صورتحال کچھ اچھی نہیں۔ اپریل 2014ء میں چین کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ دی کہ چین کا 60 فیصد زیر زمین پانی آلودہ ہو چکا ہے۔ چین کی LAND AND RESOURCE منسٹری نے 203 چینی شہروں کے TESTING SPOTS 4778 کے جائزے سے پتہ چلایا کہ 44 فیصد کا زیر زمین پانی کافی خراب جب کہ 15.7 فی صد کا انتہائی خراب تھا۔ 2013ء میں XINHUA (چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی) نے بتایاکہ چین کی پانی کی کل ریسورسز کا ایک تہائی حصہ زیر زمین پانی پر مشتمل ہے اور ملک کے شہری علاقوں کا صرف 3 فیصد زیر زمین پانی ''صاف'' قرار دیا جا سکتا ہے ادھر GREENPEACE کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق 2015ء میں فضائی معیارکو چانچنے والے معیار پہ چین کے تقریباً 300 شہر ناکام ہو گئے۔
چین کے اہم شہروں مثلاً بیجنگ، شنگھائی،گوان ژو اور شی آن (Xian) کی فضا میں PM2.5 یعنی آلودگی کے ایسے ذرات جن کا AERODYNAMIC DIAMETER یعنی قطر 2.5ym (مائیکرو میٹر) سے کم ہے کی کثافت کے لیولز WHO کی گائیڈ لائنز سے تجاوزکرتے ہیں اس قدر زیادہ آلودہ فضا سے کینسر اور وقت سے پہلے اموات کے خطرات کے علاوہ انسانی جسم کے CARDIOVASCULAR SYSTEM یعنی نظام قلب اور CARDIOVASCULAR SYSTEMیعنی دماغ اور اس کی خون کی شریانوں کے نظام کو بھی وسیع تر خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
ہر سال 1.6 ملین (16 لاکھ) سے زیادہ لوگ چین میں زہریلی فضا میں سانس لینے کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور جہاں تک چین میں SOIL POLLUTION یعنی مٹی کی آلودگی کا تعلق ہے تو چین کی ماحولیاتی تحفظ کی وزارت نے پورے ملک میں تقریباً 630 مربع کلومیٹر زمین کے مختلف رقبوں کو نمونوں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک 7سالہ ریسرچ کروائی جو دسمبر 2013ء میں اختتام پذیر ہوئی اس ریسرچ سے پتا چلا کہ چین کی زرعی زمین کا پانچواں حصہ آلودہ ہے۔
سروے رپورٹ سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر چین کی 16 فیصد مٹی میں آلودگی کی موجودگی چین کے قومی اسٹینڈرڈز سے زیادہ ہے جب کہ قابل کاشت زمین میں یہ شرح 20 فیصد ہے۔ ماحولیاتی مسائل کے علاوہ ایک اور مماثلت جو دونوں ممالک کو نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ چینی کمپنیز دوسرے ممالک میں رشوت دینے اور پاکستانی سرکاری حکام اور اہلکار رشوت لینے میں عالمی شہرت رکھتے ہیں چنانچہ CPEC کے ضمن میں ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کے بغیر وسیع پیمانے پر صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے چلنے کا امکان موجود ہے جس سے نہ صرف ملک کے ماحول کو نقصان پہنچے گا بلکہ آگے چل کر یہ ماحول CPEC کے لیے بھی طویل المعیاد نقصان کا باعث بن سکتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں دس بیس سال بعد اقدامات پر غور شروع کرنے اور پھر کمیٹیاں وغیرہ بنانے کے بجائے ہمیں معجزانہ طور پر ابھی سے کام شروع کر دینا چاہیے یعنی ہمیں CPEC کے ساتھ CPGC (چائنا پاکستان گرین کوریڈور) بھی بنانا چاہیے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کے برعکس چین کی حکومت اپنے ملک میں ماحول کی بہتری کے لیے وسیع اقدامات اٹھا رہی ہے مثلاً ماحول دوست جدید ترین ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری، کوئلے کے استعمال میں مسلسل کمی، گرین انرجی کا پھیلاؤ، ماحول کی حفاظت کے لیے وسیع اور سخت تر قوانین اور ضابطوں کا قیام اور عمل در آمد اور عوام میں ماحول کی حفاظت کا شعور پیدا کرنے کے لیے مسلسل کوششیں چنانچہ ہم امید کر سکتے ہیں کہ اپنے ملک میں ماحول کی حفاظت کے لیے انقلابی کارروائی کرنے والی چینی حکومت پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل کر PCEC کے ساتھ CPGC بھی قائم کریگی جو کہ مندرجہ ذیل اقدامات اور منصوبوں پر مشتمل ایک جامع نظام ہو سکتا ہے۔
(1) قانون سازی اور اس پر سچ مچ کے عمل درآمد کے ذریعے متروک اور قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانے والی مشینری، ٹیکنالوجی اور سرگرمیوں پر مستقل اور مسلسل مکمل پابندی۔ (2) پورے CPEC میں ملٹی پل ٹائپ ویسٹ مینجمنٹ سسٹمزکا قیام اورکام۔ (3) پورے CPEC میں ایئراور واٹر ٹریٹمنٹ پلاٹس کا قیام اور کام۔ (4)گرین انرجی کی وسیع سے وسیع تر پروڈکشن۔ (5)CPEC سے متعلق تمام ہائی ویز، سڑکوں اور صنعتی و تجارتی علاقوں میں کئی کئی تہوں پر مشتمل پاکستان کے مقامی (INDIGENOUS) درختوں کی شجرکاری۔ (6) ملک بھر میں وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے پاس ابھی بھی قابل کاشت و استعمال زمین کے وسیع رقبے موجود ہیں چنانچہ CPEC کے مغربی اور مشرقی دونوں روٹس پر ہر 50 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر چین پاکستان پرائیویٹ کمپنیوں کے پارٹنر شپ کے ذریعے MANMADE FORESTS کا قیام، حکومتیں ان کمپنیوں کو زمین کے ٹکڑے فروخت یا لیزکر سکتی ہیں جنگلات اگانے کی اس اسکیم کو قابل عمل بنانے کے لیے اسے کمپنیز کے لیے منافع بخش بنانا ہو گا چنانچہ ان کمپنیوں کو یہ اجازت ہو کہ وہ زمین کا 20 فیصد کمرشل مقاصد مثلاً تھیم پارکس، سیاحتی ریزورٹ اور پکنک فارم کے طور پر استعمال کر سکیں۔ مزید 20 فیصد زمین پر ان کمپنیوں کو کمرشل TIMBER تجارتی لکڑی اگانے اور فروخت کرنے کی اجازت ہو۔
ان فاریسٹ پراجیکٹس کے لیے کمپنیاں گرین انرجی پاور پلانٹس، واٹر اور سیوریج پلانٹس اور ویسٹ مینجمنٹ پلانٹس کے قیام اور کام کے لیے قانونی طور پر پابند ہوں۔ CPGC کی کامیابی کے لیے چین پاکستان حکومتی نمایندوں، کاروباری تنظیموں کے نمایندوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اور ملکی ENVIRONMENTALISTS اور عالمی اداروں مثلاً WWF اور WHO وغیرہ کے نمایندوں پر مشتمل ایک نگراں بورڈ بنایا جا سکتا ہے۔ چائنا پاکستان گرین کوریڈور نہ صرف چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کی دور رس کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا بلکہ عالمی طور پر CPEC کے ساتھ ساتھ چین اورپاکستان کے لیے مثبت امیج بھی پیدا کرے گا۔