کالا باغ ڈیم کی تازہ بحث

کہا جاتا ہے کہ آیندہ سے ملکوں کے درمیان جنگیں بھی پانی کے حصول پر لڑی جائیں گی.


MJ Gohar December 05, 2012
[email protected]

اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں کو پانی کے بحران کا سامنا ہے، صرف پاکستان نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں بھی پانی کی کمیابی کے مسائل سر اُٹھا رہے ہیں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی ماہرین کے اندازوں کے مطابق 2025ء تک افریقہ میں ہر دو میں سے ایک ملک کو پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا، مستقبل میں پانی کی عدم دستیابی سے دنیا بھر میں تنازعات جنم لینے کے خدشات ایک عرصے سے ظاہر کیے جارہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ آیندہ سے ملکوں کے درمیان جنگیں بھی پانی کے حصول پر لڑی جائیں گی، ایک امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس وقت براعظم افریقہ کی 36 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا ہے اور ایشیا میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ پاکستان کو بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے پانی کی کمیابی کا سامنا ہے۔ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی ایک کوشش کی گئی لیکن بھارت اس معاہدے کی تواتر سے خلاف ورزی کرتا چلا آ رہا ہے، اس نے دریائے جہلم اور دریائے چناب کے پانی کو حاصل کرنے کے لیے بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے، جس سے اسے مجموعی طور پر 800 میگاواٹ کے قریب بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔ چند سال پہلے پاکستان نے عالمی بینک میں سندھ طاس معاہدے کی شق 8 ذیلی شق (سی) ضمیمہ جات ڈی کے تحت اعتراضات داخل کرتے وقت موقف اختیار کیا تھا کہ مذکورہ ڈیموں کی تعمیر کے بھارتی اقدام سے پاکستان کو 27 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ملک میں پانی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں صرف تین ہی بڑے ڈیم ہیں تربیلا، منگلا اور وارسک ڈیم۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں بڑی مقدار میں مٹی و ریت جمع ہونے کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں پچیس فیصد سے زائد کمی آ چکی ہے اور اس کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے اور پانی کی عدم دستیابی سے ملک کی زرعی ترقی متاثر ہو گی لہٰذا ملک میں نئے بڑے ڈیم بنائے جانے چاہئیں یا مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں۔ اس حوالے سے دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا تنازعہ وقفے وقفے سے سر اُٹھاتا رہتا ہے۔ گزشتہ ہفتے لاہور کورٹ نے حکم صاد کیا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل کی سفارشات کے مطابق کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے۔ اس فیصلے نے تنازعے کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ملک کے تین اہم صوبے سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سخت مخالف ہیں اور اپنے اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل بھی رکھتے ہیں جب کہ پنجاب اس ڈیم کی تعمیر کا خواہاں ہے، گویا کالا باغ ڈیم کی تعمیر چاروں صوبوں کے عدم اتفاق کے باعث کلی طور پر ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔

صائب الرائے حلقوں کا کہنا ہے کہ جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر سیاسی عدم اتفاق اور تکنیکی اعتراضات موجود ہیں تو دانشمندی اور دور اندیشی کا تقاضہ یہ ہے کہ متبادل آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی جائے کیونکہ اگر کالا باغ ڈیم کو بزور طاقت زبردستی تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تو چھوٹے صوبوں میں عوامی سطح پر شدید ترین ردعمل ہو گا اور قومی سلامتی اور ملکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آئیے اس ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے تکنیکی اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے کنسلٹنٹ پروفیسر سمیٹن اور مسٹر ٹسلی نے ڈیم کی فزیبلیٹی رپورٹ جلد II اور جلد XIII میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہاں ایک سو ساٹھ فٹ بلندی سے زیادہ کنکریٹ اسٹرکچر علاقے کے (Bedrock) کے کمزور ہونے کے باعث ممکن نہیں ہو سکتی۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کے مقام پر کسی بھی ڈیم کی تعمیر خطرناک ہو گی کیونکہ یہاں 9.0 ریکٹر اسکیل پر آنے والے زلزلے سے پورے علاقے میں تباہی پھیلے گی، نتیجتاً کالا باغ ڈیم بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔

8 اکتوبر 2005ء کو آنے والے زلزلے سے جو تباہی پھیلی تھی اس نے کالا باغ ڈیم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، امریکی خلائی پروگرام ناسا کی رپورٹوں میں بھی کالا باغ ڈیم کو ان علاقوں میں شامل کیا گیا ہے جہاں مستقبل میں امکانی زلزلے انسانی آبادیوں کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں، اس قدر حساس اور نازک صورتحال میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ غیر دانمشندانہ اور زمینی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر چھوٹے صوبوں کے اعتراضات بھی اپنے اندر وزن رکھتے ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بالخصوص خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ میں سیاسی اور عوامی ہر دو سطح پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کا موقف ہے کہ کالا باغ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر سے صوبے کا بیشتر علاقہ پانی میں ڈوب جائے گا، چونکہ کالا باغ ڈیم دریائے سندھ پر تعمیر کیا جانا ہے لہٰذا سندھ کے باسیوں کو خطرہ ہے کہ پنجاب دریائے سندھ کا خاصا پانی روک لے گا جس کے نتیجے میں سندھ کی زمینوں کو پانی نہیں ملے گا، فصلیں تباہ ہو جائیں گی، زرعی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور سندھ بنجر ہو جائے گا۔

یہ ٹھیک ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی سفارش کی تھی لیکن یہ دو دہائیوں قبل کی بات ہے اس کے بعد جنرل پرویز مشرف جیسے طاقتور حکمران بھی کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کروا سکے۔ کالا باغ ڈیم اب مکمل طور پر ایک سیاسی تنازعہ بن چکا ہے اور جب تک چاروں صوبوں کی سیاسی قوتیں اتفاق رائے حاصل نہ کر سکیں ڈیم کی تعمیر ممکن ہی نہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے سکھر ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، سندھ پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہے، انھوں نے کالا باغ ڈیم کو مردہ گھوڑا قرار دیتے ہوئے عدالتی فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ نے قوم پرستوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی قانون پر شور مچانے والوں نے کالا باغ ڈیم کے معاملے پر چپ سادھ لی ہے کیونکہ اب وہ پنجاب کے آلہ کار بن گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو عدالتی مارشل لاء قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہماری لاشوں پر ہی ہو سکتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ کا موقف ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ عدالت نہیں بلکہ پارلیمنٹ کرے گی۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ہم نے بکھرتے ہوئے وفاق کو بڑی مشکل سے سنبھالا ہے، ہم عدالتوں کا مکمل احترام کرتے اور ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان سے استدعا ہے کہ وہ سیاسی امور میں فیصلے پارلیمان کو کرنے دیں، لیکن اس امر کا کیا کیا جائے کہ جب سے عدلیہ نے آزادی کا نعرہ بلند کیا ہے متعلقہ و غیر متعلقہ ہر دو طرح کے معاملات عدلیہ کے سامنے اٹھائے جا رہے ہیں گویا تمام مسائل کو نمٹانے کی ذمے داریاں عدلیہ نے سنبھال رکھی ہوں۔ عدالتی فیصلے پر سندھ میں عوامی و سیاسی ہر دو سطح پر شدید رد عمل پایا جاتا ہے۔ پی پی پی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کے آیندہ اجلاس میں کالا باغ ڈیم جیسے سندھ اور پاکستان دشمن منصوبے کے خلاف قرارداد لائیں گے، ڈیم کی تعمیر پر ن لیگ بیان بازی سے ثابت ہو گیا کہ وہ وفاق کی سالمیت اور استحکام پر یقین نہیں رکھتی، چھوٹے صوبوں میں عوامی اور سیاسی سطح پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اس قدر شدید مخالفت یقیناً ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس کا ادراک کیا جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں